کرپشن اور احتساب!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
لگتا ہے کہ کرپشن کے غبارے سے بہت جلد ہوا
نکل جائے گی، کیونکہ اپنے ہاں جن سیاستدانوں یا بیوروکریٹس وغیرہ پر کرپشن
کے الزامات لگ رہے ہیں وہ ساتھ ہی ساتھ کلیئر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر حکمرانوں
کی کرپشن پر نگاہ ڈالی جائے تو وزیراعظم میاں نواز شریف نے خود کو احتساب
کے لئے پیش کردیا ہے، اب چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن بنائیں یا نہ بنائیں یہ
ان کی مرضی۔ دوسری طرف اپوزیشن کا احتجاج بھی جاری ہے، وزیراعظم کے خود کو
احتساب کے لئے پیش کرنے کے بعد اب نہ جانے مخالفین کیا چاہتے ہیں؟ دوسری
طرف اپوزیشن کے رہنماؤں خورشید شاہ ،عمران خان اور دیگر نے بھی یہی کہا ہے
کہ احتساب پہلے خود سے شروع کیا جائے، اس سلسلے میں ان لوگوں نے خود کو
احتساب کے لئے پیش کردیا ہے۔ یوں تمام سیاستدان خود کو احتساب کے لئے پیش
کر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں ان کے اثاثے بھی موجود ہیں، جنہیں پڑھ کر
پہلی نگاہ میں تو انسان کی ہنسی چھوٹتی ہے، اور کچھ ہی دیر بعد رونے کو دل
کرتا ہے۔ کیونکہ ہمارے بہت سے سیاسی قائدین بے گھر، بے در اور بے ’کار‘ ہیں۔
کوئی اپنی بیوی کے گھر میں رہتا ہے، تو کوئی اپنے بیٹے کی گاڑی استعمال
کرتا ہے۔ اس صورت حال سے الیکشن کمیشن بھی مطمئن ہے اور محکمہ انکم ٹیکس
بھی۔
جب وزیراعظم سمیت تمام سیاستدانوں نے خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا ہے تو
پھر نہ جانے شور کس بات کا ہے، ہنگامہ کیوں برپا ہے، مطالبہ کیا ہو رہا ہے؟
کچھ سمجھ نہیں آتا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے خود کو احتساب
کے لئے پیش کر دیا ہے تو ان کا احتساب کیوں نہیں ہوتا، یہاں یہ سوال بھی
سراٹھاتا ہے کہ احتساب کرے کون؟ اور اس کو احتساب کرنے کی درخواست کون کرے
گا؟ اور اگر اپوزیشن کے رہنما خود کو احتساب کے لئے پیش کر رہے ہیں تو ان
کا احتساب کرنے اور ان کی اس خواہش کی تکمیل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی
ہے؟ اگر ہمارے سیاستدانوں نے خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا ہے اور کوئی
ادارہ یا فرد آگے بڑھ کر ان کا احتساب کرنے پر رضامند نہیں ہے، یا احتساب
کرنے کا آغاز نہیں کر رہا تو نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا اس سے یہ فرض کرلیا جائے
گا کہ ہم نے تو خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے، مگر کوئی احتساب کرتا ہی
نہیں، گویا ہمارا احتساب ہو چکا، ہمیں شفاف دامنی کا سرٹیفیکیٹ مل چکا۔ اب
حکمرانوں اور مخالفین کو چاہیے کہ وہ احتساب کے ضمن میں خاموشی اختیار کریں،
کیونکہ اب کوئی تیسرا فرد ان کا احتساب کرنے کے لئے آگے نہیں آیا، آخر کب
تک یہ معصوم لوگ انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں گے، اگر ان کا احتساب کیا
جانا مقصود ہے تو ہو جانا چاہیے، اور اگر کوئی احتساب کرنے والا ہی نہیں،
یا کرنے کے لئے تیار ہی نہیں، تو پھر یہ رَٹ بند ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کا
احتساب کرنے اور خود کو اس کارِ خیر کے لئے پیش کرنے کے علاوہ کرپشن کے
خلاف مہمات بھی گردش میں ہیں، بھئی اگر کوئی احتساب کے لائق ہی نہیں تو
کونسی کرپشن؟ کہاں کی کرپشن؟
ملک کو چلنے دیا جائے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس کے خزانے بھرے ہوئے
ہیں، زرِ مبادلہ کے ذخائر پُر ہیں، فی کس آمدنی میں معقول اضافہ ہو چکا ہے،
غربت کم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں غریب بھی خاتمے کے قریب ہیں، حکومتی
کوششوں سے امید ہے غریب اور غربت دونوں اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گی۔
جب سے سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے گھر سے خزانہ برآمد ہوا ہے،
کرپشن کے متعلق عجیب سے خیالا ت آنے لگے ہیں۔ اب اس بات پر یقین کرنا واجب
ہوگیا ہے کہ خزانے بھرے ہوئے ہیں، اور یہ بھی کہ سیاستدانوں کے ساتھ
بیوروکریسی کے خزانے بھی لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی ان کا
افشا ہونا باقی ہے۔ نہ جانے کتنے بیوروکریٹس کے گھر قومی خزانے کے روپ
دھارے ہوئے ہیں، اور کتنے مقتدر طبقے کتنے خزانوں کے مالک ہیں؟ کرپشن صرف
نوٹ گھر رکھ لینے یا انہیں خفیہ طریقے سے باہر بھیج دینے کا نام بھی نہیں۔
اگر مری میں وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین وآرائش پر 43 کروڑ روپے
خرچ ہورہے ہیں تو اسے کیا نام دیا جائے گا؟ اگر یہ کرپشن کے زمرے میں نہیں
آتا تو خود پر کروڑوں روپے خرچ کرنا قانونی طور پر جائز ہے۔ حکمرانوں وغیرہ
کو چاہیے کہ وہ اپنی مراعات پر توجہ دیں، اگر اس میں بہتری آجاتی ہے توا
نہیں مزید لوٹ مار کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ |
|