سرحدپارسے مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے حق کی
صدائیں مزیدشدت اورتوانائی سے گونجنے لگی ہیں۔بھارت کی جواہر لعل یونیورسٹی
کے پروفیسرماہرتعلیم نویدتامنین نے طلباء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے
کہاکہ ''جموں وکشمیربھارت کاحصہ نہیں ہے اوریہ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت نے
کشمیر پرغیرقانونی قبضہ جمارکھاہے اس لئے مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کیلئے عوام
کے اٹھتے نعرے حق بجانب ہیں... غیرملکی جرائداورذرائع ابلاغ بھارت کوقدرے
مختلف نقشہ دکھاتے ہیں جیسے ٹائم اورنیوزویک کے شماروں میں متنازع علاقوں
کی حقیقی پوزیشن دکھائی جاتی ہے۔ایسے جرائداوران کے شمارے بھارت میں بڑا
سیاسی طوفان پیدا کرتے ہیں،یہاں سچ برداشت نہیں ہوتاچنانچہ نیوزویک اورٹائم
کی کاپیاں ضبط ہوجاتی ہیں۔کشمیرکومتنازع علاقہ دکھانے والے چینلزکوبندکر
دیا جاتاہے لیکن کیااس سے حقیقت کو چھپایا جاسکتاہے؟‘‘
پروفیسرتامنین نے۲۲فروری کویونیورسٹی کے طلباء وطالبات سے خطاب کیاتھا جس
کی ویڈیوبھارتی میڈیانے جلتی پرتیل چھڑکنے کیلئے نمک مرچ لگاکر جاری کی۔بی
جے پی کی بغل بچہ تنظیم اے بی وی پی نے پروفیسرتامنین کے بیان کی سخت مذمت
کرتے ہوئے اپنابیان واپس لینے اورمعافی مانگنے کا مطالبہ کیاہے۔ دریں اثناء
جواہرلعل یونیورسٹی میں افضل گورو کی برسی پرطلباء یونین کے زیرِاہتمام
تقریب منعقدکرانے پرغداری کے الزام میں گرفتار رہنے والے صدر طلباء یونین
کنہیاکمار نے کشمیریوں کے حق میں نیابیان دیکرانتہاء پسندبھارتی سیاستدانوں
کوپھربھڑکادیا۔انہوں نے عالمی یوم خواتین پر یونیورسٹی کی طالبات سے خطاب
کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی فوجی جموں وکشمیرمیں خواتین کی آبرو ریزی کرتے
ہیں،ہم مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرآوز اٹھاتے رہیں
گے۔ہم اپنی فوج کی بڑی قدرکرتےہیں اوران کی ذمہ داریوں کوپورا کرنے کی
صلاحیت بڑھانے پرزوردیتے ہیں مگر ان کی غلطیوں سے چشم پوشی ہرگزنہیں
کرسکتے،اس کے خلاف آوازاٹھاناہماراجمہوری حق ہے۔
کنہیاکمار کے کشمیریوں کے حق میں اس بیان نے بھارت کی سیاست میں ہلچل مچ
گئی ہے۔کنہیاکمار کو پچھلے دنوں ضمانت پررہا کردیا گیا تھامگران کے نئے
بیان پرانہیں پھرغدارقرار دینے کے بعد بھارتی جنتا پارٹی کی بغل بچہ تنظیم
اے بی وی پی نے کنہیا کمارکی ضمانت منسوخ کرانے کیلئے عدالت سے رجوع کرنے
کافیصلہ کیاہے۔بھارتی عوام میں اب حقیقت پسندی کاجذبہ واضح ہونے لگا ہے۔کسی
بھی خطے میں بے گناہ اورنہتے عوام پرریاستی ظلم وستم اور تشددکو ایک حدتک
برداشت کیاجاتاہے اورجب یہ تشددحد سے تجاوزکرجائے توظالم حکمرانوں کیلئے
عوام میں بے چینی کی لہردوڑنے لگتی ہے اور انسان دوستی کا جذبہ انگڑائیاں
لینے لگتاہے جیساکہ اب بھارت میں صاف نمایاں نظرآرہاہے کہ جواہرلعل
یونیورسٹی نئی دہلی کے پروفیسرتامنین اورطلباء یونین کے صدر کنہیا کمارنے
بھی بھارت میں موجوددہشتگرداورانتہاءپسند تنظیموں کے خوف سے بالا ترہوکرحق
وانصاف کی بنیادوں پرحقائق بیان کرتے ہوئے وادیٔ کشمیرپربھارتی تسلط کو
ناجائز،غیرقانونی اور ریاست کے نہتے عوام پربھارتی فوج کے جور و
جبراوربھارت کی مسلح افواج کے غیر انسانی تشدداورخاص طورپرخواتین کے ساتھ
بہیمانہ جنسی تشددکے خلاف صدائے احتجاج بلندکی جوکہ یقیناً جہاں قابل تحسین
ہے اور بھارتی جمہوریت کے منہ پرزبردست طمانچہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب عالمی سطح پرتسلیم کیاجانے لگاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں
انسانی حقوق کی پامالی اور پاکستان میں دہشتگردی جیسے عفریت سنگین چیلنج
بنے ہوئے ہیں۔برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈنے ۹ مارچ کووزیراعظم نواز
شریف،آرمی چیف جنرل راحیل شریف،مشیرخارجہ سرتاج عزیزاور وزیرداخلہ چوہدری
نثارعلی خان سے ملاقاتیں کیں۔مشیرخارجہ سرتاج عزیزسے ملاقات کے بعدمشترکہ
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلپ ہیمنڈ نے تسلیم کیاکہ دہشتگردافغانستان
سے آکرپاکستان کے اندر کاروائیاں کرتے ہیں۔ پاک بھارت ممکنہ مذاکرات
کاخیرمقدم کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک مذاکراتی عمل کو خراب کرنے
والے عناصرکودرمیان میں نہ آنے دیں اورمذاکرات کو تنازع کشمیر سے مشروط
نہیں کیاجاناچاہئے تاہم اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ جنوبی ایشیامیں
پائیدارامن کابراہِ راست تعلق تنازع کشمیرسے ہے جسے حل ہوناچاہئے ورنہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں
ہوسکتا۔ہم پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں ۔ اس امرمیں کوئی شک
نہیں کہ پاکستان نہ صرف برطانیہ و امریکابلکہ اس وقت پوری عالمی برادری
کیلئے اہم ملک ہے کیونکہ پاکستان اس وقت تنہاخطرناک قسم کی دہشت گردی
کامعرکہ سرکررہا ہے جس کیلئے امریکی قیادت میں نیٹوفورسزنے بھرپور کوششیں
کیں لیکن اس میں ناکام رہے۔
تنازع کشمیرکے حوالے سے برطانوی وزیرخارجہ فلپ ہیمنڈکے دوٹوک مؤقف پربھارتی
میڈیاسیخ پاہو گیا مگرکسی بھی غیرجانبداراورمتوازن فکرکے حامل مبصّرنے
بھارتی مؤقف کوذرّہ بھراہمیت نہیں دی۔فلپ ہیمنڈکے اس بیان کامقبوضہ
کشمیرمیں زبردست خیرمقدم کیاگیااورامیدظاہرکی گئی کہ برطانیہ اس دیرینہ
مسئلے کے حل کیلئے کوششیں جاری رکھے گاکیونکہ اس تنازعہ کے حل کی بھاری ذمہ
داری جہاں بھارت پرعائدہوتی ہے وہاں برطانیہ بھی اس مسئلہ کاذمہ دارہے
جوتقسیم ہندکے وقت ماؤنٹ بیٹن اورریڈکلف کی سازش سے وقوع پذیرہوا ۔اس وقت
برطانیہ میں پندرہ لاکھ پاکستانی قیام پذیرہیں جو برطانیہ کی معیشت اور
سیاست میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔ان کی اکثریت کاتعلق آزادکشمیر سے ہے جو
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ظلم وستم اورتسلط کے خلاف مسلسل کرکے ان کے مصائب
کوعالمی سطح پراجاگرکرتے رہتے ہیں۔
تنازع کشمیرکے حل کیلئے ایک اورپیش رفت امریکاکی جانب سے ہوئی ہے۔ وائٹ
ہاؤس کے ترجمان نے کہاکہ کہ کشمیرپاکستان اوربھارت کے مابین ایک دیرینہ
تنازعہ ہے جوبرصغیرکے امن کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے اوراب اس
تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل ہوناچاہئے۔ امریکاکے اس اظہارِ خیال سے بعض
امریکی سینیٹرزنے یہ رائے ظاہرکی کہ اس مسئلے کے حل کیلئے پاک بھارت
مذاکرات میں کشمیریوں کوبھی شامل کیاجاناچاہئے جنہوں نے اپنی آزادی کیلئے
ہزاروں اہل کشمیرجن میں مردوخواتین بچے بوڑھے سب شامل
ہیں،نےگرانقدرقربانیاں پیش کیں ہیں۔پاکستان میں امریکاکے اس بیان کا حکومتی
سطح کی طرف سے خیر مقدم کیاگیاہے ۔
بھارت مقبوضہ کشمیرکے حریت رہنماؤں کومذاکرات میں شامل کرنے سے ہمیشہ
گریزکرتاچلاآرہاہے جبکہ پاکستان کامؤقف ہےکہ مسئلہ کشمیرکے اصل فریق دراصل
یہی حریت کشمیری رہنماء ہیں جن کی قیادت میں کشمیریوں نے انتہائی بہادری
اورپامردی سے اب تک اس مسئلے کوزندہ رکھاہواہے۔اسی طرح یورپی پارلیمنٹ میں
بھی مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اوران کے حق خود
ارادیت کے سلسلے میں آوازیں بلندہونے لگیں ہیں۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی
بہیمت کے روز افزوں واقعات پرعالمی سطح پر آنے والے ردّعمل سے ثابت ہورہاہے
کہ امریکااوربرطانیہ دونوں جنوبی ایشیاکے وسیع ترمفادات اورخوداپنے مفادات
کی روشنی میں تنازع کشمیر کاپرامن حل چاہتے ہیں۔اگران دوبڑی طاقتوں نے
بھارت کی حکومت پرصدقِ دل سے زوردیاتواس اوران کے حق خود ارادیت کے سلسلے
میں آوازیں بلندہونے لگیں ہیں۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی بہیمت کے روز افزوں
واقعات پرعالمی سطح پر آنے والے ردّعمل سے ثابت ہورہاہے کہ
امریکااوربرطانیہ دونوں جنوبی ایشیاکے وسیع ترمفادات اورخوداپنے مفادات کی
روشنی میں تنازع کشمیر کاپرامن حل چاہتے ہیں۔اگران دوبڑی طاقتوں نے بھارت
کی حکومت پرصدقِ دل سے زوردیاتواس مسئلے کے حل کی بنیادرکھی جاسکتی ہے۔ بعض
سنجیدہ فکرمبصرین کی جانب سے یہ تجویزسامنے آچکی ہے کہ امریکاکوثالثی
کاکرداراداکرناچاہئے کیونکہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اگرچاہے تویہ مسئلہ حل
کرا سکتاہے۔اب توبھارتی دانشور برملا کہہ رہے ہیں کہ کشمیری عوام کو حق
خورارادیت کا آئینی حق ملنا چاہئے اورپھراس کاکئی مرتبہ وعدہ خودبھارت کے
وزیراعظم جواہر لعل نہرونے اقوام متحدہ میں ساری دنیاکے سامنے کیاتھا۔
بھارت کی ۷لاکھ سے زائدفوج کی مقبوضہ کشمیرمیں موجودگی اس حقیقت کی مظہر ہے
کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہرگزنہیں۔مزیدبرآں فوجی طاقت کے ذریعے
بھارت کب تک اس حصے پر قابض رہے گا، ایک نہ ایک دن بھارت کومقبوضہ کشمیرکے
عوام کی امنگوں اورخواہشات کے سامنے جھکناپڑے گاجو اپنے سیاسی،ثقافتی اور
مذہبی حقوق کیلئے طویل عرصے سے جدوجہد کرتے ہوئے جانی ومالی قربانیاں پیش
کر رہے ہیں ۔ کشمیری نوجوان اب ایک بارپھراپنے بزرگوں کی قربانیوں کاتسلسل
جاری رکھنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اورمقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے
بہیمانہ دفاع کے خلاف تحریک حریت شدومدکے ساتھ دوبارہ جاری ہوچکی ہے۔
کشمیری طلباء اورنوجوانوں کایہ مطالبہ زورپکڑرہاہے کہ بھارت فی الفور
مقبوضہ کشمیرسے اپنی فوجیں ہٹالے تاکہ استصوابِ رائے کیلئے حقیقی ماحول
پیداہوسکے۔
دراصل اب جنوبی ایشیامیں ماحول بدل چکاہے۔انتہاء پسندی کے باوجوداس خطے کی
اکثریت پرامن ماحول میں معاشی ترقی کی راہیں تلاش کررہی ہے۔ بدلتے حالات
کاتقاضہ ہے کہ ایسے تمام مسائل جن میں کشمیرکامسئلہ سرفہرست ہے، حل ہونے
چاہئیں تاکہ عوام جنگی جنون کی گرفت سے نکل کراور پرامن ماحول کی طرف آسکیں
اورباہم مل کراس خطے سے غربت اور محرومی کے تکلیف دہ اثرات کوختم کر سکیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی انتہاء پسنداوردہشتگردتنظیمیں کب تک حقائق
کوتشددکےذریعے چھپاتی رہیں گی۔ یہ ضروری نہیں کہ بھارتی حکمرانوں کی طرح
عوام بھی حق وصداقت کی آواز دباتے ہوئے اپنی حکومت کی غیرانسانی پالیسیوں
اور مقبوضہ وادی میں عوام پرغیرانسانی ظلم وتشددکی حمائت کریں۔ بھارتی
حکمران اس وقت سے ڈریں جب بھارت کے انصاف پسنداورراست گوعوام کے صبرکا
پیمانہ لبریزہوجائے گا۔جواہرلعل یونیورسٹی کے پروفیسر اور طلباء کے ساتھ
ساتھ بھارت کے دیگرتعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کے جذبات بھی بھارتی
نیتاؤں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہئیں۔اب وہ دن دورنہیں جب
خودبھارت کے اندرسے نوجوانوں کی حتمی اورفیصلہ کن تحریک اٹھے گی۔
اس مرحلے پرپاکستان کے ہرمکتب فکرپریہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ تساہل
برتنے کی بجائے مقبوضہ جموں وکشمیرکیلئے عالمی فورمزپر بھرپورانداز بلند
کریں اوربین الاقوامی ٹی وی چینلزپرایسے پروگرامزدکھانے چاہئیں جن میں
مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجی، نہتے عوام بالخصوص عفت مآب دخترانِ کشمیر
پرجنسی تشدّدکرتے ہیں،ان کواجاگرکرناچاہئے تاکہ نہ صرف عالمی سطح پربلکہ
بھارت میں بھی انصاف پسندعوام کوحقائق سے آگہی ہواورمظلوم کشمیر کی عملی
مددکیلئے پکنے والی تحریک کومہمیزلگانے میں مزیدتاخیرروانہ رکھیں۔ |