حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے مطابق
تمام بڑی مقتدر سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا ڈھول چوراہے میں پھٹ گیا
تھا۔تقریباً58فیصد ووٹ آزاد امیدوار لے گئے در اصل ووٹر ایسی نئی سیاسی
جماعت کی تلاش میں ہیں جس میں راہنمایان نئے چہرے ہوں پرانے گھسے پٹے
ناموں،سابق حکمران انگریزوں کی ملازماؤں کی ناجائز اولادوں خصوصاً جاگیردار
،سودخور نو دولتیوں اور ڈھیروں منافع وصولنے والے صنعتکاروں اور بد کردار
وڈیروں کو عوام سیاست سے مکمل طور پر آؤٹ کرڈالنا چاہتے ہیں مگر وہی پرانے
لوگ ذرا چہروں کا غازہ تبدیل کرکے ہر نئی پارٹی میں شامل ہو کر اسی کے کھڑ
پینچ اور کرتا دھرتا بن جاتے ہیں کارکن لاکھ پیٹتے ،چیختے چلاتے رہیں ان کی
نہ تو کبھی پچھلے ادوار میں کسی نے سنی ہے اور نہ ہی اب سنی جائے گی۔سیاسی
گرو مفت مشورہ کارکنوں کو یہی دیں گے کہ بھائی پرانی تنخواہوں پر گزارا
کرتے رہو اور جیسے پہلے سرمایہ پرست جماعتوں میں شامل رہ کر کرسیاں بچھاتے
،قناتیں لگاتے ،سپیکر فٹ کرتے اور لیڈروں کے نعرے لگاتے تھے وہی عمل جاری
رکھو جب پارٹی اقتدار میں آجائے گی تو شاید حصہ بقدر جسہ مل جائے وگرنہ
روایتی حلوہ مانڈا تو چلتا ہی رہے گا۔اب کارکن یہ سمجھیں کہ ہر نئی پارٹی
انھیں سر پر بٹھائے گی اورانتخابی ٹکٹوں کی بندر بانٹ میں حصہ دار بنائے گی
تو یہ ان کی خام خیالی اور خواہش محض ہے۔لاہوری جلسہ کے بعد عمرانی
پاپولیریٹی آسمان کی بلندیوں کو چھورہی تھی ۔جاگیردار،سرمایہ دار نو دولتیے
بھاگم بھاگ پارٹی کے اندر گھستے چلے گئے خواتین ،نوجوان ،بچے ،بچیاں بہت
متاثر تھے کہ عمران بات کا پکااور وعدہ کا سچا ہے۔نئی پارٹی اور نئے
پاکستان کے نعرے کے لیے تو اصولاً نئے افراد ہی کی ضرورت تھی مگر چوراں نوں
پے گئے مور کی طرح مختلف سیاسی پارٹیوں سے راندہ ٔدرگاہ سرمایہ داروں نے شب
خون مارا ،انٹری ڈالی اور آخری لائنوں تک گھس بیٹھے۔اب کارکن بیچارے حیران
و پریشان ہیں انھیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ درپیش ہے کہ جن
کرپٹ گھسے پٹے لیڈروں اور ممبران اسمبلی کی نفرتوں کی وجہ سے وہ ادھر آئے
تھے وہی یہاں کرتا دھرتا اور چودھری بنے بیٹھے ہیں جس کا بین ثبوت حال ہی
میں مل گیا ہے کہ دوسری پارٹیوں کی طرح عمران خان کے بھی سارے پارٹی پر مال
نچھاور کرنے والے لیڈر تو آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے یعنی انہوں نے پاک
وطن میں نہیں بلکہ باہر انویسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ٹیکس چور بھی ہیں اور کسی
نامعلوم طریقہ سے باہر سرمایہ بھیجنے کے ملزم بھی۔تمام بڑی سیاسی جماعتیں
یا گروہ اب جتنے کٹھ یا جلسے کر رہے ہیں ان کے لیے سرمایہ دار افراد ہی
بھاری رقوم خرچ کرکے پبلسٹی کرتے،گانے بجانے والوں کو مال لگاتے اور
ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ شہر تو رہے ایک طرف اگر کسی دیہات
سے بھی دو تین بسیں بھر کرکسی بھی جگہ جلسہ میں لے جانا مقصود ہو تو یہ بہت
آسان ہے مگر مال ذرا زیادہ لگتا ہے نوجوانوں کی کثیر تعداد بے روزگار اور
فارغ ہے ہی ان کو آنے جانے کی سہولت اور راستہ میں اعلیٰ طعام و قیام ملے
تو انھیں لاہور یا کسی بڑے شہر میں جانے،جلسہ سننے اور وہاں مخلوط محفل
انجوائے کرنے میں کیا قباحت ہے ؟اور ایسی رنگین محفلوں میں نوجوان ہلہ گلہ
نہ کریں تو یہ نا ممکنات میں سے ہے۔اس لیے بڑے کٹھ کرلینا،وہاں اعلیٰ ساؤنڈ
سسٹم لگا کر گیت مالائیں ،ترانے گا بجا کر عوام کا دل بہلا ڈالنا کوئی بڑا
کارنامہ نہ ہے کیا دینی گروہ یا جماعتیں اس سے بڑے اجتماعات کا انعقاد نہیں
کرتیں پھر کتنے فیصد ووٹ ان کو پڑتے ہیں؟ رنگین مخلوط محفلوں پر لوگوں کا
جوق در جوق اور وہ بھی کوئی دھیلا پائی لگائے بغیر پہنچناکوئی جوئے شیر
لانا نہ ہے اور ایسے فنکشنوں میں رش دکھانا قطعاً کمال نہ ہے۔غریب نظریاتی
کارکن یا تو آجکل گھر بیٹھے رہتے ہیں یا پھر با امر مجبوری سرمایہ داروں کی
گاڑیوں میں بیٹھ کر جلسے جلوس میں چلے جاتے ہیں۔سرمایہ دار جاگیردار جو
اپنے آپکو آئندہ انتخابات کا امیدوار ہی سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں وہ افراد کو
بسوں ویگنوں میں ٹھونس کر جلسہ گاہ بھر ڈالتے ہیں۔آج مزدور کو دیہاڑی چار
سو سے زائد نہیں مل رہی آپ انہی مزدوروں کو500 روپے دیہاڑی بھی دیں لذیذ
کھانے بھی کھلائیں تو وہ ذرا گھومنے اور چکر لگانے میں خوش ہی ہو گا۔حالات
اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کسی وقت ایسی جماعت تیار ہوگئی ۔
جس نے سا بقہ اور موجودہ دور کے مقتدر افراد مشیر،پارلیمانی
سیکریٹری،صوبائی ومرکزی وزراء، گورنر،وزرائے اعظم،پاکستانی صدور کو کالی
جھنڈی دکھادی اور ان کی شمولیت اس پارٹی میں ناممکن ہوئی اور پارٹی قائد
خود یا اس کاکوئی قریبی رشتہ دار تک بھی کسی مالی منفعت کے عہدہ کا طلبگار
نہ ہوا تو پھر ہی ورکر ٹائپ لوگ اور درمیانہ طبقہ کے افراد آگے بڑھ کر
اقتداری گھوم چکری میں شامل ہو سکتے ہیں ایم کیو ایم نے ایسا ہی نظریہ پیش
کیا تھا مگر ساتھ ہی دہشت ،وحشت اور بھتہ خوری کے ذریعے مال متال اکٹھا
کرنے کی بھی ٹھان لی تو سارا نظریہ ہی فیوز ہو گیا ورکروں کو تو
زیادہ"شہادتیں" ہی نصیب ہوئیں۔ اور پھر پراپیگنڈا ہی سہی کہ ہندوستان کی
تنظیم راء سے بھی تعلقات استوار کرلیے گئے ہیں اور وہ فنڈنگ کے علاوہ
ٹریننگ بھی دے رہی ہے واﷲ علم باالصواب ۔دینی سیاسی جماعتیں تقریباً سبھی
کسی ایک آدھ کو چھوڑ کراپنے اپنے مسلک کی پرچار کرنے،اور دوسرے مسالک پر
شدید تنقید پرسیاسی عمارت استوار کیے ہوئی ہیں۔جو کہ الٹا دینی افکارکے لیے
ہی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں زیادہ جذباتی کارکن تو دوسرے فرقہ کے لوگوں
کے لیے کفر کے پروانے بانٹتے نظر آتے ہیں اور ذرا سے اشتعال پر مرنے مارنے
پر تل جاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں،مساجد اور مدارث پر حملے
کرکے ایک دوسرے کے سینکڑوں کارکنوں کو جام شہادت بھی پلوا چکے ہیں۔عوام
ایسی جماعت کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو کسی خاص مسلک کی علمبردار بھی نہ ہو۔
جدید دور میں اسلام کے قابل قبول خیالات رکھتی ہو جس کی قیادت نچلے طبقے سے
آئے ۔ویسے تو اﷲ اکبر ہی ایسا لفظ ہے جو تمام مسالک کو ساز گار ہے لو گ تنگ
آمد بجنگ آمد اﷲ اکبر اﷲ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں اکٹھے نکل
پڑے تو عام گناہ گار مسلمان بھی دل و جان سے فخر محسوس کرکے شامل ہوں
گے۔12کھرب ڈالر باہر جا چکے صرف اسی کروڑ ڈالر قرضہ ہے پورا مال واپس آجائے
تو وارے نیارے ہو جائیں گے غربت مہنگائی بیروزگاری کے عفریتوں سے نجات پاکر
آئینی طور پر ضروری تعلیم ،علاج، صاف پانی خلافت راشدہ کے دورکی طرح دیگر
بنیادی سہولتوں پر سبھی کا برابرحق سمجھتے ہوئے ہماری دہلیز پر پہنچا ڈالی
گئیں توانقلاب ہی ہو گاٹی او آر مشترکہ بن نہیں رہے تحقیقات کیا خاک ہوں گی
اور یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی کڑا احتسابی شکنجانہ کسا گیا تو سیاسی اونٹ
رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی خود غرضی اور شکم پرستی ہی تیراماوہ و ملجہ ہے۔
|