سیاسی جلسے ہیں یا انار کلی بازار۔؟
(ajmal malik, faisalabad)
انار کلی چور ملاقاتوں کی بہانہ گاہ ہے۔وہاں آپ کو کئی بہانے نظر آئیں گے بلکہ بہانے بہانے سے نظر آئیں گے۔ وہاں پرفیوم کافلیورسُونگھ کر کئی الیشن مرد۔زبان کی لت پوری کرتے ہیں۔اور ایکسرے سے آنکھوں کو خِیرہ کرتے ہیں۔ وہاں شاپنگ مالز جانے والا طبقہ نہیں آتا۔ یہ اوپر والا طبقہ معاشرے میں یوں اوپر اوپر رہتا ہے جیسے ساگ کھاکر اُبال پیٹ میں اوپر رہتا ہے۔ اور نچلے طبقےکاخود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پیٹ میں کہا ں ہوگا؟۔ |
|
|
پی ٹی آئی کے جلسے میں شریک خواین |
|
ہمارے ہاں صحت کی بنیادی سہولیات کے فقدان
کی وجہ سےٹُونے ۔ٹوٹکے کا بہت رواج ہے۔لیکن شکر ہے کہ ہر گھر میں ایک زبیدہ
آپا ہوتی ہے۔جس کے طبی مشورے کبھی تو انرجی ڈرنک لگتے ہیں اورکبھی
کبھارہمیں وائبریشن پر لگا دیتے ہیں۔یہاں مردانہ بیماری کی تشخیص ایکسرے سے
ہوتی ہے اور زنانہ بیماری الٹرا ساؤنڈ سےپہچانی جاتی ہے ۔بلکہ یوں کہہ لیں
کہ الٹرا ساونڈ جوانی کی بیماری ہے اور ایکسرے بڑھاپے کی ۔ لیکن کچھ ایکسرے
ہسپتالوں کے بجائے انار کلی میں ہوتے ہیں۔ بیمار شہزادوں کی بڑی تعدادوہاں
ایکسرے خود کرتی پھرتی ہے۔ انار کلی شہنشاہ اکبر کی اُس ضد کا نام ہے ۔ جو
دیوار میں چنوا کر پوری ہوئی۔عہد مغل سے عہد چغل تک۔کے سارے سلیم انار
کلیوں میں پھرتے ہیں۔ پس دیوارایکسرے کی خواہش والے سلیم۔ ۔
انار کلی میں ایک مرد نے خاتون سے پوچھا :میں نے اپنی بیوی کو تحفہ دینا ہے
۔جو پرفیوم آپ نے لگایا ہے اس کا نام کیا ہے۔ ؟
دکاندار: شہزادے یہ پرفیوم اپنی بیوی کومت دینا۔ وگرنہ کسی ذلیل کو اُس سے
بات کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔
انار کلی ایسی چور ملاقاتوں کی بہانہ گاہ ہے۔جہاں آپ کو کئی بہانے نظر
آئیں گے بلکہ بہانے بہانے سے نظر آئیں گے۔ وہاں پرفیوم کافلیورسُونگھ کر
کئی الیشن مرد۔ زبان کی لت پوری کرتے ہیں۔اور ایکسرے سے آنکھوں کو خِیرہ
کرتے ہیں۔ پاکستان کی طبقاتی تقسیم کی طرح انارکلی میں ہمیں اوپر۔ اور نیچے
والے طبقوں کے مابین واضح لائن آف کنٹرول نظر آتی ہے۔ وہاں شاپنگ مالز
جانے والا طبقہ نہیں آتا۔ یہ اوپر والا طبقہ معاشرے میں یوں اوپر اوپر
رہتا ہے جیسے ساگ کھاکر اُبال پیٹ میں اوپر رہتا ہے۔ اور نچلے طبقےکاخود
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پیٹ میں کہا ں ہو گا؟۔ انار کلی ایسا بازار
ہے۔جس سے مردوں کو بڑی رغبت ہے۔میرا دوست مرید کہتا ہے کہ تحریک انصاف کے
جلسے بھی انارکلی بازار جیسے ہیں ۔جہاں پرفیوم۔ملاقات۔بہانہ اور ایکسرے
جیسے سارے آپشنزموجود ہوتے ہیں۔
جلسے میں موجودایک لڑکی اپنی سہیلی سے بولی: وہ لڑکا مجھے مسلسل پریشان کر
رہا ہے۔
سہیلی:لیکن وہ تو تمہیں دیکھ بھی نہیں رہا۔
لڑکی:ہاں یہی تو پریشانی ہے۔
لوگ جلسوں میں جا کربہت پریشان ہوتے ہیں اور ٹی وی پر’’انارکلی‘‘دیکھ کر
زیادہ پریشان۔۔ پاکستان میں تحریک انصاف کے علاوہ کوئی جماعت یہ دعوی نہیں
کر سکتی کہ ملک کی ایلیٹ کلاس کو گھروں سےباہرہم نے نکالا ہے۔اوپروالا طبقہ
فیملی سمیت اِن سیاسی تفریح گاہوں کا رُخ کرتا ہے۔ ٹائٹس، کیپری، جینز،
بغیر بازو قمیض۔چونکہ اس طبقے کا کلچر تھا سو۔ وہ کلچر اوپر والے طبقے
کےساتھ جلسوں تک پہنچ گیا۔تصویر کائنات میں رنگ زیادہ نمایاں
ہوگئے۔صداطمینان یہ ہے کہ تحریک انصاف نے طبقاتی ایل او سی کو ختم کر دیا
ہے جس کے بعد مڈل کلاس اور نچلے طبقے کو ایلیٹ کے نزدیک آنے کا موقع ملا
ہے۔ تفریح کاموقع ۔
شوہر: بیگم کل چھٹی ہے اور میں نے انجوائے کا پروگرام بنا لیا ہے۔
بیگم : اچھا کیا پروگرام ہے ۔؟
شوہر: نئی فلم لگی ہے۔پہلے شو کی3 ٹکٹ لایا ہوں ۔
بیگم: لیکن 3 ٹکٹ کیوں ۔؟
شوہر:تم اور دونوں بچے فلم دیکھنے جاؤ گے ۔
کہتے ہیں کہ خاموش آدمی مفکر ہوتا ہے اور خاموش عورت پاگل۔مفکروں نے اپنی
تفریح کے لئے پاگلوں کو جلسوں میں بھیجا تھا۔دونوں نے اپنا اپنا انجوائے
کیا۔ لیکن خواتین جلسوں میں جاکر پاگل نہ رہیں ۔خوب چیخی چلائیں۔وہ پارٹی
سمجھ کربن ٹھن کے گئی تھیں باہر نکلیں تو حالت یوں تھی گویا پارٹی میں بارش
ہو گئی ہو ۔حتی کہ تحریکی جلسوں کو میرج بیورو سمجھنے والی اداکارہ میرا
۔اور گلوکارہ قندیل بلوچ بھی روتی ہوئی باہر نکلیں۔قائدین کو پتہ نہ چل سکا
کہ خواتین تفریح کی وجہ سے چیخ رہی ہیں یا تکلیف کی وجہ سے۔اسلام آباد اور
لاہور میں تو اتنی تفریح ہوئی کہ پرچے کٹوانے پڑے۔جس کے بعد عمران خان نے
جلسوں میں خواتین کےآنے پر پابندی لگا دی گئی ۔پشاور اور بنوں کی تفریح
گاہیں بند رہیں۔خواتین کے بغیر دونوں جلسے شوگر فری رہے۔ ٹی وی چینلز نے
خواتین کو اتنا فوکس کیا کہ دھرنے کے شرکا اپنا فوکس ۔ ڈی فوکس کر بیٹھے۔
فنکار اور گلوکاروں نے اپنےفن کے جوہر دکھائے۔ مفت میں گانے سننے ، دیکھنے
اور جھومنے کو۔کون کافر منع کر سکتا تھا ۔جلسوں میں دھڑا دھڑ ’’مسلمان‘‘
پہنچنے اور ایمان تازے کئے۔
بیوی کو ٹی وی پر دیکھ کر شوہر نےپوچھا: تم نے تو کہا تھا میں ذرا ۔ سمیرا
کی طرف جا رہی ہوں۔ جلسے میں کیا کر رہی تھی ۔
بیوی: میں تو سمیرا کی طرف ہی جا رہی تھی۔ لیکن وہ جلسے میں جا رہی تھی۔
تبدیلی کانعرہ گونجا تو بڑی شدت سے لیکن نتائج اُتنے شدید نہیں نکلے۔ یوتھ
کے نام پر ووٹ لینے والوں نے’’نوجوان‘‘ پرویز خٹک کو وزیر اعلی بنا دیا ہے۔
بنوں جلسے میں عمران خان نے کارکنوں سےتبدیلی پر تین سوال پوچھے ۔کرپشن کم
ہوئی۔پولیس ٹھیک ہوئی اور سکول سسٹم ٹھیک ہوا۔؟۔ سب سوالوں کا جواب ایک ہی
تھا۔ نہیں۔۔ وہ تبدیلی جو عمران خان کو نظر آرہی تھی۔ اُسے دیکھنے کے لئے
کارکنوں اندھےثابت ہوئے۔ شائد نہیں ۔نہیں کہنے والوں کووفاقی وزیر پرویز
رشید نے بھیجا ہوگا۔بالکل ویسے ہی جیسے پشاور جلسے میں ن لیگ نے ماڈل گرل
عینی خان کو بھیجا تھا۔ اس تحریکی دعوے کا کوئی عینی شائد تو نہیں ملا۔
البتہ قند یل بلوچ کہتی ہیں انہیں عمران خان سے ملاقات کے لئے پاس چاہیے۔
خدا جانے وہ کتنے پاس کی بات کر رہی ہیں۔ ؟
ہم جس سماجی بندھن سے جُڑے ہیں وہاں کوئی بھی ایسی بات، رویہ یا حرکت
جومعاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور ثقافتی رکھ رکھاؤ سے میل نہ کھاتی ہو۔اسے
انگریزی میں ٹیبو کہتے ہیں۔ایسا کلچرجس کا تذکرہ ہم دوسروں کے کان سے زبان
لگا کر سرگوشی میں کرتےہیں۔کاروکاری، ونی ،ستی، قرآن سے شادی،لو
میرج،خواتین کا ناچ گانا، ڈریس کوڈ ،دوسری شادی، ناجائز تعلقات اور جنسی
تعلیم ہمارے ٹیبوز ہیں۔ان ٹیبوز میں مبتلا لوگ عموماسماجی دباؤ سے ماروا
ہوتے ہیں جنہیں یہ خوف نہیں ہوتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔مفکرین کاخیال ہے کہ
سماجی ترقی کاآغاز۔اور معاشرتی زوال کی ابتدا۔ فکرسے ہوتی ہے۔جو معاشرے
فکری زوال کا شکار ہو تے ہیں وہ مر جاتے ہیں۔گویا۔فکری تبدیلی کچھوے کی چال
ہےاور خرگوشی تبدیلی غیرپائیدار۔۔میرا دوست مرید کہتا ہے کہ تحریک انصاف نے
بعض ٹیبوز کو تبدیلی کا نعرہ دیا ہے۔جنہیں سماج ہضم نہیں کرسکا لیکن کچھ
لوگ ایسے ٹیبوزسے بے فکر ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ؟۔اُن کے نزدیک یہی
تبدیلی ہے۔
سردار:گھر سے اپنی بیوی کا الٹرا ساونڈ کرانے گیا اورواپس آکر ماں
کوخوشخبری دی۔
سردار:بے بے ۔مبارک ہو ہم دو سے تین ہونے والے ہیں۔
بے بے:واہ ۔پُتر مبارک ہوا ۔ بیٹا ہونے والا ہے یا بیٹی
سردار:اماں ایسا کچھ نہیں۔۔تیری بہو نے دوسری شادی کر لی ہے۔ |
|