یہ صرف خواب ہی تو ہے!
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کون
سا دور ایسا آیا ہے جو عوام کے لئے پُر سکون تھا؟اس کا جواب تو صرف ’’ناں‘‘میں
ہی ہو گا۔ہر دور میں نئے آنے والوں نے مسائل میں کمی کی بجائے ہمیشہ بڑھنے
کی خبر ہی سنائی۔اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے سے کترایا جاتا رہا
ہے۔ہم ہر شعبہ میں ترقی چاہتے ہیں ، مگر اس کے لئے عملاً کچھ کرتے نہیں ۔ہم
من حیث القوم اپنے تمام تر مسائل کی ذمہ داری حکمرانوں ،اداروں ،
انفراسٹرکچر پر ڈالتے ہیں،چور سب سے زیادہ شور مچا رہا ہوتا ہے کہ چوری ہو
گئی ہے، لوٹ کھسوٹ کرنے والے دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، آدھے عوام ایک
کو اور آدھے دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں،عوام کو متحد کرنے کی بجائے ان
میں تفریق پیدا کی جاتی ہے،کیونکہ اسی میں اُن کی بقأ ہے ،کیا یہ حکمران
ہمارے اتنے ہی خیر خواہ ہیں کہ دن رات محنت کر کے ملک و قوم کی ترقی و
خوشحالی کے لئے کوشاں ہیں……؟کیا یہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کررہے ہیں……؟ان
کے ذاتی مفادات نہ ہوں تو عوام کو کوئی پارلیمنٹ بھیجنے کے لئے ڈھونڈنے سے
بھی نمائندہ نہ ملے،اگر انہیں اقتدار پر آنے سے قبل ہی کسی قسم کے کاروبار
کے ساتھ کسی بھی طرح منسلک ہونے سے روک دیا جائے، اقتدار کے ایوانوں میں
قانون سازی اور عوامی مسائل کے حل تک محدود کر دیا جائے،تو کرپشن نہیں
ہوگی،لیکن اس کے برعکس یہ اقتدار پر آنے کے بعد مفادات کے حصول کے سوا کوئی
کام نہیں کرتے، پارلیمانی اجلاسوں میں اکثر عوامی نمائندوں کی شرکت نہیں
ہوتی،جو آتے بھی ہیں، وہ صرف اپنے کام اور مفادات کی باتیں کرتے نظر آتے
ہیں،یہ دولت کی ریل پیل میں ایسے مست ہو جاتے ہیں کہ انہیں کوئی ہوش نہیں
رہتا۔
تمام سیاستدانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ساری عمر میں وزارت کا ایک بھی سیزن
لگ گیا تو آنے والی کئی نسلوں کے لئے کافی ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے،اگر
ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی جو حکومت میں
وزارت یا عہدہ ملنے سے پہلے تو موٹر سائیکل پر تھے ،مگر چند سالوں میں اُن
کے ملکی ،خصوصاً بیرون ملک اثاثوں اور کاروبار کا اندازہ لگانا مشکل ہو
جاتا ہے۔وہ وفاقی وزارت ہو یا صوبائی ہر جانب ایک جیسی صورت حال ہے، اسی
وجہ سے ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں نے ملک
وعوام کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جہاں سے نکلنے کے لئے کئی نسلوں کو
قیمت ادا کرنا پڑے گی۔اس کے باوجود ہم سب کسی نہ کسی طرح کرپشن میں ملوث
ہیں،اگر کوئی کرپشن کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرتا تو وہ بھی اتنا ہی مجرم
ہے ،جتنا کرپشن کرنے والا۔’’جو دنیا میں نہیں ہوتا وہ پاکستان میں ہوجاتا
ہے‘‘،اس پر فخر کرتے ہیں،استاد اپنے شاگردوں کو،باپ اپنے بچوں کو،بدتمیزی ،
بے باکی، رشوت ستانی کی تربیت دیتے ہیں، کیونکہ اسے موجودہ دور کا تقاضہ
سمجھا جاتا ہے،ہم نے کرپشن کے ساتھ دولت کمانے والوں کو اپنا ہیرو مان لیا
ہے،جو تہذیب ،ادب،ایمانداری اور قانون کے احترام کو فضول تصور کرتے
ہیں،ایسے معاشرے میں کسی اچھے کی کیا امید کی جا سکتی ہے……!
ہمارے ہیرو قائد اعظم ؒ ہیں ،وہ بہترین سیاستدان اور با اصول شخصیت
تھے،پاکستان حاصل کر لیا ،لیکن اپنی جدوجہد میں آخر تک اصول پرستی اور
قانون کے احترام کو ہاتھ سے نہ جانے دیا،غیر قانونی اور تہذیب سے ہٹ کر
برپا کی گئی تحریکوں سے نفرت کی۔ان کے مقابلے میں گاندھی نے بہت سی غیر
قانونی تحریکیں چلاکر ثابت کیا کہ وہ قانون شکنی پسند کرتا تھا……،مگرآج
ہمارے لیڈر کیا کر رہے ہیں، ہر معاملے کو شر اور غیر قانونی تحریکوں کے
ذریعے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے سیاسی لیڈروں کی تحریکوں میں گاندھی کی
مکمل تصویر نظر آتی ہے،یہ اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ ان کا رول ماڈل وہی مکار
پنڈت ہے۔انہیں ملک اور عوام سے کیا لگاؤ ہو سکتا ہے؟وہ اپنے ہیرو کی طرح
اپنی سوچ کی تکمیل کے لئے ہر کسی کا استعمال کریں گے۔
جمہوریت میں اپوزیشن کا وجود ضروری ہے،کیونکہ حکمران جماعت کی کوتاہیوں کے
تدارک کے لئے اپوزیشن ہی اہم رول ادا کرتی ہے،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک
میں اپوزیشن سے متعلق بہت سی جماعتیں موجود ہیں، یہی چیز اثرات میں کمی کا
سبب بن گئی ہے، بیشتر مغربی ملکوں میں حکمران جماعت کے مقابلے میں اپوزیشن
کا کردارنہایت فعال ہوتا ہے،بعض اوقات تو حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اس قدر
ذمہ داری اور اثر انگیزی کا مظاہرہ کیا کہ حکمراں جماعت کو چارونا چار
اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا ۔ مذکورہ جمہوری ملکوں میں حکمران پارٹی بھی حزبِ
اختلاف کی حقیقت پر مبنی تنقیدوں کے جواب میں اعلیٰ روایات قائم کرتی ہے۔
اکثر حکمران جماعت نے اپوزیشن کے پیش کردہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار
سے ہٹ جانے میں پہل کی ہے، لیکن ہمارے ملک میں حکمراں جماعت اور حزبِ
اختلاف دونوں کی اس طرح کی جاندار روایات سے دوری ہی ملک و قوم کو درپیش
مسائل کی اصل جڑ ہے، جو قابلِ غور ہے۔جس پر اکثر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کا غیر صحت مندانہ رویہ ہے،یہاں اہم امور پر بحث و
مباحثہ نہیں ہوتا، بلکہ اپنے من پسند امور کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی
کوشش کی جاتی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں زیادہ ہیں ، ان
کا کسی ایشو پر متحد ہونا نا ممکن ہے ، اسی وجہ سے حکومت اپنی بڑی بڑی
غلطیوں کے باوجود کسی خاص دباؤ کے بغیر چلتی رہتی ہے،جس سے بہر حال نقصان
ملک و عوام کا ہوتا ہے۔
پاناما لیکس والا بحران بھی اسی کی ایک مثال ہے ۔ آدھی اپوزیشن ایک جانب
اور آدھی دوسری جانب ہے ۔ یہ تمام پارٹیاں، جن میں پیپلز پارٹی نے نئی
دوستیوں کے ساتھ کلیدی رول اپنا رکھا ہے اور جو صرف وزیر اعظم کے احتساب کا
مطالبہ کر رہی ہیں ،پیپلز پارٹی ان میں پیش پیش ہے، جسے ماضی میں پانچ سال
حکومت کرنے کا موقع ملا،اب بھی صوبہ سندھ میں اسی کی حکومت ہے، پی ٹی آئی
کے پاس بھی خیبرپختونخوا کا صوبہ ہے،پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں اور اب
صوبے میں کرپشن کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔یہ دوسرے ممالک کی مثالیں
دیتے ہیں،خاص طور پر برطانوی وزیر اعظم ڈیورڈکیمرون کا حوالہ دیا جاتا ہے،
لیکن وہاں کی اپوزیشن کے کردار کے متعلق بات نہیں ہوتی کہ وہ کس قدر صاف
شفاف ہے، وہاں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر وزیر اعظم نے ایک پینی کی کرپشن
کی ہے تو اس کا حساب پوچھا جائے،کیونکہ پوچھنے والوں کے چہروں پر کرپشن کا
کوئی داغ نہیں ،مگر جناب پہلے آپ خود اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھ لیں
، یقیناً اس کے بعد آپ کو دوسروں پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ لوگ احتساب کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اور ملک
اور عوام کا دردِ دل رکھتے ہیں تو انہیں احتساب کے عمل کو انقلابی بنانا
چاہئے،جس میں تمام لوگوں کو شامل کیا جائے ، یہ کالی بھیڑیں دوسری جانب ہوں
یا اُن کی صفوں میں ہوں ،بلا تفریق احتساب کے عمل سے گزریں،تاکہ آئندہ صاف
شفاف دور کا آغاز کیا جائے۔عوام عرصے سے احتسابی انقلاب چاہتے ہیں، مگر کیا
عوام ایک ٹولے کی کرپشن کو ختم کر کے دوسرے ٹولے کو لوٹنے کے لئے آنے میں
مددگار نہیں بنتے……؟ ماضی میں کئی بار ایسی غلطیاں ہو چکی ہیں،ایسا شاید اب
ممکن نہ ہو۔
عوام کے لئے احتساب فائدہ مند ہے،مگر انقلابی احتساب ،ایسی قانون سازی ہونی
چاہئے کہ جو بھی ایوانوں میں آئے، اس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو،یا کم از کم
جب وہ ان کا نمائندہ بن کر پارلیمنٹ میں آئے تو ماضی کو بھول کر آئندہ اس
کے کرپشن کرنے کے تمام راستے بند ہوں ،وہ صحیح معنوں میں عوام دوست ہو ،
محب الوطن ہو، وہ سیاست کو کاروبار نہ سمجھے، بلکہ دل میں عوام الناس کی
خدمت کا جذبہ رکھتا ہو ،تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ میں لکھنے کو اپنا
سب کچھ جانے،نہ کہ اقتدار کے چند سالوں میں ملوں ، فیکٹریوں کا مالک یا
اپنے پرانے کاروبار کو کئی گنا زیادہ کرنے کے لئے کوشش کرے،بلکہ پارلیمنٹ
سے ملنے والی تنخواہ میں گزر بسر کرنے والا ہو، اس کے بچے ملازمت پیشہ ہوں
۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچر دے کر گزارہ کرنے والا کاش!ایسا دن پاکستان کی
تاریخ میں آجائے کہ اُس کا ایک وزیر اعظم ایسا ہو،کاش……! |
|