قومی سطح پر کمیونسٹوں نے کئی مرتبہ
کانگریس کی حمایت کی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اشتراکیوں کے باہمی انتشار
کی بنیادی وجہ کانگریس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ ایک زمانے میں کمیونسٹ
پارٹی ملک میں سب سے بڑی حزب اختلاف تھی مگر جب پنڈت نہرو نے سوویت یونین
سے دوستی کرلی تو کچھ اشتراکی کانگریس کے تئیں نرم پڑ گئے۔ اس نرمی کے جواب
میں گرم دل نے سی پی ایم قائم کرلی جو چین نواز تھی۔ اس میں سے مسلح جدوجہد
کے حامی نکسلباری الگ ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے ان تین دھڑوں میں سے سب سے
زیادہ انتخابی کامیابی سی پی ایم کو ملی لیکن اس نے بنگال، منی پور اور
کیرالہ میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی خاطر تمام اشتراکی جماعتوں کو ایک
پرچم تلے جمع کیا اور کانگریس کے خلاف برسرِ پیکار رہی۔ بی جے پی کو اقتدار
سے دور رکھنے کی خاطر قومی سطح پر کمیونسٹوں نے کانگریس کی باہر سے حمایت
تو کی لیکن نہ حکومت میں شامل ہوئے اور نہ ساتھ مل کر انتخاب لڑا ۔
انتخابی عمل میں ان کا سب سے بڑا دشمن کانگریس پارٹی ہی رہی۔ کیرالہ میں
آج بھی یہ صورتحال ہے لیکن مغربی بنگال میں ترنمول کے برسرِ اقتدار آنے
سے سیاسی منظر نامہ بدل گیا۔ اب بنگال کی حدتک کانگریس پارٹی کمیونسٹوں کی
حریف نہیں ہے ۔ اس لئے ترنمول کے خلاف کمیونسٹ اور کانگریس اتحاد ممکن
ہوسکا ۔ مغربی بنگال میں مقابلہ ترنمول اور بائیں بازو کی جماعتوں کے
درمیان ہے جس میں ابتداء کے اندرترنمول کا پلہّ بھاری تھالیکن اب موسم بدل
گیا ہے اس لئے کہ کانگریس نے ممتا کے خلاف کمیونسٹوں کے ساتھ اتحاد کرلیا
اور سہ رخی مقابلے کی صورت بن گئی۔۔ بی جےپی نے گوکہ گزشتہ پارلیمانی
انتخاب میں سب سے بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے اپنے رائے دہندگان کی تعداد کو ۴
سے ۱۷ فیصد تک پہنچا دیا تھااس کے باوجود وہ بالکل اچھوت بن کر رہ گئی ۔
پچھلے صوبائی انتخاب سے قبل مغربی بنگال میں کمیونسٹ برسرِ اقتدار تھے ۔ ان
کو ہٹانے کیلئے کانگریس نے ترنمول کے ساتھ اتحاد کیا تھا اس بار ترنمول کو
اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے کانگریس نےکمیونسٹوں کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔
بنگال کے سیاسی نشیب و فراز پر نظر ڈالیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ جیسے
جیسے ترنمول کا اثرو رسوخ بڑھتا گیا کانگریس کے اثرات زائل ہوتے چلے گئے ۔
یہی معکوس تعلق بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی دکھائی دیتا ہے کہ
کمیونسٹ اتحاد کے زوال اور بی جے پی کے عروج کی رفتار یکساں رہی ہے۔ ایسے
میں کانگریس کمیونسٹ اتحاد کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ترنمول کانگریس
آگے بڑھ کر بی جے پی کے ساتھ الحاق کرلیتی ۔سچ تو یہ ہے کہ ہر کوئی یہ
چاہتا تھا۔ڈوبتی بی جے پی کو تنکے کا کیا جہاز کا سہارہ مل جاتا۔ یہی وجہ
ہے کہ ناراض امیت شاہ نے بگڑ کریہاں تک کہہ دیا کہ ممتا کے پانچ سال
کمیونسٹوں کے ۳۴ سالوں سے بدتر تھے۔ کانگریس بھی یہی چاہتی تھی کہ ترنمول
بی جے پی کے ساتھ چلی جائے تاکہ مسلمان ووٹرس ترنمول سے ناراض ہوکر اس کی
جھولی میں لوٹ آئیں ۔ ممتا کے دل میں بھی ارمان رہا ہوگا کہ صوبے میں بی
جے پی کے دوچار لوگوں کو وزیربنا کر مرکز میں ایک آدھ وزارت پر ہاتھ صاف
کرلیا جائے ویسے بھی وہ خود اٹل جی کی سرکار میں وزیرریلوے رہ چکی ہیں ۔
ہندوستانی سیاست میں اصول و نظریہ کی موت ہوچکی ہے اور سارا کاروبار ابن
الوقتی و مفاد پرستی کی بنیاد پر پھل پھول رہا ہے لیکن ترنمول کے پتے اور
بی جے پی کا پھول ایک ساتھ نہیں کھلا آخرکیوں ؟
اس سوال کا جواب مغربی بنگال میں مسلمان رائے دہندگان کی کثیر تعدادہے۔
ریاست میں ویسے تو اوسطاً مسلمانوں کی آبادی ۲۷ فیصد ہے لیکن وہ پوری
ریاست میں بکھرے ہوئے نہیں ہیں۔ وسطی بنگال کی ۴۰ نشستوں میں ان کی تعداد
۵۰ فیصد ہے۔اس کے علاوہ کولکاتہ اور اس کے گردنواح میں بھی بڑی تعداد میں
مسلمان بستے ہیں مجموعی حیثیت سے ۱۴۰ نشستوں میں مسلمان ۲۰ فیصد یا اس سے
زیادہ ہیں۔ وسطی بنگال یعنی مالدہ اور مرشد آبادکے مسلمان بڑے پیمانے پر
کانگریس کے حامی ہیں لیکن کولکاتا کے گردونواح کے مسلمان ترنمول کے ساتھ
ہیں۔ یہی علاقہ ممتا بنرجی کا گڑھ ہے ۔۲۱۰۴ کے قومی انتخاب میں اس علاقے
سے ۱۵ فیصد رائے دہندگان ممتا کوچھوڑ کر بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے تھے
لیکن چونکہ ۵۶ فیصد میں سے یہ کمی واقع ہوئی تھی اس لئے نتائج پر اس کا اثر
نہیں ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ ممتا کو چھوڑ کر جانے والےیہ سارے رائے
دہندگان ہندوتھے اس لئے کہ مودی جی اگربابا رام دیو سے شیرش آسن سیکھ کر
سر کے بل کھڑے ہو جائیں تب بھی عام مسلمان ان کی قیادت میں بی جے پی کی
جانب راغب نہیں ہوں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ ترنمول کوخوداپنے گڑھ میں مسلمان
رائے دہندگان کی ناراضگی کے خوف نے بی جے پی کے ساتھ جانے سے باز رکھا ۔
ممتا بنرجی نے یقیناً بی جے پی کے سبب ہونے والے فائدے اور مسلمانوں کے چلے
جانے سے متوقع نقصان کا اندازہ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ کم از
کم انتخاب تک تو بی جے پی سے دور رہنے میں بھلائی ہے بعد میں اگر کمی رہ
گئی اور بی جے پی کچھ مقامات پر کامیاب ہوگئی تو اس کے ساتھ سودے بازی
ہوجائیگی ۔ بنگال کی بابت اس بات پر خاصہ اختلاف ہے کہ اس بار کامیابی ممتا
کو ملے گی یا کمیونسٹ پھر سے اقتدار میں آجائیں گے۔ ٹیلی گراف اور اے بی
پی چینل تو ممتا کی شکست کا اعلان کرچکا ہے مگر این ڈی ٹی وی ہنوز پر امید
ہے ۔ ویسے ممتا بنرجی کی جھنجلاہٹ اے بی پی کی تائید کرتی ہے۔ کبھی تو وہ
پولس اور الیکشن کمیشن پر بگڑتی ہیں اور کبھی کانگریس کے پاگل ہوجانے یا
کمیونسٹوں کے خودکشی کرلینے کا اعلان کرتی ہیں ۔اگر ایسا ہے تو انہیں اپنے
مخالفین کی اس حالت پر خوش ہونا چاہئے۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے یہ
کیوں کیا؟ ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ شاید وہ سمجھنا نہیں چاہتیں اس لئے کہ
اگر وہ اپنے آپ سے پوچھیں کہ انہوں نے کانگریس سے اتحاد کیوں کیا تھا ا؟ور
این ڈی اے میں شامل کیوں ہوئی تھیں؟ تو سب سمجھ میں آجائیگا۔
ملک کے سارے مبصرین کا اتفاق ہے کہ بی جے پی ۲۰۱۴ کےاپنے ۱۷ فیصد کو
برقرار نہیں رکھ پائیگی۔ خود امیت شاہ اور مودی جی مقابلے کے درمیان ہی ناک
آوٹ ہوکر رِنگ سے باہر آچکے ہیں ۔ اب گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ بی جے پی
جو ووٹ گنوائے گی وہ کہاں جائیں گے؟ ممتا کو امید ہے کہ بی جے پی سے اتحاد
کئے بغیر بھی ان ووٹرس کی گھر واپسی ہوجائیگی اور ان نیاّ پار لگ جائیگی۔فی
الحال مغربی بنگال کے انتخابی نتائج کا فیصلہ اتفاق سے انہیں بیزار رائے
دہندگان کے ہاتھوں میں چلا گیا جو پچھلی مرتبہ مودی لہر کے جھانسے میں
آگئے تھےمگر اب اچھے دنوں سے مایوس ہوکر سوچ رہے ہیں ’’میں اِدھر جاوں یا
اُدھر جاوں۔ بڑی مشکل میں ہوں میں کدھر جاوں‘‘ ۔ کولکاتہ اور اس کے
گردونواح کے یہ ووٹرس اگر لوٹ کر ترنمول میں آجاتے ہیں تو ممتا اکثریت میں
آجائیں گی ۔ بنگال کے دیگر علاقوں میں جوکمیونسٹ رائے دہندگان بی جے پی کے
ساتھ ہو گئے تھے وہ بھی واپسی کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اگر ان ۱۲ فیصد رائے
دہندگان میں سے چند فیصد بھی ترنمول کی جانب جھکاو محسوس کریں تو اس کا
اقتدار میں آنا یقینی ہوجائیگا اوروہ ۲۰۰ سے زیادہ نشستوں پر کامیاب
ہوجائیگی لیکن بصورت دیگر اگر یہ دیہاتی ووٹرس پھر سے سرخ پرچم تھام لیں
نیز شہری رائے دہندگان بھی ترنمول پر کانگریس یا کمیونسٹ پارٹی کو ترجیح
دیں تو تختہ پلٹ جائیگا ۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق ۲ سے ۳ فیصد کی سونگ نتائج
کو الٹ پلٹ کر رکھ دے گی۔ فی الحال اس کااندازہ ہے کہ ترنمول کے امکانات ۶۰
فیصد اور کمیونسٹ پارٹی کے ۴۰ فیصد ہیں لیکن کچھ بھی ہوسکتاہے ۔ |