کیا خدا کے چہیتے ہو ؟

ابھی کچھ مہینے ہی تو گذرے ہیں کہ ایک شامی بچے ایلان نے پوری دنیا کو اس وقت ہلا کر رکھا دیا تھا جب سمندر کنارے اس کی اوندھے منہ لاش کی تصویر سوشل میڈیا پر چھا گئی تھی ۔ انسانیت کا دل دہل گیا ، دنیا انسانیت کے نام پر جیسے جاگ اٹھی پناہ گزینوں کیلئے بند سرحدیں کھول دیں گئیں ۔ لیکن یہ صرف مختصر عرصے کیلئے تھا ۔ شام اُس وقت بھی جل رہا تھا اور آج بھی جل رہا ہے شام کے معصوم بچے آج پر بمباریوں اور آگ اگلتے ماٹر گولوں کی زد میں ہیں ، ماں اپنے جگر گوشوں کی لاش اٹھائے آسمان کی طرف منہ اٹھائے شکوہ کر رہی ہیں کہ اے خدا ، ماں کی آہ و فغاں سے تو آسمان بھی پھٹ جاتا ہے کیاتیرے مٹی سے بنے انسانوں کے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ روتی ماں کی چیخیں ان پر اثر نہیں کرتی ، باپ اپنے معصوم بچے کو اسپتال لیکر آتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ بچے کا لاشہ اپنے سینے سے لگا ئے روتا چلاتا ہوا محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑ سکتی ہے ، اس کو اپنی جان کی فکر نہیں لیکن وہ نہیں چاہتا کہ اس کے معصوم بچے کی لاش منوں مٹی میں ہمیشہ کیلئے دب جائے ، وہ اسے دفنا کر روز انسانیت کی بے حسی پر ماتم کرنے کا خواہاں ہے ، اقتدار کے پجاری بشار الاسد اور مسلم امہ کا دشمن روس اپنی طاقت معصوم بچوں پر آزما رہے تھے ، انکے لاشے بکھرے ہوئے تھے ، کسی بچے کی ٹانگیں نہیں تھی تو کسی کا سر دھڑ سے الگ ہوچکا تھا کسی کے بازو تن سے جدا تو کسی سینہ پھٹ چکا تھا ، جس چہرے پرماں اپنے بچے کو بوسہ دیتی تھی وہاں اب خون کے لوتھڑے تھے ، جس سر پر باپ کی شفقت کا سایہ تھا اس پر گرد اور خون کا سرخ سیلاب تھا ۔جوان بہنوں کی چادریں ان کے جسموں پر نہیں تو جوان بھائیوں کے لاشے اٹھانے والے خود نشانہ بن رہے تھے ، ایک ظلم و ستم کی ناقابل فراموش داستانِ حلب رقم ہو رہی ہے ،اسلام کے نام لیوا فرقہ واریت کے نمرود کی آگ میں پھینکے جا رہے تھے اور کلیاں گلاب بننے سے قبل مرجھا رہے ہیں ا ن کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کراہٹ میں تبدیل ہوچکی تھی تو ان کی شوخ ہنسی ، تکلیف کی صدا سے فضا میں تلاطم پیدا کر رہی تھی ۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ یہ مسلمان تھے ، ظالم و جابر بشار الاسد کی جابرانہ حکومت کو ماننے سے انکاری تھے ۔ ارے دنیا میں جمہوریت کے پرچارکوں یہ کون سا قانون ہے کہ اگر کسی کی حکومت کو نا مانا جائے تو ان کے جسموں میں اتنی گولیاں داغ دو کہ شمار نہ آسکے یہ کونسے اسلام کے حکمرا ں ہیں کہ ان کے دل اور ہاتھ کانپتے نہیں کہ ان کا نشانہ جنت کے پھول بن رہے ارے ظالموں ان کو مہکنے تو دو ، ابھی تو ان میں جوانی کی خوشبو بھی بکھری نہیں ہے ، ابھی تو ان کی نگاہ شوخ میں کسی کے خواب بھی نہیں جاگے ، ابھی تو انھیں گلیوں میں جاکر کھیلنا تھا ، ان کی کلکاریوں سے گھر کی فضا مہکنے تھی ، ابھی تو ان کی شرارتوں سے ماں باپ کو تسکین ملنی تھی ، ظالموں کون سا اسلام لا رہے ہو ، کس پیغمبر کے ماننے والے ہو یہ تو بتا دو ۔ ہر وقت یہ تو بتاتے ہو کہ حضرت نبی اکرم ﷺ پر یہودی عورت کچرا پھینکتی تھی ایک دن نہیں پھینکا تو حضرت نبی اکرم ﷺ ان کی خیریت کا پوچھنے چلے گئے ، تم تو بم گرا رہے ہو انھیں بھوکا پیاسا مار رہے ہو ، کیا اسی رحمت العالمین ﷺ کی امت ہونے کا دعویدار ہو ۔ کیا بھول جاتے ہو کہ حسن اور حسین حضرت محمد ﷺ کی پشت پر سواری کرتے تھے کیا ان کی کوئی ایسی تعلیمات ہیں کہ کسی کے جگر گوشوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرکے ان کے لاشے دریا کنارے سڑنے کیلئے پھینک دو ، اے حلب و عجم کے حکمرانوں کس اسلام کے ماننے والے ہو کہ کربلا کو بھول جاتے ہو کہ 10دن میں کتنے پیاسے تھے ، کیا یہی درس حسینی ہے کیا کربلا سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ المضایا جیسے کئی علاقوں کا محاصرہ اس طرح کرلو کہ مسلمان جانوروں کا گوشت کھائیں حلال جانور ختم ہوجائیں تو کتے بلیوں کو کھائیں ، حرام جانور ختم ہوجائیں تو پودوں کے پتے کھائیں مائیں اپنے بچوں کو پانی میں گھاس ابال کر دیں ، اس کے سینے میں دودھ کی جگہ خون آتا ہو کہ اس کی اولاد کو جینے کیلئے بھی ایک وقت کی آدھی روٹی بھی میسر نہیں ۔ کتنا نوحہ کرنا ہوگا کتنا ماتم کرنا ہوگا کہ سال بھر سے محاصرہ کرکے انسانیت کی دھجیاں بکھرچکی ہیں ، کون سا اسلام ہے کس حکمران کا ساتھ دے رہے ہو ، ان انسانوں کا کیا قصور ہے کیا انھوں نے بشار الاسد کے خزانوں پر قبضہ کر رکھاہے کہ اس کو بچانے کیلئے دنیا بھر سے لالچ دیکر فرقوں کے نام پر ایسے انسان لاتے ہو جو خود اپنے وطن سے بھی بے گھر بے وطن ہیں ، مقدس ہستیوں کے نام پر جذبات اُبھار کر انسانیت کا قتل عام کس اسلام نے سیکھایا ہے۔ کیااپنے بچے کے پیر میں کانٹا چپنے کی تڑپ سے بیگانے ہو ۔ ماں صدقے واری ہوکر اس کو اپنی کلیجے سے لگاتی ہے کہ اس کے درد کا احساس کم ہوجائے ، لیکن اُس ماں پر کیا بیتی ہوگی کہ جب اس کا معصوم بچہ کسی کی "جنت" کا ایندھن بننے جا رہا ہو ، کون سی جنت میں جانا چاہتے ہو ، کیا پل صراط کے بجائے انسانیت کی لاشوں کا پل بنانا چاہتے ہو کہ پل صراط سے گذرنا نہ پڑے ۔ کیا کبھی تم نے ان معصوم گلابوں کو دیکھا ہے ، نہیں نہیں ، یہ ان کی سرخی گلاب کی سی نہیں بلکہ یہ انکے لاشے خون سے تر ہیں ۔ ان کے ہونٹوں پر اب اپنی ماں سے کوئی فرمائش نہیں ہے ، انھیں اب ڈر بھی نہیں لگتا کیونکہ انھیں اُس دھرتی ماں نے گود میں لے لیا ہے جہاں ہم سب کو جانا ہے ۔ کبھی ان بچوں کی آنکھوں میں دیکھا ہے کہ ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ کیا اسلام کے نام پر سلامتی کا پیغام دے رہو یا سزا دے رہے ہو۔والدین اپنی جانیں بچائیں کہ بچوں کی جانیں بچائیں ، سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں تند و تیز موجوں میں خود کو سنبھالیں کہ بھوک و پیاس سے بلکتے جگر گوشوں کو سنبھالیں ۔ ماں ان کو لوریاں دے یا ان کے کانوں پر ہاتھ رکھے تاکہ توپوں و طیاروں کی گھن گرج سے ان پر خوف کا لرزہ طاری نہ ہو ۔ زمین کے ٹکڑے کیلئے جنگ کرنے والوں ،اسلام لانے کیلئے کیمونسٹوں کا سہارا لیتے ہو ۔ بت شکن بننے کے بجائے بت تراشتے ہو ۔ کونسا اسلام ہے تمھارا کہ کلمہ گو بھائی پر ، بہن پر ماں پر باپ پر ان کے خاندان پر ان کے کچے پکے مکان پر خدا کی ذات سے منکرین سے بمباریاں کراتے ہو جو نہ تو تمھارے خدا کو مانتے ہیں نہ تمھاری جنت و جہنم کو، نہ آخرت کو نہ مکافات عمل کو ، کیا تم بھی یہی سمجھتے ہو کہ مرنے کے بعد تم سے نہیں پوچھا جائے گا ، پھر کیوں ان یہودیوں سے پر سرو پیکار ہو جو خود کو خدا کی چہتی اولاد کہتی ہے ، تمھیں تو مکافات عمل پر یقین بھی نہیں ہے۔ میزان خداوندی میں یہ تو ضرور پوچھا جائے گا کہ ایلان کی طرح کتنے جگر گوشوں کو اپنی سفاکیت کی بھنیٹ چڑھا کر آئے ہو ، کیا اس نبی کی امت ہو جس پر کفار اتنا ظلم کرتے کہ نعلین مبارک خون سے تر ہوجاتے لیکن پھر فرماتے کہ اﷲ یہ ناسمجھ ہیں ۔ کیا تم نا سمجھ ہو؟ کیا یہود و نصاری کی طرح تم خود کو خدا کی چہتی اولاد تو نہیں سمجھنے لگے ہو ۔ کیا خدا کے چہیتے ہو ؟؟
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.