صوبائی حکومت کیلئے

ویسے توپاناما لیکس کا ہنگامہ جاری ہے ،اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،سب اسی کے انتظار میں ہے ۔پاناما لیکس آنے کے ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی حل نہیں نکلا ہے ،حالات جو ں کے توں ہے ۔سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کے ٹرم آف ریفرنس ری جیکٹ ہونے کے بعد اپوزیشن کے موقف کو تقویت ملی ہے اور حکومت کے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ آج وزیر اعظم کے قومی اسمبلی میں تقریر سے مسئلہ حل کی طرف جائے گا یامزید ٹینشن پیدا ہوگی جس کا امکان زیادہ ہے۔بحرحال آج ہمارا موضوع ہے کہ صوبائی حکومت کو چند تجویز دے تا کہ عوام کے مسائل کچھ نہ کچھ حل ہو جائے۔ہمارے ملک میں اگر کسی ایشو پر توجہ نہیں دی جاتی یا اس کی اہمیت حکمرانوں کے سامنے کم ہے وہ عوام کے مسائل ہے ۔ ہر پارٹی عوام کی خدمت کے نام پر ووٹ تو لیتی ہے لیکن برسراقتدار آکر عوام کو بھول جاتی ہے جس کی وجہ سے عوام کے مشکلات اور مسائل میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ حکمرانوں کو ہم سے زیادہ معلومات ہے کہ عوام کے مسائل کیا ہے اور اس کو کیسے حل کرنا چاہیے لیکن بعض دوستوں کے اسرار پر اور اپنے دل کو تسلی دینے کیلئے آج صوبائی حکومتوں کو چند تجویز یا مشورہ دینا چاہتا ہوں جس پر اگر عمل کیاجائے تو عوام کو مہنگائی کی صورت میں جو مشکلات درپیش ہے وہ کچھ حد تک کم ہوجائے گی۔قارئین کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ اگر حکومت چاہے توسب کچھ ممکن ہے۔

قارئین رمضان کا مہینہ آنے والا ہے جس کی فضلیت اور اہمیت سے ہر مسلمان واقف ہے لیکن بدقسمتی سے یہ مہینہ شروع ہوتے ہی مہنگائی کا طوفان بھی شروع ہوجاتا ہے ، جو چیز عام دنوں میں پچاس اور سو روپے کی ملتی ہے ،رمضان شروع ہوتے ہی اس چیز کی قیمت دوگنی ہو جاتی ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے ہر ناجائز منافع کمانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہاں پر ایک واقع یاد آتا ہے کہ ایک عیسائی اینٹوں کے بھٹی میں مزدورتھا ، رمضان کے مہینے میں چونکہ مہنگائی بڑھ جاتی ہے اسلئے مزدور کار کی آمدنی مہنگا ئی کے حساب سے کام ہو جاتی ہے ۔ عیسائی مزدور کو بیوی نے شگواہ کیا کہ گھر کے حالات خراب ہے، کیا کرے ، عیسائی مزدور نے جواب دیا کہ فکرمت کر و چند دن مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے ختم ہونے میں رہ گئے ہیں جب یہ مہینہ ختم ہوجائے گا تو مہنگائی کم ہوجائے گی ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کوہم مسلمان ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آج بحیثیت مسلمان جو بھی غلط کام ہم کر رہے ہیں وہ کسی آور مذہب کے ماننے والے نہیں کرتے ۔داڑھی ، تسبیح ،نمازیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں لیکن جن کاموں سے اﷲ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اس کو کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ،عوام کو صحیح راستہ دکھانے میں جہاں حکومت کے تعلیمی ادارے ناکام ہے وہاں پر ہمارے مدارس اور علما بھی اس بارے میں خاموش ہے ۔بحرکیف ناجائز منافع خوری اور حرام مال کھانا آج ہمارے کاروبار کا حصہ بن چکاہے جس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تمام مکتب فکر کے لوگوں کی ذ مہ داری ہے ۔آج ہم صرف صوبائی حکومتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے بچت بازار ہر جگہ شروع کرے۔ ایسے بچت بازار جو ایک تحصیل میں دو تین جگہ پر قائم ہو جس میں حکومت کاروباری لوگوں کو ہر قسم کی سہولت مہیا کر ے اور اس کا کرایہ بالکل نہ ہو یعنی فری اسٹال مہیا کرے جس میں پانی بجلی کی سہولت بھی ہو اور عوام کو روزمرہ استعمال ہونے والے ہر شے میسر ہو ۔ان سستے بازار میں حکومت اپنے ریٹ کے مطابق اشیاء خوردونوش سمیت ہر شے کی فروخت آرزاں قیمت پر ممکن بنا سکتی ہے۔ ان بازاروں میں عوام کو روز گار بھی ملے گا ، کاروبار کے نئے مواقعے شروع ہونے سے جہاں حکومت اپنی ریٹ کے مطابق چیز وں کی قیمت مقرر کر سکتی ہے وہاں پر عام مارکیٹوں میں بھی اشیاء کی قمیتں کم ہوجائے گی ، مقابلے شروع ہونے سے ناجائز منافع خوروں کی روک تھام بھی ممکن ہوجائے گی اور عام لوگوں کو بھی فائدہ پہنچ جائے گا ۔ پنجاب کی حکومت سستے بازار شروع کرتی ہے جس کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو جانا چاہیے لیکن ان بازاروں کا فائد ہ اتنا نہیں ہوتا جس کی کئی وجو ہات ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان بازاروں کو اپنے لئے منافع کاذریعے نہ بنائیں بلکہ عوام کو سہولت دینے اور مہنگائی کو روکنے کا ذریعے بنا دیں ، پنجاب میں یہ بازار صرف بڑے چند شہروں میں ہوتے ہیں جن کی تعداد بھی کم ہوتی ہے۔ میری تجویز ہے کہ حکومت ایک تحصیل میں تین ،چار بازار لگائے جہاں عام لوگوں کی رسائی آسان ہو اور یہ بازار مستقل طور پر قائم ہو۔ جہاں کرایہ وغیرہ نہ ہو البتہ بجلی کا مناسب بل لیا جاسکتا ہے۔ ان بازاروں کو قائم کرنے سے جہاں پر مہنگائی کم ہوسکتی ہے اور عوام کو ایک ہی جگہ پر تمام چیز سستی قیمت پر مل سکتی ہے وہاں پرعام بازاروں اور مارکیٹوں میں رش بھی کم ہوسکتا ہے ۔ٹریفک کا مسئلہ جو دن بد ن بدتر ہوتا جاتا ہے ، اس کو بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔حکومت کے پاس ہر جگہ سرکاری زمین موجود ہوتی ہے جس میں ان سستے بازارں کو مستقل طور پر شروع کیا جاسکتا ہے جہاں ریٹ کو چیک کرنے کا سسٹم موجود ہے چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے حکومت دوکاندارں کو منافع دینے کا مخصوص شرح رکھیں جس سے دوکاندار کو بھی نقصان نہ ہو ۔ ہمارے زیادہ تر دوکاندار اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہم پر ائیویٹ مارکیٹ میں ہر مہینے ہزاروں روپے کرایے کی شکل میں مالک کو ادا کرتے ہیں اسلئے دوکاندار مجبور ہے کہ اپنے کسٹمر سے زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں۔خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت سمیت تمام صوبائی حکومتوں کو اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہر کرنا چاہیے اور جلد از جلد ایسے بازاروں کا انعقاد ممکن بنانا چاہیے تاکہ عام لوگوں کو مہنگائی سے کچھ حد تک ریلف ملے۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226696 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More