ہیرے کو ملا ہیرا
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
پیارے بچو! ہم مسلمان ہیں۔ہمیں ہر حال میں
سچ بولنا چاہیے۔کیونکہ سچ بولنے والے کو ہر مقام پر قدرو منزلت کی نگاہ سے
دیکھا جاتا ہے ۔قرآن حکیم میں خدائے بزرگ و برتر اور حدیث ِ مبارکہ میں نبی
اکرم حضرت محمد ﷺ کی طرف سے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کی گئی ہے۔آیئے! آج آپ
کو ایک ایسی کہانی سناتے ہیں جس سے آپ کو اس بات کا اندازہ ہو کہ سچ بولنے
والے کو کس طرح عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے
پیارے بچو! ایک تھا بادشاہ۔اُسے شعرو شاعری سے بڑی دلچسپی تھی۔ایک دن اُس
نے کچھ شاعروں کو بُلایا اور اُنھیں اپنے دربار یوں میں شامل کر لیا۔ان کی
باقاعدہ تنخواہیں مقرر کر دیں۔کُچھ ہی دنوں بعد بادشاہ نے دیکھا کہ سبھی
شاعر آپس میں لڑتے ہیں۔ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں مگر جب دربار میں آتے ہیں
تو خاشامدی بن جاتے ہیں اور انعام پانے کے لیے بادشاہ کی تعریف کرنے لگ
جاتے ہیں۔ان شاعروں میں ایک شاعر ایسا بھی تھا کہ جو بادشاہ کے بُلائے بغیر
دَربار میں نہیں جاتا تھا۔نہ وہ بادشاہ کی خوشامد کرتا اور نہ ہی اُس کی
تعریف میں شعر پڑھتا ۔ اس شاعر کا نام فیروز تھا ۔ایک دن بادشاہ نے سب
شاعروں کو دربار میں بُلایا اور اعلان کیا کہ ’’جو میری سچی تعریف کرے گا
اُسے ایک ہیرا انعام میں دیا جائے گا ‘‘۔یہ سُن کر سب شاعروں نے تیاریاں
شروع کر دیں۔ایک دن بادشاہ نے سبھی شاعروں کو دربار میں بُلایا اور کہا کہ’’
میری تعریف میں جس نے جو کُچھ لکھا ہے۔ سُنائے‘‘ ۔ ایک شاعر اُٹھا اور آگے
بڑھ کر اُس نے اپنی نظم سنائی۔ درباریوں نے اُس کی بڑی تعریف کی۔ بادشاہ نے
اُسے ایک ہیرا انعام دیا۔وہ سلام کر کے چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرے شاعر نے
اپنی نظم سنائی۔ درباریوں نے اُس کی بھی بہت تعریف کی ۔بادشاہ نے اُس کو
بھی ایک ہیرا انعام میں دیا۔وہ بھی خوش ہو کر اور بادشاہ کو سلام کر کے
بیٹھ گیا۔اسی طرح سارے شاعروں نے اپنی اپنی نظمیں سنا ئیں اور ہیرا انعام
میں حاصل کر کے خوشی خوشی بیٹھ گئے۔فیروز نامی شاعر نے کچھ نہ سنایا۔بادشاہ
نے ناراض ہو کر کہا کہ’’ تم نے کیا لکھا ہے ؟؟؟ سناؤ‘‘ فیروز نے کہا’’ اگر
میری جان بخش دیں تو سناؤں ‘‘بادشاہ نے فوراً کہا ’’جاؤ تمہاری جان بخش دی
گئی، اب سناؤ کیا لکھا ہے ؟؟‘‘ٖفیروز بولا’’اے بادشاہ تو عالم اور عقل مند
ہے شاعروں کی عزت کرتا ہے مگر گھوڑے اور گدھے میں کوئی فرق نہیں جانتا اور
گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی اصطبل میں باندھتا ہے ‘‘۔اس طرح اُس نے بادشاہ کی
بہت ساری کمزوریاں گنا دیں۔ درباریوں کو بڑی حیرت ہوئی اور انھوں نے سوچا
کہ اب اس شاعر کی خیر نہیں ہے۔ ضرور مارا جائے گا مگر درباریوں کو اُس وقت
بڑی خوشگوار حیرت ہوئی جب بادشاہ نے فیروز کو بھی ایک ہیرا انعام میں دے
دیا۔ دربار ختم ہوتے ہی سبھی شاعر ہیرے کی قیمت لگوانے کے لیے خوشی خوشی
جوہری کے پاس گئے۔ دوسرے دن بادشاہ نے پھر سبھی شاعروں کو دربار میں بُلایا
اور پوچھا’’ انعام پا کر کون کون خوش اور کون کون رنجیدہ ہے؟؟؟‘‘ شاعروں نے
شکایت کی کہ فیروز کے ہیرے کے سوا سارے ہیرے جُھوٹے ہیں ۔ بادشاہ نے مسکرا
کر جواب دیا ’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے َ؟؟ جس نے جُھوٹی تعریف کی اُسے
جُھوٹا ہیرا ملا اور جس نے سچی بات کہی اُسے سچا ہیرا ملا‘‘۔ بادشاہ کا یہ
جواب سُن کر سارے شاعر شرمندہ ہو گئے
رشیداحمد نعیم صدر الیکٹرونک میڈیا حبیب آباد پتوکی |
|