وزیر اعظم‘ جوش نہیں ہوش کی ضرورت ہے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
پاناما لیکس نے پاکستان کے سیاسی ماحول میں
ہل چل ہی نہیں مچائی بلکہ تہلکہ مچاکے رکھ دیا ہے۔ سیاست میں گویا بھوچال
آگیا ہے۔ سیاسی موسم نقطہ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف
اپنے نرم مزاج اور شائستہ طرز تکلم کی حامل شخصیت کے طور پر اپنا ایک مثبت
مقام رکھتے ہیں۔ ہم 2013سے ان کا تیسرا دور حکمرانی دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا
پہلا اور دوسرادور بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، بے نظیر، پرویز مشرف ،
آصف علی زرداری اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی مخالفت کو انہوں نے بہت ہی تحمل
اور برداشت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ موجودہ دور حکمرانی
میں عمران خان کے جلسے ، جلوسوں حتیٰ کہ دھرنوں کے دنوں میں جب تیسرے
ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے اشارے بھی ملتے نظر آرہے تھے میاں صاحب اس قدر
خوف زدہ یا پینک نظر نہیں آئے جتنے وہ پاناما لیکس کے سامنے آجانے کے بعد
نظر آرہے ہیں۔ عمران خان کی تند و تیز مخالفت ، پیپلز پارٹی کے ایک مضبوط
دھڑے کی مخالفت کے نتیجے میں ہونے والی گولا باری کے نتیجے میں پریشان اور
حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ میاں صاحب کا طرز عمل ، سیخ پا ہونا،سخت اور گرم
لہجے میں تند و تیز زبان کا استعمال ، میاں صاحب کو اپنا اقتدار ہاتھ سے
نکلتا تو نظر نہیں آرہا، کہیں انہیں یہ ڈر اور خوف تو نہیں ہورہا کہ
پاکستان کی اعلیٰ عدالت کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اپوزیشن کے
بنائے ہوئے ٹرمس آف ریفرنس TRO's کی روشنی میں غیر جانبدارانہ تحقیق کی تو
کہیں دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہ ہوجائے۔ سیف االرحمٰن کو تو کامیابی
حاصل نہ سکی کہیں پاناما لیکس حکومت کا دھڑن تختہ نہ کردیں۔
گزشتہ دنوں سکھر تا ملتان موٹر وے کے افتتاح کے موقع پر سکھر میں انتہائی
مختصر مگر انتہائی مہنگے دورے پر میاں صاحب نے اپوزیشن کے جو لتے لیے ، جس
زبان میں انہوں نے اپنے مخالفین سے گفتگو کی، ان کی باڈی لینگویج بتا رہی
تھی کہ میاں صاحب محسوس کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان ، بلاول بھٹو زرداری
اور سید اعتزازا حسن اگر اسی طرح حکومت پر چڑھائی کرتے رہے اور وہ اپنے
مقصد میں کامیاب ہوگئے تو میاں صاحب کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ حد تو یہ
ہے کہ میاں صاحب زور خطابت میں اتنے آگے نکل گئے کہ انہوں نے پاکستان کی
اپوزیشن اور دہشت گردوں کو ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنے والا کہہ ڈالا۔ اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن بقول میاں صاحب کے وہی مقاصد رکھتی ہے
جو دہشت گرد رکھتے ہیں تو پھر تو ان کے خلاف بھی وہی آپریشن ہونا چاہیے جو
دہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں میاں صاحب آئندہ یہی کچھ نہ
کہہ دیں کہ جو آپریشن ددہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے وہی اپوزیشن یا ان
لوگوں کے خلاف بھی ہو جو پاناما لیکس کے حوالے سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ
کر رہے ہیں۔ پھر میاں صاحب نے پاناما لیکس کی تحقیقات کو ایک سال قبل ہونے
والے تحریک انصاف کے دھرنوں سے بھی جوڑ دیا ۔ حالانکہ ان دھرنوں کا موجودہ
بحران سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
بات کچھ ہو بھی پاناما لیکس نے میاں برادران کی حکومت کے پاؤں تلے زمین
نکال کر رکھ دی ہے۔ ابھی تو اپنے آصف علی زرداری کھل کر میاں صاحب کی
مخالفت میں نہیں، بعض حلقوں کا تو خیال ہے کہ زرداری صاحب میاں صاحب کو
اپنی جانب جھکانے کے لیے کچھ دباؤ ڈلوارہے ہیں، اگر زرداری صاحب دل سے میاں
صاحب کی مخالفت شروع کردیں جس کے آثار دکھائی نہیں دیتے ، اس کے علاوہ ایم
کیو ایم اپنے داخلی اور خارجی انتشار کے باعث کھل کر میاں صاحب کی مخالفت
کرنے کی پوزیشن میں نہیں، ان دونوں کی وجہ سے میاں صاحب پر دباؤ کچھ کم ہے۔
بصورت دیگر حالات اس سے کہیں مختلف ہوتے۔ سیاسی صورت حال کو بگاڑنے میں
سیاسی عناصر کا پورا پورا ہاتھ ہوتا ہے۔ میاں صاحب کی کچن کیبنٹ پاناما
لیکس کے معاملے پر کسی ایک بات پر متفق نہیں ، کوئی وزیر کوئی بیان دے رہا
ہے تو کوئی وزیر کچھ کہتا نظر آرہا ہے۔ وزیر کہہ رہے ہیں کہ آف شور کمپنیاں
شریف خاندان کی نہیں جب کہ میاں صاحب کے صاحبزادگان اس بات کا اقرار کرتے
ہیں کہ یہ کمپنیاں ہماری ہیں۔ اس قسم کے بیانات نے حالات کو خراب کیا،
اپوزیشن نے اس سے فائدہ اٹھایا ، اپوزیشن کا کام تو تاک میں رہنا ہوتا ہے
کہ ادھر حکومت نے کوئی غلط کام کیا ، اس نے فوراً اس کا واویلا مچاکر حکومت
گرانے کی کوشش کی۔ غلطی اس وقت ہوئی جب میاں صاحب نے کمیشن کے بنا نے کا
اعلان تو کردیا لیکن اس کے ضوابط یعنی ٹرمس آف ریفرنس TRO's اپنے طور پر
بنا کر قوم کے سامنے رکھ دئے۔مانا یہ کام حکومت کا ہی ہے لیکن یہ کیا بات
ہوئی کہ ہمارا احتساب کرو لیکن اس طریقے سے کرو۔ میاں صاحب اب زامانہ بدل
چکا ہے، آزاد میڈیا کا دور ہے، جمہوریت ہے، بولنے کی آزاد ی ہے۔ اب کوئی
بھی خواہ حکمراں ہی کیوں نہ ہر کام اپنی مرضی سے نہیں کرسکتا۔ اگر اس مرحلے
پر حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے لیتی اور انہیں ضوابط کی تشکیل میں شریک
کر لیتی تو بات اتنا آگے نہ جاتی، حکومت نے اِسے معمولی نوعیت کا معاملہ
سمجھا اور اپنے طور پر ضوابط کا اعلان کر دیا اس کے نتیجے میں اپوزیشن نے
سخت قسم کے ٹرمس آف ریفرنس بنا کر حکومت کے سامنے پیش کر دیے ان ٹرمس آف
ریفرنس TRO's نے حکومت کو سیخ پا کردیا کیونکہ ان ضوابط کا واضع پیغام یہ
ہے کہ تحقیقات سب سے پہلے شریف خاندان کی پانا ما لیکس کے حوالے سے کی
جائیں جب کہ حکومت اس کمیشن کے کام کو طول دینے کے موڈ میں تھی ۔ یعنی قیام
پاکستان سے تحقیق کرتے کرتے کمیشن جب تک پانا ما لیکس تک پہنچے گا ، موجودہ
حکومت کا اقتدار ختم ہوچکا ہوگا۔ چنانچہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اپوزیشن اتنی بھی کچی گولیاں کھیلی ہوئی نہیں۔ انہوں نے ترپ کا پتہ حکومت
کی جانب دے مارا جس سے میاں صاحب اور ان کی ٹیم آگ بگولہ ہوگئی۔ چیغ و پکار
، پریشانی ، پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس، جو منہ میں آرہا اگل رہے ہیں۔ ا
س سے صورت حال بہتری کے بجائے خراب ہورہی ہے ۔ وزیر اعظم کی بات درست ہے کہ
وہ اس مسئلہ پر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ لینی بھی نہیں چاہیے لیکن
جمہوریت کا خوبصورت حسن یہی ہے کہ مخالفین کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے۔
اچھا ہوا کہ اپوزیشن نے بھی TRO'sپر بات چیت اور باہمی صلاح مشورہ پر مسئلہ
کو طے کرنے کا عندیہ دیا اور وزیر اعظم نے بھی اپوزیشن کو کمیٹی بنانے کی
تجویز پیش کی جو پاناما لیکس پر بنائے جانے والے کمیشن کے لیے TRO's
پراتفاق پیدا کرے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میاں صاحب شروع ہی میں چھوٹے
میاں صاحب سے ملاقات کر لیتے اور یہ فیصلہ شروع ہی میں ہوجاتا جو اب ہونے
جارہا ہے تو دونوں جانب سے جو گولا باری ہوئی وہ نہ ہوتی۔
میاں صاحب کی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں
نہیں جائیں گے ۔ پارلیمنٹ تو جمہوریت کی شہہ رگ ہے، بنیاد ہے، منبع ہے۔ اب
تک تو میاں صاحب اور ان کے ساتھی اپوزیشن کو یہ تانا دیا کرتے تھے کہ
احتجاج، جلسے، جلوس ، دھرنوں کے بجائے پارلیمنٹ میں اپنے مطالبات لے کر
جائیں اب پاناما لیکس پر پارلیمنٹ سے میاں صاحب کا فرار کیا معنی رکھتا ہے۔
میاں صاحب پاناما لیکس کی پہلی قسط نے یہ طوفان برپا کیا، دوسری قسط آنے کو
تیار اور تیسری پر کام جاری ہے۔ پاناما لیکس پاکستانی سیاست اور معیشت میں
کیا ستم ڈھائے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا سر دست یہ کہنا غلط نہ ہوگا
کہ پاناما لیکس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ قوم کو اچھی طرح یاد
ہونا چاہیے کہ سوئس اکاؤنٹ اور سرے محل کی تحقیقات کا کیا بنا؟۔ میاں صاحب
کے چھیتے سیف الرحمٰن نے کیا کچھ نہیں کیا تھا، نتیجہ صفر، افتخار چودھری
صاحب نے اپنے دور میں آصف علی زرداری پر سوئس اکاؤنٹس کا مقدمہ دوبارہ
کھولنے کا حکم دیا ، نتیجہ صفر ، اس لیے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، اب بھی
اگر پاناما لیکس میں سے میاں صاحب کے بارے میں کچھ نکل بھی آتا ہے تو میاں
صاحب کو پاکستانی قانون کے تحت استثنیٰ مل جائے گا اور ان کا کچھ نہیں
ہوگا۔
میاں صاحب اقتدار کی فکر نہ کیجئے آپ کا نام پاکستان کی تاریخ میں تین بار
حکمرانی کرنے والے سیاست داں کی فہرست میں لکھا جاچکا یہ تاریخ کا حصہ رہے
گا۔ اب تو آپ کو اپنے جان نشین کی فکر کرنی چاہیے ۔ دیکھئے چھوٹے میاں صاحب
نے پنجاب کے لیے اپنا جانشین تیار کر لیا، آپ نے اپنے جانشینوں حسن اور
حسین کو کاروبار کی نظر کردیا ،عقل مند کون آپ یا چھوٹے میاں صاحب؟ انہیں
آپ اب سیاست میں لا نہیں سکتے ، اگر لاتے بھی ہیں تو انہیں بہت وقت اور
مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اب جو آپ کا جو جانشین نظر آرہا ہے اکثر تجزیہ
نگار اس جانب اشارہ بھی کر رہے ہیں، راقم بھی کئی ماہ قبل اپنے کالم میں یہ
لکھ چکا ہے کہ آپ کی صاحبزادی ’مریم نواز‘ شریف خاندان کی آئندہ رہنما ہو
سکتی ہیں۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں ، اچھا انتخاب ہے، پاکستان میں
خواتین کو ویسے بھی زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ مریم نواز کو عملی سیاست میں اس
طرح لائیں کہ وہ آپ کا بہترین متبادل ثابت ہوسکیں۔ لیکن اس انتخاب میں آپ
کو اپنی پارٹی کے اندر مشکلات ہوسکتی ہیں۔ آپ کی جماعت میں بعض مضبوط وزیر
بھی ہیں، سمدھی جی بھی تو ہیں جن کی خدمات طویل بھی ہیں اور وہ آپ کے وفا
دار بھی رہے ہیں۔ وہ بھی تو امیدوار ی کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ لیکن آپ کے
خاندان کے لیے ’مریم ‘سے بہتر اور چھا انتخاب کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ |
|