اس اقدام کا کوئی قانونی جواز نہیں،انٹرنیٹ صارفین پر
شکنجہ کسنے کی ایک اور ناکام کوشش
وادئ کشمیر کے پلوامہ اور پھر ہندواڑہ میں رونماہوئے واقعات کے تناظر میں
کپواڑہ کے ضلع مجسٹریٹ نے ضلع میں انٹر نیٹ پر چلانے والے گروپوں کو رجسٹر
ڈکرنے کی ہدایت دی جس کے بعدہر ایک ضلع میں اس قسم کی ہدایات سامنے
آئیں۔کپواڑہ کے بعد بڈگام میں پولیس کو ہدایت کی گئی کہ انٹر نیٹ کی
مانیٹرنگ کریں تاکہ افواہ پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔جموں
وکشمیر ریاست غالباًایسی پہلی ریاست ہے جس نے انٹرنیٹ پر واٹس ایپ گروپ
بنانے والوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔
پولیس کوواٹس ایپ گروپوں کی مانیٹرنگ شروع کرنے اور گروپ بنانے والوں سے
انہیں باضا بطہ طور پر رجسٹر ڈکرانے کی ہدایات دی گئیں۔یہ جواز پیش
کیاجارہاہے کہ واٹس ایپ گروپوں کو منظم کرنے کا مقصد افواہیں پھیلانے والوں
کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ پر غیر
پیشہ ورانہ افراد نے گروپ بنا لیے ہیں جن میں ہر علاقے کی اطلاع دی جاتی ہے
اور بعض عناصر ان گروپوں کو غلط طریقے سے استعمال میں لاتے ہیں۔پولیس کی
کاؤنٹر انٹلی جنس ونگ کی جانب سے جو سروے کیا گیا اس میں ایسے گروپوں پر
پابندی لگانے کے علاوہ انہیں چلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی بات
کہی گئی ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعہ جرائم انجام دیے جارہے
ہیں لیکن ابھی تک انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کے تحت چنددفعات کے علاوہ کوئی
بھی باقاعدہ ضابطہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ایسے افراد کے خلاف کوئی
کارروائی کی جاسکے یا پھر ان کی طرف سے شیئرکی جانے والی معلومات کے مخفی
مقاصد کو کنٹرول میں کیاجاسکے۔
انٹرنیٹ کو کوڈ کے ذریعہ کنٹرول کرنے سے متعلق پروفیسر لارنس لیسنگ اور جان
پیرے بار لاء کی ’دی ڈکلریشن آف انڈی پنڈنس آف سائبر اسپیس‘کی فلاسفی ابھی
تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ آہستہ آہستہ مختلف ملکوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر
باقاعدہ نظررکھنے کے لیے قواعد وضوابط بنانے پرسنجیدگی سے غوروفکر
کیاجارہاہے کیونکہ لگاتار سائبر دہشت گردی اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد تک
بلااجازت رسائی وغیرہ کے بڑھتے خطرات سماج کے لیے تشویش کا باعث بن چکے ہے۔
انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف تکنیکی اپروچز جن میں’ نیٹ
نیوٹرلیٹی‘،’ انکرپشن پالیسی‘، اور’بیک ڈور ان این انکرپشن‘ وغیرہ خصوصی
طورسے قابل ذکر ہیں، پر تفصیلی بحث وتمحیص کی جارہی ہے اور یہ خاصا چرچاکا
موضوع بھی ہیں ۔لیکن انٹرنیٹ کے پیچیدہ ،بین الاقوامی نوعیت کے ہونے اور
سماج میں اظہار رائے کی پابندی کی وجہ سے یہ بحث بھی تنازعہ کا شکار ہوکر
رہ گئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں انٹرنیٹ کو مکمل طور پرکنٹرول
کرنے کے لیے کوئی واضح ضابطہ تیار نہیں ہوسکا،جموں وکشمیر حکومت نے واٹس
ایپ گروپوں کو منظم کرنے کی کوشش کی ہے جوکہ پروفیسر جیک گولڈا سمتھ کے اس
متاثر کن مضمون’اگینسٹ سائبرانارکی‘ کا مواخذ دکھائی دے رہی ہے ۔ موصوف
سائبرا سپیس کو فیزیکل اسپیس مانتے ہیں۔ اس نظریہ کی اہمیت بھی اب ڈاٹا کی
زیادہ سے زیادہ توسیع اور پھیلاؤیعنی ’ورچوئلائزیشن‘ اورکمپیوٹر و انٹرنیٹ
کی بڑھتی مانگ ’کلوڈ کمپیوٹنگ ’اور’انکرپشن‘(خفیہ کاری)کی وجہ سے کم ہوگئی
ہے۔ کیا حکومت جموں وکشمیر کی واٹس ایپ پر ہونے والی بات چیت کو منظم کرنے
کی کوشش کارگرثابت ہوگی، کیا اس کا عملی طور پرنفاذ ممکن ہوسکے گا، کیا اس
سے ایسا کچھ ہوپائے گا یاپھر یہ بھی ایک اور ناکام کوشش ثابت ہوگی؟ یہ وہ
سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جموں وکشمیر جیسی حساس ریاست میں افواہوں کا
رول حالات کو سنگین بنانے میں خطرناک اور نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس کی
سنگینی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے امن وامان کی صورتحال متاثرہوسکتی
ہے، جانی ومالی نقصان ہونے کا خدشہ بنا رہتا ہے ۔سوشل میڈیا وغیرہ کا
استعمال کرتے وقت احتیاط برتنا اور ایسی افواہیں یا جھوٹی خبریں پھیلانے سے
اجتناب کرنا ہرشہری کا فرض ہے لیکن واٹس ایپ گروپوں پر نظر رکھنے کے لیے
جوحکومت کی طرف سے حالیہ فرمان جاری کیا گیا ہے، اس کا کوئی قانونی جواز فی
الحال تو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ریاستی حکومت نے واٹس ایپ گروپوں خاص طور
سے ’’سوشل میڈیا نیوز ایجنسی ‘‘اور واٹس ایپ نیوز گروپ کے ایڈمنس سے کہاہے
کہ وہ گروپ میں غیرذمہ دارانہ ریمارکس یا کوئی ایسی خبر جس کی وجہ سے کسی
حادثہ کے رونما ہونے یاامن وامان کی صورتحال کے بگڑنے کا اندیشہ پیدا ہو،اس
کے لیے وہ ذمہ دار ہونگے۔ اس کے تحت سرکاری ملازمین کو بھی حکومت کی
پالیسیوں اور فیصلوں سے متعلق کوئی رائے زنی یاریمارکس دینے سے منع
کیاگیاہے۔ ایسے فرامین غیر مؤثر ہیں کیونکہ واٹس ایپ پر کی جانے والی بات
چیت میں خفیہ کاری انکرپشن ہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے پاس کوئی چابی یا
ایسا طریقۂ کار موجود نہیں کہ وہ ڈاٹاکو’ڈکرپٹ‘کرسکے۔ اس لیے بات چیت کے
مواد کی تحقیقاتی ایجنسی تاک جھانک نہیں کرسکتی۔ مزید یہ کہ ایک بار واٹس
ایپ گروپ ’ڈلیٹ‘ (حذف) کر دیاجائے تو یہ معلوم کرناممکن نہیں
کہ’یوزر‘(صارف)صرف گروپ کا ممبر تھا یا پھر اس کا ایڈمن بھی۔ اس کے علاوہ
اس واٹس ایپ گروپ جس کے ایک سے زائد ایڈمن ہیں کے ساتھ ڈیل کرنے کا بھی
کوئی طریقۂ کار نہیں کیونکہ گروپ چھوڑنے پر اپنے آپ دوسرا کوئی بھی ممبر
ایڈمن ہوسکتا ہے۔ اگر یہ حکم نامہ لاگو کیاجاتا ہے تو یہ بے معنی ہوگا
کیونکہ گروپ بنانے اورمعلومات کو شیئر کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں، جن میں
فیس بک میسنجر، وی چاٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا اور
انٹرنیٹ پر بات چیت سے متعلق کیسوں کے حوالہ سے ثبوت جمع کرنا، شناخت کرنا
اور ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کرنا مشکل ترین عمل ہے اور اس کا کوئی سخت
اثر بھی پڑنے والا نہیں۔ قواعدو ضوابط ،جن کے تحت قانون شکنوں/مرتکب افراد
کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے ،کی غیر موجودگی میں یہ اقدام بے دانت ،غیر مؤثر
اور محض کاغذی خانہ پری ہی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ احکامات حقوق برائے ’
اظہار رائے کی آزادی ‘کی صریحاًخلاف ورزی ہے کیونکہ یہ نہ صرف شہریوں کے
درمیان واٹس ایپ پرہونے والی بات چیت پر کڑی نظر رکھنے کے لیے ہے بلکہ
شہریوں کو ایک دوسرے کی مخبری کرنے کی حوصلہ فزائی بھی کرے گا جوکہ اوٹس
ایپ کے اصولوں کے منافی ہے۔ بہت سارے واٹس ایپ گروپ ایسے ہیں جہاں ہم خیال
لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، جس میں کوئی قابل اعتراض نہیں ہوتا ،نہ
ہی کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس سے امن وقانون کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ
ہو اور نہ ہی یہ ملک مخالف ہوتی ہے لیکن اس کی رازداری لازمی ہوتی ہے۔
یہ حکم آئینی فریم ورک کی خلاف ورزی ہے جوکہ شہریوں کو اظہار رائے اور
بولنے کی آزادی دیتا ہے ۔ بولنے اور اظہار رائے اور کسی سے معلومات حاصل
کرنے پر معقول پابندیاں حق ’آزادی اظہار رائے ‘کا تو ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔
اگر افواہیں ، تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوجائیں اور نازک صورتحال پیدا
ہونے کا خدشہ ہوتو امن وامان کو بنائے رکھنے کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی
ایکٹ کے سیکشن۶۹؍کے تحت حکومت انٹرنیٹ سروسز بلاک کرسکتی ہے ۔انفارمیشن
ٹکنالوجی کے سیکشن۶۶؍اے کے تحت حکومت کو انٹرنیٹ وکمپیوٹر کو کنٹرول کرنے
کے کافی اختیارات حاصل تھے لیکن اس کو عدالت عظمیٰ نے غیر آئینی قرار دے
دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک اہم ترین فیصلہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے
سیکشن۶۶؍اے کو’سیاہ‘ضابطہ قرار دیتے ہوئے اس کو کالعدم قرار دیاتھا اور
کہاتھاکہ اس کے تحت انٹرنیٹ پر مبینہ طورپر قابل اعتراض مواد چڑھانے کی آڑ
میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔ منمانے، ضرورت سے زیادہ اور غیر
متناسب آزادی اظہار کے حق پر حملہ کرتا ہے اور اس طرح صحیح اور معقول
پابندیاں ایسے حق پر عائد کی جاسکتی ہیں۔واٹس ایپ پر ابتدائی مراحل پر
افواہوں اور خبروں کو روکنے اور ان کا پتہ لگانے کے حوالہ سے فی الحال
تحقیقاتی ایجنسیاں قاصر ہیں ۔موجودہ تناظر میں قانون کے تحت کوئی ضابطہ نہ
ہونے کی وجہ سے واٹس ایپ گروپوں پرشکنجہ کسنے کے لیے جاری حکم نامہ کا کوئی
جواز نہیں ہے۔ اس کے لیے قانون سازیہ کی منظوری بھی نہیں لی گئی ہے ، اس
لیے اس کو جلد ہی واپس لینے ہی میں بہتری ہے۔
(نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں) |