پانامہ لیکس اور پاکستان

جب سے یہ لیکس منظر عام پہ آئی ہیں چار دانگِ عالم میں ہاہاکار مچی ہے۔کوئی اسے عالمی سازش بتا رہا ہے تو کوئی اسے بین الاقوامی صحافیوں کے کسی کنسورشیم کی سال بھر کی محنتِ شاقہ کا پھل قرار دے رہا ہے۔کئی کچے پیروں والے بین الاقوامی لیڈر تو پہلے دن ہی استعفیٰ دے کے ہار مان گئے۔کچھ ایسے ہیں جو ابھی تک صفائیاں دے رہے ہیں۔پاکستان میں صورتِ حال سب سے دلچسپ ہے۔یہ پٹاری جونہی کھلی اس میں مختلف سائز کے سنپولئے اور کیڑے برآمد ہوئے۔جس طرح بادشاہوں کا کلام کلام کا بادشاہ ہوتا ہے اسی طرح بادشاہوں کا جرم بھی جرائم کا بادشاہ ہوتا ہے۔وزیر اعظم اور ان کے خاندان تک پہنچتے شاید دنیا کو کچھ وقت لگتا لیکن وزیر اعظم کی اولاد اور ان کے جا تقاریر نے پورے ملک میں انہیں نکو بنا ڈالا۔خاندان کی بودی اور لایعنی دلیلوں اور بہانوں کے بعد پرویز رشید اور دانیال عزیز جیسے لوگ وزیر اعظم کی آف شور کمپنیوں کے دفاع میں سامنے آئے تو وہ جو پہلے اس پہ یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں تھے انہیں بھی کامل یقین ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ دال مکمل طور پہ کالی ہے۔سنجیدہ وزراء حتی کہ وزیر اعظم کے برادرِ خورد شہباز شریف نے بھی دانستہ اس معاملے سے دور رہنے کی کوشش کی۔

دوسری طرف د ھرنے کی بے مثال ناکامی کے بعد مایوسیوں کے پاتال کو چھوتی تحریکِ انصاف کے لئے یہ ایک نئی زندگی کی نوید تھی۔پیپلز پارٹی جو سندھ میں ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن عزیر بلوچ جیسے گھاؤ کھانے کے بعد سوائے تلملانے کے اور کچھ نہیں کر پا رہی تھی اچانک پچھلی سیٹوں سے اچھل کے ڈرائیونگ سیٹ پہ آگئی۔پارٹی کا سندھ چیپٹر تو شاید اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا انتظار کرتا لیکن پنجاب کی پیپلز پارٹی کے لئے تیل کی دھار دیکھناوقت کا ضیاع تھا۔سو وہ بھی یوں خم ٹھونک کے میدان میں آئے کہ ذرداری اور ان کے صاحبزادے دونوں کو ان کی ہاں میں ہاں ملانا پڑی۔ جماعتِ اسلامی کہ کرپشن کا کوئی داغ اس پہ نہیں نے بھی پورے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کی مہم شروع کر دی۔ایک آدھ کو چھوڑ کے حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ بننے میں خوشی محسوس کریں گی جو نون لیگ کی چڑھتی جوانی کے زور تلے دب کے اپنا سب کچھ لٹا چکی تھیں۔ جنرل راحیل کا وہ بیان جس میں انہوں نے کر پشن کے خاتمے کی بات کی تھی اونٹ کی پیٹھ پہ آخری تنکاثابت ہوا۔اس کے بعد فوج کے اندر سے جب بارہ حاضر سروس افسران کو جن میں دو جرنیل بھی شامل تھے " بارہ پتھر" کیا گیا تو بہت سوں کو کان ہو گئے کہ معاملہ سیریس ہے۔اس بیان اور اس ایکشن کے بعد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک صفحے پر ہونے کا جو تاٗثر نون لیگ کے کارپردازان دے رہے تھے اس کی قلعی بھی کھل گئی۔

شریف برادران مسئلہ لٹکانے کے ماہر ہیں۔ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔وزیر اعظم کی پہلی دوسری اور تیسری تقریر اسی حکمتِ عملی کا مظہر تھی۔حزبِ اختلاف کے مطالبے پہ وزیر اعظم جوں جوں اطاعت گذاری اور رضامندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے مجھے یوں لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم سوائے اپنے استعفیٰ کے حزب اختلاف کی ہر شرط کو قبول کریں گے اور آخر میں عدالت کے راست پاک صاف اور پوتر ہو کر حزبِ اختلاف سے کہیں گے "ہور چوپو"اور بد قسمتی سے اپوزیشن کے پاس مزید چوپنے کے لئے اور کچھ نہیں ہوگا۔یاد رہے قتل جج کے سامنے بھی ہوا ہو تو بھی وہ قانون کے مطابق شہادتوں اور دلائل پہ فیصلہ دیتا ہے اور بس

کرپشن کے خلاف ایک ماحول بن گیا ہے۔سبھی احتساب چاہتے ہیں۔مسئلہ صرف یہ ہیکہ اپنا نہیں دوسروں کا۔اشرافیہ مافیا ہے مشکل وقت میں یہ فوراََ ایک دوسرے کی مدد کو آتے ہیں۔دھرنے کے دنوں کو یاد کیجئیے تو آپ کو میری بات میں سچائی نظر آئے گی۔احتساب کوئی ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ حیرت ہے کہ یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویز اشرف آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول کرپشن کے خاتمے کے لئے نعرہ زن ہیں۔لوگ ان کی زبان سے کرپشن کی مذمت سن کے اپنی ہنسی دبانے لگتے ہیں۔عمران خان خود تو شاید کرپشن کے الزام سے بچ نکلے لیکن جو کچرہ اس کے ارد گرد موجود ہے اس کی کالک تو بہرحال اسی کے چہرے پہ ملی جائے گی۔مولانا فضل الرحمن کی طرح پیپلز پارٹی بھی دام بڑھانے کے چکر میں ہے۔ جونہی قیمت اچھی لگی وہ بھی اپنا تنبو لپیٹ کے گھر کی راہ لے گی۔لے دے کے ایک جنرل راحیل ہی رہ جاتے ہیں جن کے دامن پہ ابھی تک کوئی داغ نہیں لیکن جنرل صاحب کا جن لوگوں سے واسطہ ہے وہ اپنے مطلب کے لئے ملک بیچنے سے باز نہیں آتے تو جنرل کو بدنام کرنا ان کے لئے کون سی بڑی بات ہو گی۔کچھ لوگ تو پہلے ہی اس کوشش میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔حکومت نے پانامہ پیپرز کے انکشافات کو جس طرح سپریم کورٹ کے حوالے کیا ہے اس کا نتیجہ نکلتے نکلتے یہ سال تو گذر جائے گاپھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔

ابھی وقت ہے بجائے اس کے کہ وقت ضائع کیا جائے۔ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جہاں سب آ کے خود اپنا کچا چٹھہ بیان کریں جو لوٹ لیا وہ بھلے ہی ان سے نہ لیں لیکن اس کے بعد سب کی مرضی سے ایسا قانون بنا دیں کہ معمولی کرپشن پہ بھی کڑی سزا ہو اور نظام ایسا کہ کوئی اس کی پکڑ سے بچ نہ سکے۔اگر ہم یہ کر سکیں تو یہ بھی قوم کی بڑی کامیابی ہو گی۔ہم اگلے پانچ سالوں میں اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔اگر اب کی بار بھی ان کی گردن اس شکنجے سے نکل گئی تو یاد رکھیں اس کے بعد یہ عوام کی کھال بھی کھینچیں گے اور خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑیں گے اور ہم کچھ بھی کر نہیں پائیں گے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267699 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More