ایک پہلوان ڈاکٹر صاحب کے پاس اپنا ٹوٹا
کندھا لے کر پہنچا تو ڈاکٹر نے پوچھا پہلوان صاحب آپ تو پہلوان ہیں پھر بھی
ایسا کیا اٹھا لیا کہ آپ کا کندھا ہی متاثر ہو گیا۔ پہلوان صاحب نے جواب
دیا اپنے بچے کا سکول کا بیگ اٹھا لیا تھا۔
پہلوانی طاقت جتنی اللہ نے ہمارے دماغ میں رکھ چھوڑی ہے ہم تو زندگی بھر
بھی تگ و دود کرنے میں لگے رہیں تب بھی انسان اسکا بےحد چھھوٹا سا حصہ ہی
بمشکل استعمال کر پاتا ہے۔ دماغ کے اندر اللہ نے کھربوں اسقدر چھوٹے خلئے
آپس میں جوڑ رکھے ہیں کہ انسانی ذہن کے لئے اسکے بارے میں تصور کر پانا بھی
بے حد مشکل ہے۔ یہ خلیئے آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ کئے رکھتے ہیں اور
انسان جو بھی دیکھتا سنتا سوچتا ہے وہ ان تک منتقل کرتا رہتا ہے۔ دماغ اللہ
کا بنایا وہ کرشمہ ہے کہ سائنس اسکے بارے میں جاننے کے باوجود بھی ابھی تک
بہت ہی کم جان سکی ہے۔
انسان کے لئے اپنے اندر چھپی طاقت کے خزانوں کے بارے میں جاننا بے حد ضروری
ہے جسکو کبھی ہم
Interest area, passion , self-awareness, consciousness, suitable
profession, strength area, Intelligent Quotient, Emotional Quotient
کے نام سے جانتے ہیں۔
خود کو جاننے اور پہچاننے کے حوالے سے اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں
تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خود کو جاننا ہم چاہتے نہیں ۔۔۔۔۔۔ جبکہ دوسروں کی
ٹوہ لینے کے لئے ہم اپنی طاقت جسقدر لگا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید خود
کو جاننے کے لئے اس سے بھی آدھی طاقت استعمال کریں تو کہاں کہ کہاں ہوں۔
کہیں اور نہ جائیں صرف اپنے آس پاس گردن گھما کر اور نظر دوڑا کر دیکھیں تو
آپکو پتہ لگے گا کہ ہم لوگ بحیثیت انفرادی بھی اور مجموعی
بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس قدر سست اور نکمے ہوتے جارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے معاشرے کا اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آپ کوئی
بھی شعبہ لے لیں استاد سے لے کر ڈاکٹر، مکینک، الییکٹریشن، چپڑاسی تک اگر
آپ سو لوگ لیں تو آپکو اندر سے ایسا انسان جو مخلص ہو کر کام کرنے والا اور
کام کو اپنا سمجھ کر کرنے والا شاید ہی کوئی ملے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو میں سے
دو ہی ملیں گے۔ اسکا تجربہ ہم سب کو ہی روز مرہ زندگی میں ہوتا رہتا ہے۔
روز مرہ زندگی میں ہم خود تو چاہتے ہیں کہ جس بھی دکان دفتر مکان میں ہمیں
کام کرنا ہے وہاں پر ہمیں تنخواہ اور سہولیات تو اے لیول ملیں مگر کام آٹھ
گھنٹے کیا تین گھنٹے بھی نہ کرنا پڑے۔ کام کرتے ہوئے تو ہم منٹ منٹ کا حساب
رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وصولتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ بے حساب
ہی مل جائے۔ پاکستان میں دفتر سرکاری لیں یا غیر سرکاری ہم لوگ جتنی سیاست
کر سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو بھی مات دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر سیاستدان تو ہوتے ہی
'سیاست' کرنے کے لئے ہیں۔
حساب کتاب کے معاملے میں اگر دیکھا جائے تو مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے کہ
عورت جس کے اوپر مظالم تو جاری ہیں اور آج بھی اسکو آدمی سے ذیادہ مسائل کا
سامنا ہے مگر اسکو زندگی ابھی بھی پڑھ لکھ جانے کے باوجود زندگی انتہا کے
بھونڈے انداز میں گزارنے کا شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ساری انرجی
پہلے خاوند ڈھونڈنے میں پھر باقی زندگی خاوند کی جیب سے رقعہ ڈھونڈنے میں
لگا دیں گی۔
خواتین آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں انکو قومی دھارے میں ڈال کر ہی ترقی ممکن
ہے صرف بل پاس کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ جب تک آپ خود اپنی سوچ کو آگے نہیں
لے کر جائیں گی گھریلو سیاسیات او لڑائی پڑوانے سے آگے قدم نہیں بڑھائیں گی
کام نہیں بنے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواتین کی ذہانت جسقدرلڑائیاں
پڑوانے میں استعمال ہوتی ہے اس سے بھی آدھی اگر وہ ڈھنگ کا کام کرنے کے لئے
استعمال کر لیں تو خود کو اور ملک کو بھی بھلا پہنچائیں۔
مگر نہ جی گھریلو لڑائیوں اور سوپس سے فرصت ملے گی تو آگے سو چیں گی
نہ۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ ویسے اس بات کا تو بہت خیال رکھتے ہیں کہ فلاں طرف جانے کے لئے اگر
پیدل نکلے تو کتنا چلنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ بات کبھی
نہیں سوچتے کہ اگر ہم ٹی وی اور موبائل پرپورا دن مصروف ہیں تو ہماری دماغی
طاقت کس قدر ان چیزوں نے نگل لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہی سہی کسر نیوز چینلز
نے پوری کر دی۔۔۔۔۔۔۔جو ہمیں خود باخبر رہنے کے نام پر پورا پورا دن نیوز
چینلز کا دل دہلاتا میوزک سننے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ ان خبروں کے خوف نے
ہماری رہی سہی انرجی کو بھی زنگ لگانے کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے۔
خدارا زندگی ایک بار ملتی ہے اللہ کی دی ہر نعمت وقت دماغ اعضا ایک امنات
ہیں انکو امانت کی طرح خیال رکھ کر اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لئے
استعمال کرنا سیکھیں۔ اپنے شوق اور زوق کو جانتے ہوئے شعبے کا انتخاب کریں،
اپنا دماغ دوسروں کا بھلا کرنے والا بنائیں، اپنا وقت کام کے کاموں اور
مثبت تفریح پر لگائیں۔ |