کیا اس ملک میں احتساب ہو سکتا ہے ؟

کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ اب سیاسی سرکس کا آغاز ہو گیا ہے، آج کل اس سرکس کی بادشاہت نون لیگ کے حصہ میں ہے اور تمام جوکر مختلف کرتب دکھانے میں مصروف ہیں، اور لوگوں کو اسلئے محضوظ کر رہے ہیں کہ پنڈال خالی نہ رہے جب انہیں لگتا ہے کہ لوگ کچھ بیزاری سی محسوس کر رہے ہیں تو میدان میں سیاسی جوکروں کو اتارا جاتا ہے اور وہ مختلف کرتب دکھا کر لوگوں میں داد وصول کی جاتی ہے ، پھر لوگ ا س سے اکتا جاتے ہیں تو پھر اس سیاسی سرکس میں سیاسی بندر اچھل کود کر کر کے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں اور کبھی خر خر کر کے لوگوں کو ڈراتے ہیں اور کبھی اپنے سینے ٹھونک ٹھونک کر لڑنے کا چیلنج دیتے نظر آتے ہیں، کل کے اجلاس میں ( سعد رفیق کی کلپں ) ظاہر ہے کہ کون ان بندروں سے لڑے گاچونکہ عوام یہ جانتے ہیں کہ یہ تو سیاسی سرکس ہے صرف مذاق ہے اصل تو نہیں ہے، اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سرکس میں تمام جانور صرف پیٹ بھرنے کے لیے سیاسی سرکس میں کرتب دکھانے پر معمور ہیں، کوئی سیدھی چھلانگیں لگا رہا ہے اور کوئی الٹی قلابازیاں کھا رہا ہے چونکہ کرتب اتنے زیادہ ہیں تو لوگوں کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس کس کے کرتب دیکھیں اور کس کس کو داد دیں۔
اور اسی بازیگیری کے مظاہرے دکھا دکھا کر اس حکومت کو اپنا دورانیہ مکمل کرنے کا وقت مل جائے گا اور یہ قوم اسی طرح سانپ کی نکل جانے پر اسکی بنی لکیر پیٹ کر اپنی دل کی بھڑاس نکالتے ہیں او رو پیٹ کر پھر کسی نئے بازیگر کو اپنا حاکم بنا کر اس کے لگنے والے زحم کو سیچنے کی تیاریوں میں پھر لگ جاتے ہیں۔

یہ اس ملک کا المیہ ہے جو احتساب کے عمل کو کسی صورت عمل درآمد نہیں ہونے دیتا ۔ اور اگر ایسی کوئی کاروائی ہو جائے تو مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عالمی طاقتوں کے پناہ ڈھونڈ کر ان سے نئے وعدے کر کے خم ٹھونک کر پھر اسی عظم کے ساتھ نئی لوٹ مار کرنے آجاتے ہیں چونکہ انہیں عالمی طاقتوں کی حمایت ہوتی ہے جو اس ملک کے اصل نگران ہیں اور ان کے مفادات اس قوم کی دولت سے منسلک ہوتے ہیں وہ ان مفادات کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے جن کی مرضی سے لوگوں کو حکومت میں لانے کا ایجنڈا تشکیل دیا جاتا ہے، اور پھر احتساب کیسے ہو سکتا ہے لوٹی دولت کیسے واپس لائی جا سکتی ہے ۔ وہبظاہر تو اس ملک کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں لیکن دراصل ان کی دولت اپنے دوستوں کے ساتھ مل کرہڑپ کر جاتے ہیں ۔

اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ امداد پر امداد قرض پر قرض دیے جاتے ہیں اور ا قرضوں کو اتارے کے لئے بھی قرضے لیے جاتے ہیں اتنا بھاری قرضہ جسکا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اس قوم کا برا حال ہوجاتا ہے اور کرپشن ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ، اور یہ حکمران اس قرض کا بہت برا حصہ ہڑپ کر کے کر انہی ممالک کے بینکوں کے خفیہ اکاوئنس میں محفوظ کرلیتے ہیں ۔ جس سے ان ممالک کی معیشت ترقی کرتی ہے چونکہ سرمایا تو غیر ممالک سے ان کے بینکوں میں جمع ہو کر ان کے کام آ رہا ہے۔

اس لئے احتساب ممکن نہیں ہے جب تک کہ (خدا نخواستہ) ملک اپنی موجودہ شکل میں نہ رہ سکے یا اس کا موجودہ نقشہ میں تبدیلی ہو جو کہ عالمی طاقتوں بشمول انڈیا کا ایک دیرینہ خواب ہے اور ہمارح حکمران اس کا حصہ بھی ہیں ان کے کلعدم تنظیموں سے رابطے اور تعلقات بھی ہیں جو اس ملک میں دھشت گردی میں ملوث بھی ہیں جو نہ صرف ان سے بلکہ ہمارے دشمنوں سے بہتر تعلقات اور معاہدے کر کے ان کے کام میں مزید سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ ملک کے محب وطن لوگوں کو دیوار سے لگا دیا جائے اور پھر ان کی راہ میں کووی رکاوٹ نہیں ہوگی اور وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں آزاد ہونگے اور جمہوریت کا راگ الاپ کر اس کے لئے جدوجہد کی جائے جو ہو ہی رہی ہے ۔ یہ تو ہمیں بلکتا چھوڑ کر اپنے آقاوءں کی پناہ میں چلے جائیں گے اور ہم اک دوسرے سے دست و گریباں ہو کر دوسروس کی لگائی آگ میں جل رہے ہونگے۔ اب جو موجودہ صورتحال ہے یہ اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے ہے اب پاکستان بھی عراق ، شام یا لیبیا بنانے کی تیاریاں عوج پر ہیں اور ہمارے حکمران اس سیاسی سرکس سے لوگوں کو محضوظ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تو احتسا ب کس کا اور کون کرے گا جب سارے ہی کرپشن کی اس دلدل میں آلودہ ہیں۔

Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82159 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More