آسام کا انتخاب: کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

بہار مشرقی ہند کا دروازہ ہے اس کے آگے مشرق کا گہوارہ بنگال ہے اور پچھواڑہ آسام ہے۔ اتفاق سے ان تینوں ریاستوں میں ایک کے بعد ایک انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔ کانگریس کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو تینوں مقامات پر اس نے مختلف حکمت عملی اختیار کررکھی ہے جس سے نہ صرف عوام بلکہ سیاسی مبصرین تک حیرت زدہ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی گوں ناگوں مجبوریوں تو وہی جانتے ہیں اس لئے کہ جس کے جوتے میں کیل دھنسی ہوتی ہے،اسی کو در دکا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود کبھی وہ کیل کی مصیبت سے نجات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور کبھی نہیں ہوپاتا۔ یہ فطری امر ہے کہ کسی دوڑ میں سارے لوگ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سیاست کی مسابقت میں تو چاندی اور کانسہ پانے والے بھی ناکام قرار دئیے جاتے ہیں ۔ اس دنیا کا زرین اصول ہے کہ سونا لاو یا گھر جاو۔
بہار میں کانگریس ایک دوسرے کے جانی دشمن لالو اور نتیش کو یکجا کرکے مہاگٹھ بندھن شامل ہوگئی لیکن بنگال میں دائیں بازو کی جماعتوں اور ترنمول کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ صرف اشتراکیوں کے ساتھ اشتراک عمل پر اکتفاء کیا گیا۔ آسام میں کانگریس سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ مولانا اجمل کی اے یوڈی ایف کے ساتھ متحد ہو کر انتخاب لڑے گی تاکہ بی جے پی کے طوفان بلاخیز کا مقابلہ کیا جاسکے لیکن اس نے تنہا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ بہار کے کامیاب تجربے کے بعد بظاہر یہ حکمت عملی تعجب خیز ہے لیکن اگرگہرائی میں جاکر دیکھا جائے یہی درست ہے۔بہار میں صورتحال یہ تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی ملی تھی اس سے زعفرانیوں کے حوصلے بلند تھے ۔ بی جے پی کو خشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور اور پاسوان کی لو ک جن شکتی پارٹی کی حمایت پہلےہی حاصل تھی ۔ اس میں تازہ اضافہ سابق وزیراعلیٰ جیتن کمار مانجھی کی نوزائیدہ ہندوستانی عوام مورچہ کاتھا جس کے بارے میں یہ خوش فہمی پائی جاتی تھی کہ سارے مہادلت ان کے ساتھ این ڈی اے میں آجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں بی جے پی کی کامیابی کا شور سنائی دینے لگا تھا اور سشیل مودی کو ہرروز وزارت اعلیٰ کے خواب دکھائی دینے لگے تھے۔

سشیل مودی سے بڑا مسئلہ وزیراعظم نریندر مودی کا تھا۔ اول تو وہ نتیش کمار کو ان کی نامزدگی کے سبب این ڈی اے سے الگ ہونے کی قرار واقعی سزا دینا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ دہلی کی شکست کو استثنائی صورتحال قرار دے کر پھر ایک بار اپنے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم باقی رکھنا چاہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ بہار میں خطرہ سنگین تھا اور اگر تکونہ یا چوکورانتخاب ہوتا تو بی جے پی بڑے آرام سے کامیاب ہوجاتی۔ اسے ہرانے کیلئے دوقطبی مقابلہ ناگزیر تھا ۔ مغربی بنگال میں صورتحال ایسی نہیں ہے۔ وہاں فی الحال کوئی بڑا سےبڑا مودی بھکت بھی بی جے پی کے اقتدار کا سپنا نہیں دیکھتا ۔ آسام میں مسلمانوں کی تعداد مغربی بنگال سے زیادہ ہے بلکہ کشمیر کے بعدتناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مسلمان اسی ریاست میں ہے ۔ وہاں پر مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بھی ہے ۔ آسام میں بی جے پی نے اے جی پی اور بوڈو فرنٹ سے اتحاد کررکھا ہے اس لئے اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں اس کے باوجود کانگریس نے مولانا اجمل کی جماعت کے ساتھ الحاق کیوں نہیں کیا؟

اس سوال کا جواب زمینی حقائق میں پوشیدہ ہے؟ فرض کیجئے کہ کانگریس اے یو ڈی ایف کے ساتھ معاہدہ کرلیتی تو کیا ہوتا؟ کانگریس کو اندیشہ ہےایسا کرنے سے اس کاہندو ووٹ بی جے پی کی جھولی میں چلا جاتا۔ اس طرح بی جے پی کیلئے اے یو ڈی ایف اور کانگریسی امیدوار کو ہرانا آسان ترہوجاتا۔ جن علاقوں میں اے یو ڈی ایف مضبوط ہے وہاں کانگریس بی جے پی کے ہندو ووٹ کاٹے گی اور جہاں اے یو ڈی ایف کی حالت پتلی ہے وہاں کے مسلمان کانگریس کو ووٹ دیں گے ایسے میں دیگر ہندووں کو ساتھ لے کر کانگریس کیلئے بی جے پی کو ہرانا سہل ہوجائیگا۔ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کے بجائے خلاف انتخاب لڑنے میں فی الحال فائدہ ہے اگرکمی رہ جائے تو بعد از انتخاب اتحاد کا دروازہ کھلا ہی ہے۔
اس جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بنگال میں جو مجبوری برسرِ اقتدار ترنمول کانگریس کو بی جے پی کے ساتھ جانے روک رہی ہے آسام میں وہی رکاوٹ برسرِ اقتدار کانگریس کواے یو ڈی ایف سے ہاتھ ملانے سے منع کررہی ہے۔ بنگال میں ترنمول مسلمانوں کی ناراضگی سے بچنے کیلئے بی جے پی سے عارضی دوری بنائے ہوئے ہے اور آسام میں کانگریس پارٹی ہندو رائے دہندگان کی خوشنودی کی خاطر یونائیٹڈ فرنٹ سے کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے ہے لیکن جس طرح بنگال کے اندر انتخابات کے بعد ترنمول اور بی جے پی کا اتحاد ممکن ہے اسی طرح آسام میں کانگریس اور اے یو ڈی ایف بھی یکجا ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تو آسام میں جموں کشمیر کے طرز پر بی جے پی اور اےیو ڈی ایف اتحاد کے بھی چرچے ہونے لگے ہیں ۔ ایک خبر کے مطابق بی جے پی کی حلیف اے جی پی کانگریس کے ساتھ پینگیں بڑھا رہی ہے ت۔بحالت مجبوری یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کانگریس باہر سے اے جی پی ، اے یو ڈی ایف اور بوڈو فرنٹ کے اتحاد کی حمایت کرے اور بی جے پی ہاتھ ملتی رہ جائے۔ سیاسی بازار میں چونکہ ہر شے بکاو ہے اس لئے کوئی چمتکار ناممکن نہیں۔بقول شاعر؎
خریدنا ہے تو فوراًخریدئیے صاحب
کھلونےٹوٹ بھی جاتے ہیں آزماتے ہوئے (ترمیم شدہ)

اقتدار کو حاصل کرنے یاجاری و ساری رکھنے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کومختلف مقامات پرطرح طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ کہیں پر یہ لوگ ہندوتوا کے خلاف سیکولرزم کے نام پر متحد ہوجاتے ہیں ۔ کہیں پر ظلم وجبر کو ختم کرنے کا بہانہ بنا کر جزوی اتحاد قائم کرلیتے ہیں اور کہیں تنہا انتخاب لڑتے ہیں ۔ عوام کو بے وقوف بنا نے کیلئے کوئی اچھے دنوں کے خواب دکھاتا ہےکبھی سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی سیکولرزم کی دہائی دیتا ہے ۔ کوئی ترقی پسندی اورروادری کا راگ الاپتا ہے ۔کوئی بدعنوانی کے خاتمہ کا عہد کرتا ہے تو کوئی ہندوتوا کولاحق خطرات کا رونا روتا ہے لیکن ان انتخابی نعروں اور قسموں وعدوں کی حیثیت ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں سے زیادہ نہیں ہے۔ عوام ہاتھی کے ان خوبصورت دانتوں سے بار بار دھوکہ کھاتے ہیں اور جھانسے میں آجاتے ہیں اس لئے اس جمہوری نظام میں ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس نظام میں نہ صرف عوام بلکہ سیاسی جماعتیں بھی مجبور ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی مجبوری عارضی ہوتی ہے ۔ انہیں کبھی نہ کبھی ، کیسے کیسے نہ کیسے، کلی یا جزوی اقتدار نصیب ہوجاتا ہے لیکن عوام الناس کا یہ حال ہے کہ ان کے حصے میں خالی خوابوں اور کھوکھلے وعدوں کے سوا کچھ نہیں آتا پھر بھی وہ جمہوریت کے نشے میں بدمست جھومتے رہتے ہیں۔

تمل ناڈو کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ابھی تک سخت گرمی کے سبب جئے للیتا کے جلسوں میں ۵ افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔حزب اختلاف کی شکایت پر انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے ریاست کے چیف سکریٹری سے وضاحت طلب کی ہے کہ جہاں گرمی کے سبب ضلعی انتظامیہ نے عوام پر دوپہر گیارہ سے چار کے درمیان باہر نکلنے پر پابندی لگا رکھی ہے اس طرح کے عوامی جلسے کی اجازت کیوں دی گئی ؟ لیکن اندھے بہرے عوام کو اور ان کے بے حس رہنماوں کواس کی فکر کب ہے؟ وزیراعلیٰ جئے للیتا کا ہیلی کاپٹر رات میں جلسہ گاہ تک نہیں پہنچ سکتا وہ اپنی صحت کے باعث گاڑی سے آنہیں سکتیں اس لئے بھری دوپہر میں خطاب رکھا جاتا ہے۔ عوام جوق درجوق اپنی جان پر کھیل کر ان جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور بیمار ہوکر گھر جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھار ان کی لاشیں ہی گھر پہنچتی ہیں۔ اس انتخاب کے کھیل نے پوری قوم کا دماغ ماؤف کررکھا ہے صرف سیاستدان اور ان کے سرپرست سرمایہ دار ہیں کہ جن کے وارے نیارے ہیں۔عوام کی اندھی عقیدت اورجئے للیتا کے جلسوں ہونی والی واردات رحمٰن فارس کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کے لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452779 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.