الحمد اکیڈمی کا مجلہ ’الحمد ‘۔ سیرت نمبر۲ ۔ تعلیم و تربیت اسوۂ حسنہ کی روشنی میں، ۲۰۱۵ء

الحمد اکیڈمی جس کی کراچی میں دو ، حیدر+باد اور لاڑکانہ کے علاوہ جدہ اور ریاض میں بھی برانچیز قائم ہیں نے سیرت کے حوالے سے مجلہ کی اشادت کا اہتمام کیا ہے یہ شمارہ نمبر ٢، اپنے موضوع پر علمی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ایک مجلہ اسے قبل بھی شائع ہوچکا ہے اور حال ہی میں تیسرا شمارہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔

مجلہ الحمد شمارہ ٢

تعلیمی اداروں کے زیر اہتمام میگزین کی اشاعت پرانی روایت ہے۔ یہ مجلے تعلیمی، تدریسی، نصابی، ہم نصابی ، ادبی، علمی حتیٰ کہ کھیل کود کی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہوتے ہیں اور اس تعلیمی ادارے کی تمام تر سرگرمیوں، ذہنی فکر اور مثبت سوچ کی دلکش تصویر پیش کرتے ہیں، ان لسے اس تعلیمی ادارے کی۹ علمی کارکردگی ، طلبہ کی ذہنی فکر ، ادبی اور علمی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگا جاسکتا ہے ہے۔ یہ مجلے اس درسگاہ کی آبرو بھی ہوتا ہے اور علامت ِ وقار بھی، دستاویز بھی ہوتا ہے اور تاریخ بھی۔یہی وجہ ہے کہ معیاری تعلیمی ادارے مجلہ کی باقاعدہ تدوین و اشاعت پر خصو صی توجہ دیتے ہیں۔

الحمد اکیڈمی کے زیر اہتمام منظر عام پر آنے والا مجلہ ’الحمد‘ سیرت نمبر کا دوسرا شمارہ ہے ۔اس سے قبل مجلہ الحمد کا اولین شمارہ شائع ہوچکا ہے جس پر کراچی کے انٹر میڈیٹ تعلیمی بورڈ نے دوسرا انعام دے ممتاز کیا۔ الحمد اکیڈمی پاکستان کے معروف اور معیاری تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے جس کی مختلف شاخین گلشن اقبال، پی ای سی ایچ ایس کے علاوہ حیدرآباد اور لاڑ کانہ کے علاوہ سعودی عرب کے شہروں جدہ اور ریاض میں بھی اس کی شاخیں قائم ہیں۔ الحمد اکیڈمی کا قیام 1998ء میں عمل آیا۔ مختصر عرصہ میں اکیڈمی نے تعلیم کے فروغ میں جو ترقی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اکیڈمی کی باگ دوڑ مخلص، ایماندار اور علم دوست احباب کے ہاتھوں میں ہے۔ تعلیم کے میدان میں یہ ادارہ اگر اسی رفتاری سے ترقی کے منازل طے کرتا رہا تو ایک دن ملک کے چند بڑے اور معیاری تعلیمی اداروں میں سے ایک ہوگا۔

کراچی انٹر میڈیٹ تعلیمی بورڈنے کراچی کے کالجوں کے زیر اہتما شائع ہونے والے میگزین کے درمیان مجلات کے سیرت نمبروں کا مقابلہ منعقد کرایا ۔ الحمد اکیڈمی کے شائع کردہ مجلہ’الحمد‘ سیرت نمبر کو دوسری پوزیشن حاصل ہوئی۔اس مجلہ کی کامیابی اور پذیرائی نے الحمد اکیڈمی کی انتظامیہ کا حوصلہ بڑھا یااور انہوں نے سیرت ہی کے موضوع پر ’الحمد سیرت نمبر ۲‘ شائع کرنے کا اہتمام کیا جو اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے۔ میرے بہت ہی محترم جناب عابد حسین صدیقی صاحب جو اب میرے قریبی پڑوسی اور ایک ہی مسجد بلکہ ایک ہی صف کے نمازی بھی ہیں نے یہ مجلہ ازراہِ عنایت مجھے دیا اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کو کہا۔ عابد صاحب نفیس انسان ہیں ، میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ کالج ڈائیریکٹریٹ میں پروفیسر افتخار احمد انصاری مرحوم اورپروفیسر افتخار علی مرحوم اور پروفیسر ضیاء الدین مرحوم کے آفس میں ہوا کرتے تھے اور ہم اپنے معاملات کے حوالے سے اکثر ڈائریکٹریٹ کے چکر لگایا کرتے تھے۔ یہ بات ہے 1974اور اس کے بعد کی ، عابد صاحب اس وقت بھی اتنے ہی ملنسار اور بہ اخلاق تھے لیکن سخت انتظامی رویہ رکھتے تھے۔ آج بھی ان کااخلاق اور ملن ویسا ہی ہے۔

’مجلہ ’الحمد‘ سیرت نمبر ۲، تعلیم و تربیت اسوؤ حسنہ کی روشنی میں‘ ظاہری اور باطنی اعتبار سے خوبصورت ہے۔ یہ مجلہ موضوعاتی ہے اور اس میں صرف تعلیم اور تربیت کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔تمام مضامین اسوۂ حسنہ کی روشنی میں تحریر کیے گئے ہیں ، کسی بھی موضوع پر خاص نمبر کی تدوین و اشاعت زیادہ مشکل ہوتی ہے کیونکہ مواد کے حصول اور انتخاب میں مدیران کو متعلقہ موضوع تک محدود رہنا ہوتا ہے۔ مجلہ الحمد کے مدیران اپنی ا س کاوش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ سیرت کے موضوع پر تعلیم و تربیت کے حوالے سے معیاری مضامین ، پائے کے لکھنے والوں کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہیں ۔ حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول ﷺ سے مجلے کا آغاز ہوا ہے۔ مجلے کے مدیرڈاکٹر محمد اظہر سعید نے’کلمات الحمد‘ کے عنوان سے مجلہ کی تدوین و اشاعت پر مختصر روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اﷲ تعالیٰ کا نہایت فضل و کرم ہے کہ مجلہ الحمد کی پہلی اشاعت کو مقبولیت عطا کی اور اہل علم ، اساتذہ، طلبہ اور قارئین سیرت نے اس کو پسند فرمایا اور ہماری حوصلہ افزائی کی‘۔اس کے سرپرست اعلیٰ جناب کلیم رحمانی صاحب ہیں ، مدیر اعلیٰ محمد خالد پیٹی والا ہیں ، جب کہ مجلس مشاورت میں پروفیسر محمد فاروق سبحانی، عابد حسین صدیقی، ڈاکٹر مختار احمد زندانی ، مفتی محمد انوار حسین اور حافظ نعمان عالم شامل ہیں۔ ان احباب کی کاوشوں اور محنت اور سب سے بڑھ کر سیرت حضرت محمد ﷺ سے والہانہ محبت کے باعث سیرت کے حوالے سے ایک عمدہ مجموعہ سامنے آسکا۔ جس کے لیے یہ احباب قابل مبارک باد ہیں۔

مجلہ11مقالات کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر سید محمد سلیم صاحب کا مقالہ ’عہد نبوی ﷺ کا نظام تعلیم‘ ایک طویل اور اپنے موضوع پر سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’تعلیمی تحریک کے دو ارکان ہیں، استاد اور شاگرد۔ اُستاد سے آپ ﷺ نے کہا کہ اگر لوگوں کو تعلیم دینے میں تم نے کوتاہی برتی تو کل خدا کے یہاں تمہارا مواخزہ ہوگا، فرمایا ،’جو شخص عالم ہے اور دوسروں کو نہیں سکھاتا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ لگائی جائے گی ‘۔ مصنف نے لکھا کہ ’یہ وہ وعیدتھی جس نے علما کو اور استادوں کو پھر گھر میں چین سے نہیں بیٹھنے دیا وہ ڈھونڈھونڈ کر طالب علموں کو پڑھاتے تھے انتہائی ناساز گار حالات میں پڑھاتے تھے، اس لیے کہ کہیں اس آتشیں وید کے مصداق نہ قرار پائیں‘۔مقالہ 53 قرآنی آیات و احادیث اور دیگر اسلامی کتب کے حوالوں سے مذین ہے۔ ڈاکٹر محمد امین کے مقالے کا عنوان ہے ’نبی اکرمﷺ کا منہاجِ تربیت‘۔ مقالے میں ڈاکٹر صاحب نے آنحضرت محمد ﷺ کے اسلوبِ تعلیم و تربیت کی متعدد مثالیں درج کی ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک معروف اسلامی محقق اور مصنف کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے مقالے کا عنوان ہے ’عہد نبوی کا نظام تعلیم‘۔ مقالے میں عہد نبوی کے نظام تعلیم کی صورت حال تفصیل سے بیان کی ہے انہوں نے لکھا کہ’ مدینہ منورہ میں شروع میں نو مساجد اور بعد میں چالیس مساجد قائم ہوگئیں تھیں ۔ ان سے اکثر مساجدمیں درس و تدریس کا انتظام بھی تھا‘۔ مولانا محمد طاسین کی علمیت و قابلیت بھی کسی سے مخفی نہیں ، ان کے مقالے کا عنوان ہے ’تعلیم ِ حکمت سیر ت طیبہ کی روشنی میں‘۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کے مقالے کا عنوان ہے’نبی اکرمﷺ کا تعلیمی اسوہ اور ہم‘ ، یہ مقالہ اپنے موضوع پر مدلل معلومات فراہم کرتا ہے۔ شاکر صاحب تعلیم کے شعبہ سے وابستہ تھے ، اسلامی علوم پر دسترس تھی۔ مولانا ڈاکٹر اکرام اﷲ جان قاسمی کے مقالے کا عنوان ہے ’رسول اکرم ﷺ کے طریقۂ تعلیم کی خصوصیات‘، قاسمی صاحب کا مقالہ اپنے موضوع پر سیر حاصل معلومات فراہم کرتا ہے پچاس سے زیادہ حوالے بھی شامل ہیں۔ سید عزیز الرحمٰن صاحب کے مقالے کا عنوان ہے ’’پاکستان کے لیے مثالی نظام تعلیم :تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘۔ مقالے کا آغاز علم اور تعلیم کی تعریف سے ہوا ہے ، تعلیم کی اہمیت، تعلیم فرض ہے اور تعلیم انسانی ترقی کا ذریعہ ، مقصد تعلیم مشاہیر و ماہرین تعلیم کی نظر میں اور دیگر موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ مقالے میں پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اور تجاویز برائے نصاب و نظامِ تعلیم بھی بیان کی گئیں ہیں۔ مقالہ ڈیڑھ سو سے زیادہ حوالہ جات سے مذین ہے۔ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ ان کے مقالے کا عنوان ہے ’پاکستان میں مثالی نظام ِ تعلیم کی تشکیل اور تعلیماتِ نبویﷺ‘، انہوں نے اپنی تحریر کا آغاز سورۃ ’اقرا‘ سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’پڑھنا اور لکھنا دونوں علم کے اجزا ہیں۔ پڑھنا اس لیے کہ اس کے بغیر علم بے معنی ہے اور لکھنا اس لیے کہ آیندہ نسلوں کے لیے علمی سرمایہ جمع ہوتا رہے اور اشاعتِ علم کا مقصد پورا ہوتا رہے‘۔ محمود عالم کے مضمون کا عنوان ’اہل قلم کی اخلاقی ذمے داریاں اور تعلیمات نبوی ﷺ‘ ہے جس میں انہوں نے لکھاریوں کی اخلاقی ذمہ داریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’قلم ایک امانت ہے اور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جن لوگوں کو قلم عطا فرمایا ہے ان کی ذمے داریاں چند در چند ہیں ، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اس چیز کا علم عطا فرمایا ہے جو دوسروں کو نہیں ملا۔ اہل قلم قیادت و سیادت کے منصب پر فائز ہیں، اور ان کی اولین ذمے داری دنیا میں امن و امان ، عدل و انصاف اور خیر و فلاح کا قیام اور تعمیر و ترقی ہے۔ شرعی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مسلمان اہل علم اور اہل قلم پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے اوردعوت و تبلیغ اور جہاد حرف ان کے فرائض میں شامل ہے‘۔ سید فضل الرحمٰن کا مقالہ تربیت اولاد اور نبوی تعلیمات سے بحث کرتا ہے۔ اولاد کی تربیت معاشرہ کا ایک اہم موضوع ہے، خاص طور پر آج کل کے حالات میں والدین کو اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مولانا سید محمد متین ہاشمی کے مقالے کا عنوان ہے ’تربیت خودی کانبوی نصاب‘۔ مجلے کے مدیر ڈاکٹر محمد اظہر سعید کے مقالے کا عنوان ’نبوی انداز تربیت‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تربیت کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کے انداز تربیت کے حوالے سے متعدد
احادیث اور واقعات قلم کیے ہیں۔

مجموعی طور پر مجلے میں شامل مقالات تعلیم و تربیت کے تمام پہلوؤں کا احاطے کرتے ہیں۔ بہ ظا ہر یہ کالج کا ایک مجلہ ہے لیکن میری رائے میں یہ مجلہ اپنے موضوع پر تحقیقی اور حوالے کا قیمتی مجموعہ ہے ۔ اس مجموعہ کو ہر کتب خانے کی ذینت ہونا چاہیے، اسلامی موضوعات پر لکھنے والے، تحقیق کرنے والے اور معلومات کے خواہش مند وں کے لیے یہ مجموعہ بہت ہی مفید اور کاآمد حوالے کی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔(۱۱ مئی ۲۰۱۶ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437882 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More