2010میں حسین حقانی کا میمو گیٹ سکینڈل آیا
۔میاں محمد نواز شریف اس وقت اپوزیشن میں تھے۔ میاں صاحب نے اس ایشو کا
اٹھایا اور کالا کوٹ پہن کر خود سپریم کورٹ گئے اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری
افتخار نے میاں صاحب کو اپنے چیمبر میں بٹھایا اور کافی خاطر توازع کی اور
اس پر ایک کمیشن بنا دیا گیا ساتھ بلدیہ ٹاؤن پر بھی کمیشن بنایا گیا لیکن
اس پر جو عمل ہوا وہ سب کچھ قوم کے سامنے ہے۔ 2009ء میں جو سیکنڈل آیا اس
میں پاکستان کے کرکٹ کے لیجنڈ کھلاڑی شامل تھے جب جسٹس قیوم نے ایک تفصیلی
فیصلہ سنایا لیکن اس پر بھی کوئی عمل نہ ہوا۔2013 ء میں جنرل الیکشن ہوئے
عمران خان نے لاہور کے چار حلقوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا لیکن
حکومت نے عمران خان کے مطالبے کو اہمیت نہ دی جس پر عمران خان نے 2014ء میں
لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا اور 126دن تک دھرنا دیا اس کے بعد حکومت
نے 2015ء میں اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا
لیا۔ کمیشن نے جو فیصلہ دیا وہ سب کے سامنے ہے2014ء میں سانحہ ماڈل ٹاؤن
ہوا جس میں 14افراد شہید ہوئے اور 100کے قریب زخمی ہوئے۔ جسٹس نجفی کی
عدالت میں یہ معاملہ گیا اور جسٹس نجفی نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف
اور رانا ثناء اﷲ ، CCPO چوہدری شفیق گجر، ایس پی ماڈل ٹاؤن ، عابد شیر علی
اور چوہدری نثار وغیرہ پر ذمہ داری ڈالی۔ پہلے تو حکومت نے اس رپورٹ کو
دبائے رکھا اس کے بعد میڈیا نے اس معاملے کو کافی اچھالا پھر جا کر یہ
معاملہ منظر عام پر آیا اس رپورٹ پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا گیا بلکہ حکومت
نے اس رپورٹ کو نظر انداز کردیا اور اپنا ایک کمیشن بنایا اور اس کمیشن نے
ان تمام افراد کو بے گناہ قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا۔
پانامہ لیکس میں جب پاکستان کے تاجروں کا نام آیا تو خاص طور پر ہمارے وزیر
اعظم میاں محمد نواز شریف کو ملکی میڈیا نے ہلچل مچا دی۔ وزیر اعظم صاحب نے
اپنی خفت مٹانے کے لئے قوم سے خطاب کیا اور ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ایک
کمیشن بنا دیا جس چیز کو کھوہ کھاتے ڈالنا ہو اس پر ایک کمیشن بنا دیں۔
پہلے تو کمیشن ہمیشہ حکومت دباؤ میں ہوتا تھا دوسری بات کمیشن اگر کوئی
فیصلہ کرتا ہے تو اس پر عمل ہی نہیں ہوتا۔پوری قوم جانتی ہے کہ میاں صاحب
کی دولت کیسے باہر گئی اور کب گئی؟ میاں صاحب اگر اس پر اتفاق نہیں کرتے تو
یہ قوم کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے والی بات ہو گی ۔ اسحاق ڈار نے
Affidivitدیا ہے کہ انہوں نے میاں صاحب کے لئے منی لانڈرنگ کی اس سے آگے
اور کیا بات ہو گی۔ اب یہ کہنا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور 1947ء سے
شروع کرنا چاہیے یہ بات درست نہ ہے الزام آپ پر ہے اور دوسروں پر انگلیاں
اٹھانا کہ وہ بھی چور ہیں یہ بھی چور ہیں اس طرح معاملہ حل نہیں ہوتا آپ بس
اپنے الزام کا جواب دیں دوسروں کو نشانہ نہ بنائیں۔ عمران خان نے دوسری
اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت پر پریشر تو ڈالا ہے لیکن ہر وقت
دھرنے اور جلسے جلسوں کا نہیں بلکہ خان صاحب کو اپنی پارٹی کی تنظیم سازی
پر زور دینا چاہیے اور پارٹی کے دھڑوں کو ختم کر کے تمام ساتھیوں کو ایک
ساتھ لے کر چلنا چاہیے کیونکہ2013ء کے الیکشن میں بھی خان صاحب نے پارٹی
الیکشن کروا کر بہت بڑی غلطی کی تھی لیکن اب وقت دوبارہ غلطی کرنے کا نہیں
ہے کیونکہ اب2018ء کا الیکشن آرہا ہے اس لئے خان صاحب کو میاں صاحب پر
تنقید چھوڑ کر پارٹی کو مضبوط کرنا ہو گا اور عوام تک اپنے Visionاورنظریات
کو پہنچانا ہو گا اگر 2018کا الیکشن جیتنا ہے۔ |