غزوہ خندق (احزاب)
دشمن کے درمیان لشکر اسلام کا سپاہی
مختلف احزاب کے سرداروں کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوگئے تھے اس کی اطلاع
ملنے کے بعد اسی سردی اور طوفان کے عالم میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے جناب حذیفہ بن یمان کو معین فرمایا کہ وہ دشمن کے درمیان جا کر ان
کے حالات کی اطلاع حاصل کریں۔
جناب حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نکلا اور رات کی تاریکی میں دشمن کے خیموں
میں وارد ہوا وہاں میں نے دیکھا کہ شدید گرد و غبار آیا ہے اور خدا کے لشکر
یعنی (ہوا) نے نہ کوئی دیگ چھوڑی ہے اور نہ کوئی خیمہ باقی رکھا ہے اور نہ
آگ جل رہی ہے۔ میں احزاب کے سربرآوردہ افراد کے درمیان پہنچا اور وہیں بیٹھ
گیا۔ ابوسفیان کھڑا ہوا اور اس نے کہا ہر آدمی اس بات سے ہوشیار رہے کہ اس
کے پہلو میں جو بیٹھا ہے وہ کون ہے؟ حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اس
آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا جو میرے پاس بیٹھا تھا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تو
کون ہے؟ اس نے کہا” میں معاویہ ابن ابی سفیان ہوں۔ جو آدمی میرے بائیں جانب
بیٹھا تھا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھا کہ تو کون ہے۔ اس نے
کہا” میں عمرو بن عاص ہوں۔ پھر ابوسفیان نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ پائیداری
کا مظاہرہ نہیں کرسکتے کہ اس شدید سردی میں یہاں ٹھہریں، ہماری سواریاں
ہمارے گھوڑے کمزور ہو گئے اور ہمارے آدمی بیمار پڑ گئے۔ دوسری طرف یہودیوں
نے ہمارے ساتھ خیانت کی اور محمد کے ساتھ ساز باز کرلی ہے۔ شدید طوفانوں کو
دیکھو کہ جس نے ہمارے لیے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ یہ طوفان، ہماری آگ کو
بجھا رہا ہے، ہمارے خیموں کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں
خود سپاہیوں میں داخلی جنگ نہ چھڑ جائے۔ اس بنا پر ہم کو اپنا اثاثہ باندھ
کر مکہ پلٹ جانا چاہیے۔ ابھی سپیدہ سحری نما نہیں ہوا تھا کہ دس ہزار کے
لشکر نے نہایت ذلت کے ساتھ فرار کو ثابت قدم رہنے پر ترجیح دی اور مکہ کی
طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اس طرح خدا نے مسلمانوں کی قسمت میں نصرت اور دشمنوں کے
نصیب میں بکھرنا اور شکست اٹھانا قرار دیا۔
۲۲ ذی القعدہ چہار شنبہ کی صبح کو پیغمبر اور لشکر اسلام کے سامنے کفار کی
فوج میں سے کبھی باقی نہ تھا۔ سب بھاگ چکے تھے۔ پیغمبر نے اجازت دے دی کہ
مسلمان محاذ کو چھوڑ دیں اور شہر کی طرف لوٹ چلیں۔(سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۴۲)
شہدائے اسلام اور کشتگان کفر
اس جنگ میں آپس کے ٹکراؤ اور تیر اندازی کے نتیجہ میں لشکر اسلام کے چھ
آدمی درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان میں سے ایک سعد بن معاذ تھے جن کے ہاتھ کی
نس کو ایک تیر نے کاٹ ڈالا تھا وہ بنی قریظہ والے واقعہ تک زندہ تھے۔ چند
روز بعد شہید ہوگئے۔ مشرکین احزاب میں سے بھی تین افراد قتل ہوئے جن میں سے
2 کی ہلاکت علی علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی۔
جنگ احزاب کے بارے میں سورہ احزاب ۹ سے ۲۵ تک کی آیتیں نازل ہوئیں۔
سپاہ احزاب کی شکست کے اسباب
لشکر اسلام کا خندق کھودنا۔
احزاب کے بہادر اور شجاع پہلوان ”عمرو بن عبدود“ کا قتل جس نے کفار کے
حوصلوں پر برا اثر ڈالا۔
لشکر اسلام کا ثبات قدم اور پائیداری اور اپنے محاذ کی باقاعدگی نگہبانی
اور شہر مدینہ کی مکمل حفاظت۔
محاصرہ کرنے والوں کے لشکر اور چوپایوں کے لیے آذوقہ کی کمی۔
موسم کا ناساز گار ہونا اور جاڑوں کی شدید سردی میں حملے ہونا اہل مکہ کے
لیے ناسازگار تھا۔
دشمن کے جنگی اتحاد کا منتشر ہو جانا جو لشکر اسلام کے کمانڈر حضرت رسول
خدا کی فراست کا نتیجہ تھا۔
غیبی امداد۔ قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے کہ اے مومنوں! تم پر جو خدا کی
نعمتیں تھیں تم ان کو یاد کرو۔ اس وقت جب تمہارے ساتھ جنگ کے لیے لشکر آیا
ہوا تھا، تو میں نے ”ہوا“ کو بھیجا اور اس لشکر کو جس کو تم نہیں دیکھتے
تھے اور تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔ (احزاب:۹)
جنگ احزاب کا خاتمہ: قریش کے لیے مصیبتوں کا آغاز تھا۔ اس لیے کہ ایک طرف
تو قریش اور مشرکین میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں رہ گئی تھی اور
دیہاتی اعراب کے درمیان ان کی حیثیت بہت گر گئی تھی اور دوسری طرف جزیرة
العرب میں تحریک اسلامی کی حالت روزبروز مستحکم و مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔
اس کے بعد ابتکار عمل لشکر اسلام کے ہاتھوں میں تھا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بعد ان (قریش) سے ہم جنگ کریں گے یہ لوگ جنگ
کی ابتداء نہیں کرسکتے۔
جنگ احزاب کے بعد قریش کے اقتصادیات بہت زیادہ کمزور ہوگئے تھے جبکہ حکومت
اسلامی اقتصادی اعتبار سے مضبوط ہوگئی تھی، چنانچہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے مکہ کے قحط زدہ افراد کے لیے مالی امداد روانہ فرمائی۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |