مسور کی دال اکیلی تو نہیں پکائی جا سکتی
کیونکہ یہ گرم ہوتی ہے اس کو معتدل کرنے کے لئے اس کے ساتھ مونگی کی دال کو
مکس کیا جاتا ہے پھر یہ مزیدار بن جاتی ہے۔پیپلز پارٹی کی کال پر 3مئی کو
تمام اپوزیشن کی جماعتیں اسلام آباد میں اعتزاز احسن کے گھر میں اکٹھی
ہوئیں جس میں پانامہ لیکس کے حوالے سے میاں محمد نواز شریف کے استعفے کے
بارے میں بات چیت کی گئی ۔ کچھ پارٹیوں نے استعفے کا مطالبہ کیا اور بعض نے
اس کی مخالفت کی پیپلز پارٹی میں صرف اعتزاز احسن نے وزیر اعظم کے استعفے
کی بات کی اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب جب لندن میں چیک اپ کے بہانے
گئے تب میاں صاحب فلیٹ کے پیچھے زرداری صاحب کا فلیٹ ہے۔ تب ان دونوں میں
ملاقات ہوئی اور یہ طے کیا گیا کہ پیپلز پارٹی عوام کو دکھانے کے لئے میاں
صاحب کے استعفے کا مطالبہ کرے گی لیکن اندر سے دونوں لیڈر ایک ہیں۔ میاں
صاحب مطمئن ہو کر واپس آگئے بجائے اپنی اور اپنی اولادوں کی جائیداد
پاکستان لانے کا اعلان کرتے جس سے عوامم کے دل خوش ہو جاتے اور ساری زندگی
اقتدار کے مزے لوٹتے۔ میاں صاحب نے اُلٹا خیبر پختونخواہ سے عوامی رابطہ
مہم شروع کر دی ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ مولانا فضل الرحمان جو مولانا
ڈیزل کے نام سے جانے جاتے ہیں کھل کر ساتھ دیا کہ پانامہ لیکس ایک عالمی
سازش ہے اس لئے میں میاں صاحب کا بھر پور ساتھ دوں گا۔ وزیر اطلاعات پرویز
رشید، طلال چوہدری، دانیال عزیز اور خواجہ سعد رفیق جو بہت جلد جلال میں
آجاتے ہیں وزیر اعظم کو بچانے کے مشورے دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام اثاثے
بیرون ملکوں سے نکال کر واپس اپنے اصل ملک پاکستان میں لے آئیں بلکہ اُلٹا
یہ تمام وزراء اُن کا دفاع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور یوں لگتا ہے
کہ جیسے یہ عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہیں بلکہ کسی بادشاہ کے درباری ہیں
اور ان کا دین ایمان صرف میاں صاحب کی خدمت کرنا ہے اور ان کی خوشنودگی
حاصل کرنا ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہ کے وزیر خوشامدی ہوتے تھے۔ بادشاہ
اگر کوئی غلط کام کر دیتا تو وہ اُسے کہتے کہ آپ نے ٹھیک کیا ہے وہ اس لئے
کہ بادشاہ انہیں اونچا عہدہ دے دے یہی حال ن لیگ کے وزیروں اور مشیروں کا
ہے۔ میاں صاحب نے عمران خان کے پریشر کو توڑنے کے لئے اُن کے صوبے سے ہی
عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کے کہنے پر استعفیٰ دے دوں
یعنی اُن کا نشانہ عمران خان تھا میاں صاحب نے کہا یہ منہ اور مسور کی دال۔ |