اﷲ سے وعدہ!

 سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی نے کہا ہے کہ’’ ․․ جب میں قید میں تھا توا ٓزادی کی دعائیں مانگتا تھا، اب میں آزاد ہوں اﷲ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی ،میں نے اﷲ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہے کہ میں داڑھی نہیں منڈواؤں گا، اور نماز کی پابندی کروں گا‘‘۔ کامل تین برس اُدھر جب پاکستان میں قوم الیکشن کی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہورہی تھی، علی حیدر گیلانی کو مہم کے دوران ہی اغوا کرلیا گیا تھا۔ اغوا کے بعد نہ اغوا کنندگان کے مطالبات کا علم ہو سکا تھا، اور نہ ہی مغوی کی کوئی خبر آئی تھی، بس کبھی کبھی دھمکیوں بھرے خطوط یا فون ضرور آتے رہتے تھے۔ تاوان افواہوں کی صورت میں گردش میں تھا، گزشتہ روز اچانک علی حیدر کی واپسی کی اطلاع سے پورا ماحول خوش گوار حیرت میں ڈوب گیا، جس نے سنا اس نے خوشی سے کلمہ شکر ادا کیا، یہ تو عام لوگوں کی کہانی تھی، گیلانی کے اہلِ خانہ اور دوست احباب کی حالت کیا ہوگی؟ پھر قوم نے دیکھا کہ نہایت ہی وی آئی پی طریقے سے گیلانی کو پاکستان لایا گیا، افغانستان کے اعلیٰ حکام نے انہیں الوداع ، پاکستان کے اعلیٰ حکام نے انہیں خوش آمدید کہا۔ وہ کیسے برآمد ہوئے، کیسے رہائی ممکن ہوئی، ایسے سوالات عموماً وقت کی گرد سے قصہ ماضی بن جاتے ہیں اور ان پر وقت کی گردش اس قدر زیادہ پڑ جاتی ہے کہ وہ دب کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارا اس وقت موضوع ان کی رہائی کے اسباب اور طریقے جاننا نہیں، اور وہ ہمارے بس کا روگ بھی نہیں۔

یہ ایک فطری بات ہے اور اس کا تذکرہ اﷲ تعالیٰ اپنی کتابِ حق میں اکثر مقامات پر کرتے دکھائی دیتے ہیں، یعنی اس صورت حال کی نقشہ کشی کی جارہی ہوتی ہے ، جس میں جب اﷲ تعالیٰ کسی کو کوئی بھی تکلیف دیتا ہے، خواہ وہ بیماری کی صورت میں ہو، یا رزق کی تنگی کی صورت میں یا کسی اور شکل میں، جب تکلیف ہوتی ہے تو انسان اﷲ تعالیٰ کو بہت یاد کرتا ہے، وہ دعائیں مانگتا اور منتیں مانتا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ اگر اس کا مسئلہ حل کردے تو وہ اس کے بدلے میں فلاں نیکی کا کام کرے گا، یقینا اﷲ تعالیٰ کسی چیز کا محتاج نہیں، یہ سارے بندوبست اس نے انسان کی آسانی اور سہولت کے لئے کر رکھے ہوتے ہیں، اپنے ہی دیئے گئے رزق میں سے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو ثواب بھی دیتا ہے اور اس کے ذریعے سے ان کے مسئلے بھی حل کرتا ہے۔ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ہے، بلکہ کافروں کے متعلق بھی یہی کہا گیا ہے کہ جب انہیں تکلیف یا پریشانی پہنچتی تھی تو وہ اﷲ تعالیٰ کو ہی یاد کرتے تھے۔ مگر یہ کہانی الگ ہے کہ مشکل سے نکلنے کے بعد ان کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ جن لوگوں پر اﷲ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور انہیں ہدایت عطا فرمادینے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ لوگ مشکل سے نکل جانے کے بعد اﷲ کے بندے بن جاتے ہیں، اسی کی نعمتوں کا شکر بجا لاتے ہیں۔
 
علی حیدر گیلانی نے بھی تین سال مشکل اور کرب میں گزارے ہیں، ان کی زندگی یقینا رسک پر ہی تھی، کسی کو کسی بات کا یقین نہیں تھا، گھروالوں کو علم نہیں تھا کہ بیٹا واپس آئے گا بھی یا نہیں؟ اب وہ اچانک واپس آگیا ہے، جہاں ہر کوئی حیرت کے سمندر میں غرق ہے تو یہ بات بھی بہت سے لوگوں کے لئے حیران کن ہی ہوگی کہ موصوف نے خود کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تین برس اﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی دعاؤں کا نتیجہ اس کے حق میں برآمد ہوا تھا، اﷲ تعالیٰ نے مراد پوری کردی تھی، اب وعدہ نبھانے کا وقت گیلانی کا تھا، سو انہوں نے اس بات کا اعلان کردیا ہے، کہ وہ داڑھی نہیں منڈھوائیں گے اور نماز کی پابندی کریں گے۔ فیصلہ توا نہیں یہی کرنا چاہیے تھا، تین برس کی مشکل کا یہی جواب تھا، مگر فی الحال یہ جذباتی فیصلہ ہے، جس ماحول اور جس پارٹی اور جن حالات میں انہوں نے وقت گزارنا ہے، وہ ان کے راستے میں ضرور رکاوٹیں پیدا کریں گے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مندرجہ بالا عوامل میں سے کوئی ارادتاً انہیں اچھے کاموں سے منع کریں گے، بلکہ ماحول کا اثر اور اس کی جکڑ بندیاں بعض اوقات ایسی ہو جاتی ہیں، کہ آہستہ آہستہ انسان راہیں تبدیل کرلیتا ہے۔ علی گیلانی کے سوچنے کی ایک اور بات بھی ہے وہ ہیں معاملات، دین صرف نماز اور داڑھی میں ہی پوشیدہ نہیں، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ چھوٹے گیلانی کو استقامت نصیب فرمائے، آمین۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472490 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.