پانامہ لیکس کے بعد ملک میں حکومتی اور
اپوزیشن جماعتوں میں جاری محاذ آرائی او ررستہ کشی کا کیا نتیجہ نکلتاہے اس
سے قطع نظر حکمران جماعت پی ایم ایل (ن) نے صوبہ کے پی کے میں اپنی گرتی
ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے او ریہاں کی PTIکی حکومت پر ضرب لگانے کیلئے
مختلف شہروں کے دوروں اور ترقیاتی سکیموں کے اعلان کا سلسلہ شروع کردیا۔
ضلع مانسہرہ کا دورہ نواز شریف کرچکے ۔ اربوں روپوں کی سکیموں کا وہاں
اعلان کیا۔ مانسہرہ کے دورہ کے بعد حکمران جماعت کی اتحادی جماعت JUT(F) نے
موقع کو غنیمت جانا اور انہوں نے بھی نواز شریف کے ساتھ مل کر بنوں اور
ڈیرہ اسماعیل خان کے وزٹ ترتیب دئیے۔ دونوں جماعتوں کے کا مرکز میں گٹھ جوڑ
ہے۔ کے پی کے میں JUI (F)نے صوبائی حکومت تشکیل میں آنے سے پہلے بڑا زور
لگایا کہ اگر PML (N) انکا ساتھ دیدے تو PTIکی حکومت نہ بننے دی جائے لیکن
نواز شریف نے جمہوری فیصلہ کرتے ہوئے اس جماعت یعنی PTIکو حکومت بنانے کی
دعوت دی جن کے پاس سب سے زیادہ نشستیں تھیں ۔ یوں گذشتہ 3سالوں سے کے پی کے
میں PTIکی حکومت قائم ہے جو JUI (F)کوکسی بھی طریقے سے ہضم نہیں ہورہی ہے۔
انہیں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ واپڈا کا محکمہ
جن کے بڑے اعلی افسران مولانا برادران کی سفارش پر ہی لگائے جارہے ہیں ، نے
صوبہ کو لوڈشیڈنگ کے ایک ایسے عذاب مسلسل میں مبتلا کررکھا ہے جو عذاب
زرداری دو رمیں پنجاب میں شہباز حکومت اور عوام کو برداشت کرنا پڑا۔ واپڈا
محکہ گیس اور اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے سلسلے میں موجود تحفظا کے
باعث JUI (F) او رPMLN کی ساکھ صوبہ کے پی کے میں بری طرح متاثر ہورہی ہے
جبکہ PTIکے تین سالہ دور کا اگر موازنہ ایم ایم اے اور اے این پی کے دور سے
کیا جائے تو حالات گذشتہ دو صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ ایسے
حالات میں جب PML(N) اور JUI (F) دونوں کا صوبے میں گراف نیچے گرر ہاہے کو
سنبھالا دینے اور عوام کی وجہ پانامہ لیکس سے ہٹانے کیلئے ہر دو جماعتیں
اپنے اپنے مفادات کیلئے میدان میں سرگرم ہوگئی ہیں۔ PML(N) کا ضلع ہزار میں
وجود ہے لیکن دیگر اضلاع میں ان کی حالت پتلی ہے۔ لیکن JUI(F) جو صوبہ کے
پی کے میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے ، کسی بھی طرح سے اپنے گھر میں ایک نو
مولود جماعت کوگھس بیٹھنے کا موقع فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت
کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ اسلام کے نام پر زیادہ عرصہ تک عوام کو
بیوقوف نہیں بنایاجاسکتا۔ عوام اب کارکردگی چاہتی ہے۔ جمہوریت کا یہ حسن ہے
کہ عوام کا سامنا کم از کم الیکشن میں تو کرنا پڑتاہے۔ بدقسمتی سے ہماری
تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے بعد ایسے غائب ہوتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے
سینگ۔ عوام سے انکا کوئی واسطہ نہیں ہوتا او رنہ ہی عوام کے مسائل سے
الیکشن کے وقت یہ پھر اپنے ایئرکنڈیشن کمروں، گاڑیوں ، ایوانوں سے نکل کر
میدان میں صرف ووٹ مانگنے آجاتے ہیں۔ صوبہ کے پی کے ویسے ہی پسماندہ صوبہ
ہے۔ یہاں کے اضلاع تعلیمی اداروں میں فنڈز اور گیس، بجلی کا رونا گذشتہ تین
سالوں سے رو رہے ہیں لیکن کسی بھی مرکزی اور صوبائی حکمرانوں اور یہاں کے
عوامی نمائندوں نے ان کی طرف توجہ نہ دی۔ اب پانامہ لیکس کی پٹاری سے یہاں
کے پسماندہ علاقوں جن میں بنوں، ڈیرہ سرفہرست ہیں کے دوروں کا شیڈول نکلا۔
بنوں میں وزیراعظم نے انٹرنیشنل ائیرپورٹ، صنعتی زون اور لکی مروت کیلئے
ایک یونیورسٹی کا اعلان کیا لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ جو 14مئی کو طے
تھا اب وزیراعظم کے ترکی کے دورے کے باعث ملتوی ہوکر 17مئی کو ہوگا۔ ڈیرہ
اسماعیل خان میں نواز شریف نے اقتصادی راہداری روٹ کا یارک کے مقام پر
افتتاح کرناہے جسکے بارے میں اگر صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہ لیا گیا
اور وہ تمام تر سہولیات اور منصوبہ جات فراہم نہ کئے گئے جو مشرقی روٹ کو
دیئے جانے ہیں تو اس افتتاح کا بھی وہ حال ہوگا جو چند ماہ قبل ژوب کے ضلع
میں افتتاح کاہوا تھا جسے تمام تر سیاسی جماعتوں بشمول JUI (F) نے شامل
ہونے کے باوجود مسترد کردیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ PTI کی صوبائی
حکومت کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ انہیں مرکزی حکومت مدعو بھی کرے
۔ وہ آئیں یا نہ آئیں انکی مرضی ، وزیراعلی کے پی کے کے حال ہی میں اپنے
بیان میں کہاہے کہ اقتصادی راہداری کے مخالف نہیں بلکہ ناانصافی و جانبداری
کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ان کے مطابق مذکورہ منصوبے میں صوبہ کی عوام کو
دھوکہ دیا جارہاہے۔ وزیراعظم ڈیرہ میں 2.6ارب روپے کی لاگت سے مارجنل بند
کی منظوری کے علاوہ سی آر بی سی فیز ٹو کا بھی افتتاح کریں گے جبکہ 80کروڑ
روپے گیس کے ترقیاتی فنڈ کی نوید بھی ڈیرہ کی عوام گشتہ تین سالوں سے سن
رہی ہے لیکن مولانا براران نے ٹکے کاکام گیس کی مد میں نہیں کیا۔ سوئی گیس
تو ڈیرہ کو فیصل کنڈی کے دور میں مل چکی ہے اور اسے دیگر آبادیوں تک
پہنچانے کاکام بھی عوام کو 3سالوں تک ذلیل و خوار کرنے کے علاوہ اس سستی
سہولت سے محروم رکھاگیاجس کی تمام تر ذمہ داری مولانا برادران پر عائد ہوتی
ہے۔ گذشتہ تین سالوں تک انکا عوام سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ اب نواز شریف کو
بلاکر وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ ان کے
دو رمیں ڈیرہ ائیرپورٹ تمام تر فلائٹس کیلئے بند ہوگیا۔ نیشنل بنک کا ریجنل
دفتر ختم ہوگیا۔ 12سے 18گھنٹوں کی لوشیڈنگ کا عوام کو سامنا ہے۔ مسائل
JUI(F) کا آئندہ آنے والے الیکشن میں پیچھا کریں گے۔ ہا ں البتہ جھوک لدھو
مارجنل بند اور سی آر بی سی فیز ٹو کے منصوبے اگر افتتاح ہونے کے بعد تکمیل
کو پہنچتے ہیں تو ان کا کریڈٹ مولانا برادران کے کھاتے میں جائیگا۔ اقتصادی
راہداری کی جو سڑک ہمیں مل رہی ہے وہ قدر ت کا عطیہ ہے ۔ ہمارا شہر ڈی آئی
خان محل وقوع کے لحاظ سے بہترین مقام پر ہے اسمیں کسی جماعت کا کوئی کریڈٹ
نہیں ہے۔ نواز شریف کے دورہ ڈیرہ کے موقع پر اہل تشیع حضرات نے بھی جن کے
4نوجوان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ان کے قاتلوں کو
گرفتار نہ کیا گیا تو وہ 17مئی کو احتجاج کریں گے جبکہ ڈیرہ کی تاجر برادری
نے ڈیرہ ائیرپورٹ کو فوری طورپر کھولنے انٹرنیشنل اور مقامی پروازوں کے
آغاز کیساتھ ساتھ واپڈ اکے سرکل اور گومل یونیورسٹی کیلئے گرانٹ کا مطالبہ
بھی کررکھاہے ۔ اﷲ کرے نواز شریف ڈیرہ آئیں اور یہاں کی محرومیوں کا ازالہ
کریں۔ PML(N) کے مقامی عہدیداروں جو پہلے ہی سے کئی گروپوں میں تقسیم تھے
ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی دوکان بنارکھی تھی مزید اختلاف اور انتشار
کاشکا رنظر آتی ہے۔ |