شہید مطیع الرحمٰن نظامی ؒ- استقامت ،شہادت اورسعادت سے منافقین کی رسوائی تک

اخوان المسلمون کے بعد برصغیرِ ہند و پاک میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش وہ پہلی اسلامی تحریک ہے جس کی اعلیٰ ترین قیادت کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر ایک ایک کر کے پھانسی پر چڑھایا جا رہا ہے ۔حسینہ واجد نے اقتدار میں آتے ہی اپنے مخالفین سے انتقام لینے کا آغاز کر لیا تھا ۔ اس میں نسوانیت اور ’’انسانیت ‘‘مکمل طور پر مر چکی ہے۔ کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک عورت ذات اس قدر وحشت پر اتر آئے گی !وہ سوچ رہی ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے انتقام لیکر ’’امر‘‘ہو جائے گی وہ وقت دور نہیں جب خود بنگلہ دیش کے مؤرخین ہی اس بدذات عورت پر لعنت برساتی نظر آئے گی ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو تباہ کرنے کے منصوبے پر عمل کرتے ہو ئے جس شرمناک طریقے کا انتخاب کیا گیا ہے وہ خود اپنی ذات میں کسی المیہ سے کم نہیں ہے ۔بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین قیادت کو طویل مدت تک جیل میں قید بھی رکھا جاسکتا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ کو انسانی خون کی ایسی لت لگی ہے کہ شاید اسکی پیاس خون سے ہی بجھتی ہے ۔

اس سارے کھیل کا مقصد جہاں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو راستے سے ہٹاکر نشانہ عبرت بنانا ہے وہی اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ خطے کے اسلام پسندوں کو ایک سخت پیغام دیا جائے بالخصوص پاکستان سے محبت کرنے والوں کو ،غالباََ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جیسا خود ساختہ جمہوری ملک اپنی اس منافقانہ پالیسی کا بھی سہارا چھوڑ رہا ہے جہاں وہ دنیا میں ہو رہے ہر ظلم پر چیخ و پکار تو کرتا ہے پر ملک میں’’ اپنوں ‘‘کے ہاتھوں برپا کردہ ظلم پر خاموش رہتا ہے مگر ’’مسٹر بنیا‘‘یہاں بھی خاموش ہے شاید اس لئے کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنی چودھراہٹ کے لئے جماعت اسلامی کو رکاوٹ سمجھتا ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستان خطے میں مسلمانانِ برصغیر کی بربادی کا باعث بنا ہوا ہے ۔اس نے 1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت جس درد ناک کہانی کو جنم دیا اور مسلمانانِ ہند کے سینے میں خنجر گھونپ کر انھیں نامعلوم راہوں میں اپنے بلوائیوں کے ہاتھوں قتل کراکے اپنے غلیظ نفس کو تسکین فراہم کی کے بعد اُس نے پاکستان کو بھی دولخت کر دیا ۔افغانستان میں اس کا رول کسی سے چھپا نہیں ہے اور برما میں ساحل سمندر پر بسنے والے مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلانے کے پیچھے مقاصد کیا کار فرما ہے سے کون واقف نہیں ہے ۔

شہیدمولانا مطیع الرحمان نظامیؒکی پیدائش 31مارچ 1943ء گاؤں منموتھ پور،سنتھائی (پبنا)میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی ۔1963ء میں فقہ میں مدرسہ عالیہ ڈھاکہ سے کامل کی ڈگری حاصل کی اور 1967ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کر لی ۔ساٹھ کی دہائی میں انھوں نے جب پاکستان ابھی دولخت نہیں ہوا تھاجماعت اسلامی کی دعوت پر لبیک کہتے ہو ئے پہلے ’’اسلامی چھاترو شبر‘‘میں شمولیت اختیار کی اور متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے امیر بنے ۔اس مرحلے کے بعد جب طالب علمی کا دور ختم ہوا تو آپ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے جہاں سفر جاری رکھتے ہو ئے آپ امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے منصب پر فائز ہو گئے ۔ انھوں نے با ضابط سیاسی میدان میں بھی قدم رکھا اوریہ ثابت کیا کہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے دل اہل اسلام کے لئے اسی طرح دھڑکتے ہیں جس طرح دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے ۔سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے بعد انھوں نے الیکشن میں حصہ لیا جہاں وہ بحیثیت ممبر پارلیمنٹ منتخب بھی ہو گئے اور دوسری پارٹی کے اشتراک سے حکومت میں شامل ہو نے کے بعد10 اکتوبر 2001ء سے لیکر 22مئی 2003ء تک ایگریکلچر وزیر رہے اور اس کے بعد 22مئی 2003ء سے لیکر 28اکتوبر2006ء تک انڈسٹریل منسٹر کی حیثیت فرائض انجام دیتے رہے ۔

شیخ حسینہ نے 2009ء میں ’’انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل‘‘کا قیام عمل میں لا کر جماعت اسلامی کی قیادت کو 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو دو لخت کرنے پر مزاحمت کرنے اور بنگلہ دیش بنانے کی مخالفت کرنے پر اس ٹریبونل کے ذریعے سزائیں دینے کا با ضابط آغاز کر لیا ۔بنگلہ سرکار کا الزام ہے کہ ’’شہید مولانا مطیع الرحمان نظامیؒ‘‘اور ان کے کئی ساتھیوں نے بنگلہ دیش بنانے کی حمایت کے برعکس پاکستان کا ساتھ دیا اور اس کے لئے ایک عسکری تنظیم ’’البدر‘‘ بھی وجود میں لائی ۔حکومت کا یہ بھی الزام ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس تنظیم سے وابستہ مسلح افراد نے کئی دانشوروں اور عام لوگوں کو قتل کردیا اور کئی خواتین کی عزتیں لوٹیں ! ؟ٹربیونل کے جج نے ان الزامات کے پس منظر میں جماعت اسلامی کے لیڈرون کو پھانسیوں کی سزائیں دینے کا حکم صادر کیا جو نچلی عدالتوں کے بعد سپریم کورٹ نے بھی جوں کا توں قائم رکھتے ہو ئے کئیوں کو پھانسیاں دلائیں اور کئی ایک اب بھی اس فہرست میں شامل اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔بنگلہ دیش کی متعصب سرکار کا بنیادی مقصد ان الزامات کے تحت جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی شبیہ کو مسخ کرنا ہے تاکہ عوام الناس ان سے متنفر ہو کر ان سے دور رہے یہی وجہ ہے کہ ’’عصمت ریزی‘‘کی شرمناک داستان کو باربار دہرایا جاتا ہے ۔

جہاں تک البدر کے قیام کا تعلق ہے اس کے بنانے میں نہ کوئی شرعی روکاوٹ تھی اور نہ ہی اخلاقی ؟ اس لئے کہ جس وقت جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے تقسیم کی مخالفت کی تھی اس وقت وہ بنگلہ دیش نہیں بلکہ پاکستان تھا اور پاکستان ان کا ملک اور وطن تھا۔پاکستان کو دولخت ہو نے سے بچانا شرعی طور پر جتنا پاکستانی فوج کے لئے فرض تھا اتنا ہی فرض اور واجب اس کی عوام کے لئے بھی تھا ۔بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا یہ نظریہ بعد کے حالات نے اگر چہ ان کے لئے سخت ترین آزمائش میں تبدیل کردیا ہے اور بنگلہ حکومت انھیں اس کی سزا دیکر بظاہر ’’وطن اور قوم پرستی‘‘کا حق ادا کر رہی ہے حالانکہ سچائی آج بھی یہی ہے کہ کسی بھی ملک کو کسی شرعی ،انسانی ،سیاسی اوراخلاقی جواز کے بغیر توڑنا ہی غداری اور بے وفائی ہے ۔البتہ اس صورتحال میں سب سے شرمناک پہلوحکومتِ پاکستان کا سامنے آیاجس پر بتفصیل لکھنے کی ضرورت ہے ۔مولانا مطیع الرحمان نظامی ؒنے جس نظریہ کو اپنے لئے شعور کی بیداری کے ساتھ منتخب کیا تھاانھوں نے اس پر استقامت کا مظاہراکیااور بلاآخر شہادت سے سرفراز ہو کر سعادت اُخروی سے ہمکنار ہو گئے نے اُمت مسلمہ کے وجود میں منافقین کے ذریعے پیدا کردہ ناسور کو ایک بار پھر عیاں کردیا کہ جب تک اُمت آستین کے سانپوں کو پہچان نہیں لیتی ہے وہ ہر بار اٹھنے کے بعدبڑھاتے قدم واپس مڑنے پر مجبور کردی جائے گی ۔کل تک ابہام تھا مگر بہارِ عرب کے بعد صورتحال کھل کر سامنے آگئی اور معلوم ہوا کھلے دشمن سے زیادہ خطرناک اپنے صفوں میں نقاب اوڑھا ہوا ہم نام و ہم کلام دشمن ہوتا ہے اور حیرت انگیز یہ کہ ان کی تعداد کوئی دس فیصد سے بھی کم ہے مگر ان شیاطین نے اُمت کے وجود کو اپنی منافقت سے ایک لاشے میں تبدیل کردیا ہے ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93817 views writer
journalist
political analyst
.. View More