نسل
(Raja Nazir Ahmed, Islamabad)
انسان کی قدریں اس کی نسل سے پہچانی جاتی ہیں |
|
تقريباً
چھـ سال پہلے كی بات
ھے كہ ميرا
كتا مر گيا. دیہاتی ھونے
كی وجہ سے گھر ميں
ھميشہ كتا رکھا رھتا تھا،
كيونكہ مال مويشی جو ركھے رھتے تھے. وقت كے
ساتھـ مويشی دھات كا شہر بننے
كے كارن ختم كر دۓ ليكن كتا پالنے كا شوق پھر بھی قائم رھا.
كتے كے مرنے كے بعد
كافی عرصہ اچھی نسل كا كتا دستياب نہ
ھو سكا. والد
مرحوم اكثر كہتے تھے دوست اور كتا
ھميشہ نسلی ھو نا چھۓ، كيونكہ يہ دونوں
انسان كے ساتھی
ھوتے ھيں وقت پڑنے پر دھوكا نہ ديں. بس
انہی باتوں كو لۓ
نسلی كتے كی تلاش جاری رھی.
ايک دوست نے ايک دن كال
كی كہ آو اور كتا لے جاو اس
كی پالتو كتی نے چند
بچے جنے تھے. كتی كی نسل مجھے پتا تھی اس لۓ دوڑا گيا اور جھٹ سے ايک
"ٹائيگر" اٹھا لايا. جبكہ كتے كے باپ كا پتہ
نھ تھا. ايک سال تک فيڈر دينے
سے اوجری ڈالنے تک "شيرو" نے خوب خدمت
كرائی.
كتا جوان ھوا تو پتہ چلا كہ كتا نامعلوم باپ
كی 'كاٹھی' ھے جس كی نسل كا
كچھـ پتا نہيں، ليكن 'شيرو' لاڈلہ بہرحال تھا، لاڈلہ
ھی رھا.
"كلے" پرھميشہ زور ديتا اور
ھر آۓ گۓ پر بھونكتا، اور
يہی بات مجھے چنداں
پسند نا تھی. مالک
كی موجودگی ميں بغير خطرھ ديكھے يا محسوس كۓ كتے كا
كوئی
كام نہيں كہ مالک
كی اجازت كے بغير بھونكے. منہ زور غلام اور كتے بے
اعتبارے ھوتے رھے
ھيں.
مجھے ڈر تھا كہ كسی دن
كسی مہمان كو 'كلا' توڑ كر نقصان نہ پہنچا دے. ليكن
يہ نوبت كبھی نہ
آئی اور كتا رفو چكر
ھو گيا.
ھوا يوں كہ ايک بزرگ
ھمارے گھر آۓ، اور جب انہوں نے كتے
مذكورھ كی 'اُٹھان'
ديكھی تو بولے، بھئی كھول دو اسے. بزرگ "كت خانے" ميں مھر تھے. اور
يہی ان
كا كل تجربہ تھا جو
زندگی ميں كمايا.
ميں نے كہا بزرگو!
كسی كو كاٹ كھاۓ گا، جو بہركيف
بری بات ھے. كہنے لگے
"ميرا كتوں كے معاملہ ميں تجربہ تم سے
زيادھ ھے، جو كہتا ھوں
وھ كرو كھولو
اسے اور دروازے سے بھر نكال دو" !!!!
كچھـ نہيں ھو گا ..... ميں نے
جھجھكتے ھوۓ 'پٹہ' ڈھيلا كيا تو كتا جو چند لمحہ پہلے تک بزرگوں پر خوب گرج
برس رھا تھا كچھـ ڈھيلا پڑگيا. "پٹہ" كھلنے پر پہلے ميرے پاوں چاٹے جو اس
كا فرض تھا، ليكن
حيرانی اس بات كی تھی كہ دوڑ كر اس نے بزرگوں
كی قدم بوسی
بھی كی، ميں سمجھا شايد ان كا شكريہ ادا كر رھا
ھے. ليكن كيوں؟ شكريہ كس
بات كا؟ سابقہ كتے تو سواۓ ميرے كبھی
كسی كے پاس نہ جاتے تھے،
ميری موجودگی
ميں، ميری اجازت كے بغير نہ
كسی پر خود بھونكتے اور نا لاڈ كرتے!!
ميں نے گردن پكڑ كر
مذكورھ "شيرو" كو گيٹ سے بھر كر ديا، اور "شيرو" بغير
"شكريہ" كہے چلانگيں مارتا، نظروں سے اوجھل
ھو گيا، پريشانی اس بات پر تھی
كہ "پٹہ" اور "رسی" ميں
وھ ھر كسی كو بھونكتا تھا، ليكن
غلامی كا طوق اترنے
كے بعد وھ كسی رھ گير پر برسے بغير چھلانگيں لگاتا كہيں چلا گيا اور ميں
گيٹ بند كر كے اندر آ گيا. "شيرو" كے اس رويے
كی وجہ سے ميں نے كتا پالنا
چھوڑ ديا. اور ايک سواليہ نشان ميرے ذھن ميں نقش
ھو گيا!!!
كافی عرصہ بعد "شيرو" كو
كچھـ پٹھان بچوں كے
ھاتھوں ميں ديكھا جنہوں نے اسے
ايک پرانے اور گندے كپڑے سے
باندھـ ركھا تھا، وھ اس كو ادھر ادھر كھينچ رھے
تھے، اور وھ سہما ھوا ڈرا
ھوا، چوں چوں كر رھا تھا. اس نے مجھے بالكل نہ
پہچانا اور ميں بھی انجان بن كر پاس سے گزر گيا، ليكن ايک مالک كا
دكھـ
سينے سے بحرحال
اُٹھـ رھا تھا كہ دودھوں پلا آج كس حال ميں ديكھا تھا!!!
بات اب بھی سمجھـ سے بھر تھی، ليكن
كوئی بات تھی جو ذھن كے گوشے پر دستک
دے رھی تھی.
كچھـ دنوں ميں ھی بابا
جی مذكورھ سے ملاقات ھو
گئی جنہوں نے شيرو كا طوق
اتروايا تھا!! مجھـے ميرے سوالوں كے جواب چھئيں تھے اس لۓ ايک
ھی سانس ميں
ميں نے بزرگوار سے
پوچھـ ليا "كتا مالک كے
ھوتے، بھونكتا كيوں تھا؟
رسی اور
پٹے ميں چيرنے كو دوڑتا، ليكن طوق اترنے كے بعد، دم ٹانگوں ميں كيوں
آئی؟
گھر واپس كيوں نہ آيا؟ اپنے مالک كو پہچانا كيوں نہيں؟ بزرگوں كا ايک
حرفی
جواب سارے معاملے كو حل كرگيا....... بيٹا ياد ركھو "نسل"
#ٹيڈی |
|