مکتوبات مدنی :  خطوط نگاری کا ایک معلوماتی مجموعہ

زیر نظر کتاب مکتوبات مدنی جس کے مولف ڈاکٹر مولانا محمد صدرالحسن مدنی ہیں اپنے موضوع کے اعتبار سے ایسی کتاب ہے جو خطوط نگاری ، اس کی اہمیت و مقصدیت کو ظاہر کرنے کی غرض سے تالیف کی گئی ہے۔
تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب :مکتوبات مدنی
مرتب : ڈاکٹر مولانا محمدصدرالحسن ندوی مدنی ( موبائل : 8390989303)
صفحات : 336قیمت : 350/-روپئے
ملنے کے پتے : شالیمار کتاب گھر ۔روشن گیٹ اورنگ آباد ےمکتبہ اسلامی شاہ گنج اورنگ آباد
ےندوی کتاب گھر پربھنی ۔فیض بکڈپوجلگاؤں موبائل : 9860985891-9325150211
ابلاغ وترسیل کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ زمانہ ٔ قدیم سے آج تک اس کی مختلف شکلیں بھلے ہی تبدیل ہوتی رہی ہوں ،لیکن ا س کی ضرورت اور مقصدیت ہمیشہ مسلم اور بدیہی رہی ہے۔ مختلف تہذیبوں اور قوموں کے رسوم و رواج، ان کی تحریکات اور لسانی تفہیم کیلئے یہ طریقہ ہمیشہ سے نہ صرف مقبول و محمود رہا ہے، بلکہ اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کو مزید فعال و متحرک بنانے کیلئے نو بہ نو تجربات بھی کئے جاتے رہے ہیں ۔جہاں تک خطوط نگاری کا تعلق ہے، ایک حوالے کے مطابق پہلا خط ملک فارس کی ملکہ عطوسہ نے پانچ سو قبل مسیح میں تحریر کیا تھا ۔ اسی طرح سے مختلف ادوار میں خطوط نگاری کے لئے مختلف اشیا(مثلا ً چمڑا ، ہڈی ، درختوں کے پتے اور چھالیںوغیرہ ) بروئے کار لائی گئیں اور جب باقاعدہ کاغذ کی ایجاد و دریافت ہوگئی تو خطوط نگاری کا یہ سلسلہ اور بھی پروان چڑھا ۔ آج ترسیل و ابلاغ کا یہ موثر ترین ذریعہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ اگر چہ انٹر نیٹ، فیس بک ، موبائل اور ای میل وغیرہ جیسی جدید ٹیکنالوجیزکی دریافتوں کے بعد خطوط نگاری کےاس عمل میں قدرے کمی آئی ہے اور ایک بڑے طبقے کے اندراس جانب عدم رجحان کی فضاپیدا ہوئی ہے جو بہر صورت نقصان دہ ہے، اس کے باوجود لکھنے پڑھنے اور خطوط نویسی کے اس طریقہ کار کی اہمیت ابھی بھی بڑی حد تک موجود ہے ۔ زیر نظر کتاب مکتوبات مدنی جس کے مولف ڈاکٹر مولانا محمد صدرالحسن مدنی ہیں اپنے موضوع کے اعتبار سے ایسی کتاب ہے جو خطوط نگاری ، اس کی اہمیت و مقصدیت کو ظاہر کرنے کی غرض سے تالیف کی گئی ہے۔ اس کتاب کے اندر تقریبا ً ۱۳۲خطوط جمع کئے گئے ہیں جو مختلف اوقات و مواقع پر مولانا موصوف کو مشاہیر عصر نے تحریر کئے تھے۔ اس میں بیشتر خطوط ایسے ہیں، جن میں فکری سربلندی کے ساتھ ساتھ ادب اور کہیں کہیں تو ادب عالیہ کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔اس انتخاب کی ایک خاص با ت یہ بھی ہے کہ مولف نے تعلیم ، تہذیب ، مذہب ، ادب اور علمی مجالس کے علاوہ سماجی شعبہ سے متعلق موضوعات پر بھی خطوط یکجا کئے ہیں ۔کتاب کا آغاز مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒکے خط سے کیا گیا ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی مختلف الخیال نظریات کی حامل شخصیات کے خطوط کی شمولیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مولف نے اس کتاب کو کسی بندھے ٹکے طبقہ یاکسی مخصوص طرز فکر کو اپنا محور نہیں بناتے ہوئے اسے وسیع المشرب بنادیا ہے ۔
مولف موصوف عرصہ ٔ دراز تک ’’ منشور کاشف ‘‘ کی ادارت کرچکے ہیں۔ ان کی علمیت مسلم اور مطالعہ وسیع ہے۔زبان بڑی حد تک رواں دواں اور شیریں ہے،لیکن عربی فارسی الفاظ کی آمیزش کے سبب کہیں کہیں زبان کافی حد تک دقیق اور کثیف ہوگئی ہے۔بہر حال موصوف کے نام آئے یہ خطوط واضح کرتے ہیں کہ آپ اہل علم و نظرمیں مقبول و محبوب بھی ہیں۔ مجموعی طور پر اس کتاب سے قارئین مختلف زاویوں اور جہات سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔امید ہے قارئین اسے دلچسپی سے پڑھیں گے ۔
شکوہ و جواب شکوہ : ایک مطالعہ
زیر نظر کتاب بھی ڈاکٹر مولانا صدرالحسن ندوی کی ہی ایک اور تالیف ہے۔ اصلا ً یہ ایک مقالہ ہے جس میں موصوف نے شاعر مشرق علامہ اقبال کی شہرہ ٔ آفاق نظم ’’ شکوہ و جواب شکوہ ‘‘ کا ایک عمیق جائزہ لیا ہے ۔ یہ مفروضہ نہیں مسلمہ ہے کہ علامہ اقبال ایک ایسے آفاقی شاعر ہیں جن کی تخلیق اللہ نے اسی مقصد خاص کی تکمیل کیلئے کی تھی۔ وہ ہمیشہ اس بات کے خواہش مند رہے کہ اپنی فکر کو جو خالص اسلامی نہج پر پر وان چڑھی تھی اس سے دنیائے اسلام کو روشناس کرائیں تاکہ ملت اسلامیہ پر چھایا ہوا وہ جمود ٹوٹ سکے، جواسلام اورتوحید و رسالت کے حیات بخش اصول و قوانین سے ایک طویل مغائرت اور اجنبیت کے سبب اس کے اندر بڑی گہرائی تک اتر چکا تھا ۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ملت کو ایسا آفاقی پیغام دیا جس کی نظیر مشکل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہ قوم اس داعی ٔ قوم کے افکار و خیالات سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکی ۔مولف موصوف نے یہ مقالہ ۲۰۱۳ کے ایک سیمینار کیلئے تیار کیا تھا ،جس کا موضوع تھا ’’ ملت اسلامیہ کے مسائل و قضایا علامہ شبلی او ر ان کے معاصر شعرا ء کے کلام میں ‘‘ بعد میں اسے معہدالدراسات الاسلامیہ العلمیہ نے افادہ ٔعام کی غرض سے کتابی شکل دیدی تاکہ وہ بھٹکےہوئے آہو صحرا کی ان وسعتوںمیں گم ہونے کے بجائے ایک بار پھر سوئے حرم رواں دواں ہو جائیں ۔ اس نظم کے ذریعے امت کے تئیںاقبال کی اس تڑپ کو مولف نے مختلف زاویوںسے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے ایمانی حدت میں اضافہ ہو تا ہے ۔آخر میں قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر پوری نظم کو بھی شامل کتاب کردیا گیا ہے ۔ قارئین اسے 50روپئے میںمندرجہ بالا ایڈریس اور فون نمبر سے حاصل کرسکتے ہیں ۔
مذاکرہ بین المذاہب
اسلحہ و بارودسے لدی پھندی اس دنیا میں ہر طرف سے مکروفریب ، عیاری و مکاری ، قتل و غارتگری اور نوچ کھسوٹ کی ہوش ربا آوازیں کانوں کے پردے پھاڑرہی ہیں اور چاروں طرف سے طاغوتی یلغار کی کوششیں ہورہی ہیں ۔انسان انسان کی دشمنی اور بغض و عناد میں اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ ایسے میں عالمی پیمانے پر مختلف تہذیبوں کے مابین بڑھتے ہوئےفاصلوں کو کم کرنے یا ختم کرنے کیلئے فوری اور موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو اس بات کا شدید امکان ہے کہ تہذیبوں کا تصادم پوری انسانیت کو ہی نہ تباہ و برباد کردے ۔ مصنف نے اس مقالے کے توسط سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس خلیج کو مذاکرات کے ذریعے اگر ختم نہیں تو کم از کم اس میںکمی تو ضرو ر کی جاسکتی ہے ۔مصنف نے یہ مقالہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کے ایک سیمینار میں پڑھا تھا، جس کا انعقاد اکتوبر ۲۰۱۵ میں عمل میں آیا تھا ۔
بقول مصنف جدید عالمی نظام کے پس منظر میں عالمگیریت کے جارحانہ تصور نے مذاکرہ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے دوررس اثرات کو اور بھی دوچند کردیا ہے ۔مجموعی طورپر اس نوعیت کے مذاکرات ان تمام جویان امن کیلئے مفید تو ہیں ہی ساتھ ہی اس کے ذریعے ایک عالمی فضائے امن کے قیام کی راہ بھی ہموار کی جاسکتی ہے جو آ ج پوری دنیا کی مشترکہ ضرورت بن گئی ہے ۔اس تناظر میں کتاب کامطالعہ ہر ایک کیلئے ضروری بھی ہے اور مفید بھی ۔قیمت صرف 50/-روپئے ہے۔ اس کتاب کے بھی مصنف ڈاکٹر مولانا محمد صدرالحسن ندوی ہی ہیں۔ موصوف کی ان تینوں کتابوں کے حصول کیلئے اوپر دیئے گئے نمبرات اور ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
برگ حنا : ایک تجزیاتی مطالعہ
اعجاز نبی کاریگر ایک صاحب طرز اور قادرالکلام شاعر ہیں ان کا تعلق سرزمین شولاپور سے ہے، جہاں وہ ایک طویل عرصے سے شعر و ادب کی شمع فروزاں کئے ہوئے ہیں ۔درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستگی کے سبب شولاپور میں انہوں نے اپنی جو شناخت بنائی ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے ۔پچاس سال سے زائد عرصہ پر محیط ان کی سماجی و ادبی خدمات کے اعتراف میں میر افضل میر کا مقالہ ’’ مجموعہ کلام برگ حنا از اعجاز نبی کاریگر ۔ایک مطالعہ ‘‘ ابھی حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے ۔ مطالعہ یہ باور کراتا ہے کہ موصوف ایک صاحب طرز شاعر ہی نہیں اردو کے ایک شیدائی اور صاحب علم بھی ہیں ، اسی کے ساتھ سماجی سطح پر بھی ان کی خدمات کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔
میرافضل میر ایک اچھے تجزیہ نگار اور محقق ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف موضوعات پر تحریر کردہ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوکر عوامی خراج وصول کرچکی ہیں ۔اس مقالے میں انہوں نےکاریگر صاحب کی مشہور نظم’’مزدور‘‘ پر تبصراتی تجزیہ کرتے ہوئے ترقی پسند رجحانات کی ہمہ گیریت پر روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ رجحانات ہر دور میں لوگوں کے اذہان پر غالب رہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ دیگر ترقی پسندشعرا ء کا جب بھی ذکر کیا جائے گا ، آپ بھی اپنی نظم ’’ مزدور ‘‘ کے حوالے سے ضرور یاد کئے جائیں گے ۔اس کے علاوہ آپ کی دیگر تخلیقات بھی اس مقالے میں زیر بحث لائی گئی ہیں ۔جس سے آپ کی شاعرانہ رفعت ، فنی قدرت اور فکری وسعت کی پرتیں کھلتی چلی گئی ہیں ۔ فارسی دانی کے سبب ان کے کلام میں جگہ جگہ فارسی ترکیبیں اور محاورے شعری حسن میںایک وجد آفریں کیفیت پیدا کرتے ہیں،جس کے سبب وہ ایک امتیازی مقام پر متمکن نظر آتے ہیں ۔میر افضل میر کا یہ مقالہ موصوف کی ۷۴ویں سالگرہ کے موقع پر کتابی شکل میں محبان اعجاز نبی کاریگر شولاپور نے بطور تحفہ ( بلاقیمت ) پیش کرکے ایک اچھی روایت قائم کی ہے، جسے بہ نظر استحسان دیکھا جائے گا ۔رابطہ : 9860205429
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106265 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.