ملک کدھر جا رہا ہے ؟

ہندوستان کو آزاد کرانے میں سب سے زیادہ اگر کسی قوم نے قربانی دی ہے تو وہ قوم مسلم ہے ،جس نے انگریزوں کی جابرانہ حکومت سے ملک کو آزاد کرانے کیلئے زبردست مالی اور جانی قربانیاں پیش کیں ہیں۔یہی وہ علماء کرام تھے جنہوں نے دیوبند کی سرزمین سے انگریزوں کے خلاف فتوی جاری کیا اور جہاد کی آواز بلند کی ۔ریشمی رومال کی تحریک نے جنگ آزادی میں زبردست رول ادا کیا ۔جس کے نتیجے میں ملک کا ہر فرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور زبان و تہذیب سے ہو ،سر سے کفن باندھے ہوئے اس معرکے میں کود پڑا ۔خاص کر اس راہ میں مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں نا قابل فراموش ہیں۔علماء نا صرف جنگ آزادی میں پیش پیش رہے بلکہ انہوں نے آزادی کی جنگ کو جہاد کا نام دیا اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ۔جس کے نتیجے میں سب سے زیادہ انگریزوں نے ظلم و ستم کا پہاڑ انہی علماء کرام پر توڑا ،انہیں سولی پر لٹکایا گیا ۔کہتے ہیں ہندوستان کے تقریباً ستر فیصد درخت پر علماء کرام کی لاشیں لٹکی ہوئی ملی تھیں ۔انگریز جانتے تھے کہ حکومت انہی سے چھینی ہے اس لئے سب سے زیادہ درد انہی کو ہے جس کی وجہ سے اس نے سب سے زیادہ ظلم و ستم کے پہار مسلمانوں پر توڑے ۔لاکھوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ،بے شمار لوگوں کے حق میں پھانسی کے پھندے آئے اور کتنے ہی مظلوموں کو ملک بدر کر کے ’’کالے پانی ‘‘کو عمر بھر کا قیدی بنا کر بھیج دیا گیا ۔

آج مسلمانوں سے ان کے حب وطنی کا ثبوت مانگا جا رہا ہے ،انہیں بھارت ماتا کی جئے کہنے کے لئے نا صرف مجبور کیا جا رہا ہے بلکہ اسے محب وطن کے لئے آخری سرٹیفکٹ کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے تو وہ محب وطن ہے ورنہ وہ دیش دروہی ہے ۔اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسی کو بنیاد بنا کر حکومت ہند بھی جگہ جگہ تعلیمی اداروں میں ترنگا جھنڈا لگانے کا فرمان جاری کر رہی ہے ۔کیا جھنڈا لہرانے سے کوئی محب وطن ہو سکتا ہے ۔یہ تو ایک فطری عمل ہے جس کے اظہار کے لئے کوئی پیمانہ ہو ہی نہیں سکتا ہے ۔یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ان سر فروش مجاہد ین اسلام کی اولاد کو آج برادران وطن ہر قسم کی نا انصافیں کا نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ملک کے بعض تنگ دل ،تنگ نظر ،خود غرض اور فتنہ پر ور لوگ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے پر اصرار کر رہے ہیں ۔اس منافقانہ سوچ نے بہت سے بھولے بھالے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔ملک کے کونے کونے میں شر پسند عناصر نے اپنا ڈیرا جما لیا ہے اور بس یہی دو پیمانے ہر کسی پر آزمانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کی خلاف ورزی یا خاموشی اختیار کر رہا ہے اسے دیش دروہی کہہ کر موت کی نیند سلا رہے ہیں ۔یہ ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔وہ ہر طرف ہر گلی اور ہر گاؤں میں اپنا زہر پھہلانے میں مصروف ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے ۔بلکہ ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے طبقے کی طرف سے بھی اسے شہ مل رہا ہے اور وہ ہی اس نفرت انگیز مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔آج ہندوستان کے شہری کو یہ احساس کیوں ہو رہا ہے کہ ہمارے اس ملک کا نظام ،انصاف کے دوہرے پیمانے رکھتا ہے ۔ملک کے اصلی دشمن کو کھلی چھوٹ دے کر ملک میں قتل و غارت گری کی ہوا کو تیز کرنے کا کام کیا جا رہا ہے اور سیدھے سادھے لوگوں کو محض مذہب کی بنیاد پر دیش دروہی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آج مجاہدین آزادی کی روح تڑپ رہی ہوگی کہ کیا اسی دن کے لئے ہم قربانیا دیں تھی کہ ہمارے اولاد کو دریش دروہی ثابت کیا جائے ۔آج بہادر شاہ ظفر کی وہ غدر کی قیادت پر سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے کیا اسی دن کے لئے میرٹھ سے ہزاروں لاکھوں آزادی کے پروانے لال قلعہ کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں اور ضیعف ،بستر مرگ بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ بنانے کی ضد کرتے ہیں جس میں برادران وطن کی بڑی تعداد تھی ،ان کی لاکھ معذرت کے با وجود سب نے ان کے ہاتھ پر بیت کیا اور پھر انگریزوں کی حکومت کا تختہ الٹ کر غدر کو تاریخ کے صفحات میں درج کر دیا ۔اکیسوی صدر میں جانوروں کو خدا کا درجہ دیا جا رہا ہے ،مگر انسانوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد تر سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔حقیقت پر تخیلات ہاوی ہو رہا ہے ۔جس سے نئی نسل صرف بد ظن ہی نہیں بلکہ متنفر ہو جائے گی ۔اور وہ وقت دور نہیں جب خود برادران وطن اپنی بیزاری کا مظاہرہ کریں گے ۔اب بھی وقت ہے اس طرح کی تمام بحثوں کو بند کیا جائے اور ملک کو ترقی کی رفتار دینے کے لئے معاشی اقدامات کئے جائیں ۔ملک میں اور بھی بڑے بڑے مسائل ہیں ان پر توجہ مرکوز کی جائے ۔حکومت اس کو نہیں کہتے ہیں کہ تخیلات پر مبنی عقیدے کو بڑھاوا دی جائے بلکہ عوام کی سہولیات اور ان کے نفع نقصان کے سلسلے میں غورو فکر کیا جائے ۔امید ہے ان پہلوں پر غورو فکر کر کے ہندوستان کو نئی بلندی عطا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101918 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.