آج تومیں اس وقت تک سکول نہیں جاؤں گاجب تک آپ مجھے
جیب خرچ نہیں دیں۔ہرروزہی آپ مجھے کل کاکہہ کے ٹال دیتی ہیں۔ وہ․․․ وہ حنان
ہے نا!اس کے پاس روزانہ بہت سارے پیسے ہوتے ہیں۔․․․وہ سارادن کچھ نہ کچھ
کھاتارہتاہے۔بریک میں وہ اپنابڑاساٹفن کھول کے بیٹھ جاتاہے اورکھاتابھی ہے
اورہرایک کوطنزیہ نظروں سے دیکھتابھی ہے کہ ہے ۔کوئی مجھ ساہوتوسامنے
آئے!اور․․․اور․․․․ایک میں ہوں۔بالکل غریب․․․فقیر․․․ میرے پاس ایک روپیہ بھی
نہیں ہوتاکہ میں بریک میں کوئی ٹافی ہی لے سکوں۔اب میں نے بھی فیصلہ کیاہے
کہ اس وقت تک سکول نہیں جاؤں گاجب تک آپ مجھے خرچی نہیں دیں گے۔ماں․․․اومیری
پیاری ماں․․․!پلیز․․․پلیزمجھے دس روپے تودے دیں۔پلیز․․دھمکیاں دیتے دیتے وہ
التجاؤں پہ آگیا۔
جُعیل اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولادتھا۔اس کے والدمحنت مزدوری کرکے اپنے
بیوی بچوں کاپیٹ پالتے تھے۔نہ تووہ خودحرام کھاتے تھے نہ اپنی اولادکوحرام
کھلانے کے حق میں تھے۔اگران کی بیوی کبھی کبھارجعیل کی ضدکاذکرکرتی تووہ
کہتے اوکرماں والی!تجھے پتاتوہے․․․میں اپنی اولاد کا رونا، بھوکا
رہنا،پریشان ہونایہ سب کچھ توبرداشت کرسکتاہوں مگرحرام․․․حرام
کھلانااورحرام کمانامیرے بس کاکام نہیں۔بس جتناہے اسی پرگزارہ کرواﷲ کبھی
درکھول دے گاپھرپوری کرنااپنے شہزادے کی خواہشیں!سکینہ یہ سن کرپریشان
ہوجاتی۔
آج بھی جعیل نے اپنی ماں کاسرکھالیاتھاکہ آج تومیں جیب خرچ لے کرہی جاؤں
گا۔ورنہ سکول نہیں جاؤں گا۔بڑی مشکل سے اس کی ماں نے اس کواس بات پرراضی
کیاکہ آج آخری بارتم سکول چلے جاؤتمہارے ابوکام پرگئے ہیں۔ شام کوجیسے ہی
آئیں گے میں ان سے تمہارے لئے پیسے لے لوں گی۔باقی ضرورت کی چیزیں
پھرخریدیں گے۔کل تمہیں ضرورجیب خرچ ملے گا۔بڑی مشکل سے جعیل سکول کے لئے
روانہ ہوگیااوراس کی ماں نے کلمہ شکراداکیا۔
جعیل بریک کے بعدجیسے یہ کلاس میں آیاتواپنے بینچ کی طرف جاتے ہوئے اس کی
نظرنیچے پڑے ہوئے کاغذپرپڑی تواس نے جھک کرجب اس کواٹھایاتووہ ایک ہزارروپے
کانوٹ تھا۔ایک لمحے کیلئے توجعیل کانپ کررہ گیاکہ نوٹ یہاں کیسے
آگیا۔کیاکوئی سٹوڈنٹ لایا؟نہیں نہیں اتناتولینڈلارڈکوئی نہیں۔پھپھ ․․․پھرکس
کاہوگا․․․؟یہ سوچتے ہی اگلے ہی لمحے وہ جعیل کی جیب میں منتقل
ہوچکاتھااوروہ من ہی من میں بڑاخوش ہورہاتھا۔اب کئی دن کے خرچ کاانتظام
ہوگیا۔مگرساتھ ہی اس کواپنے دل پربوجھ سامحسوس ہوااس نے غورکیاتواس کے
ضمیرسے آوازآئی کہ آج تک تیرے باپ نے تجھے ایک لقمہ حرام کانہیں
کھلایااوراب توحرام کھاناچاہتاہے۔وہ اس آوازپرحیران رہ گیا۔ضمیراورنفس کی
جنگ شروع ہوگئی ۔آخرکارجیت ضمیرکی ہوئی ۔
ابھی تک باقی طلبہ کلاس میں نہیں آئے تھے وہ ایک فیصلہ کرکے جلدی سے
باہرنکلااوراپنے انچارج سے اجازت لیکران کے کمرے میں داخل ہوگیااوروہ نوٹ
ان کی ٹیبل پررکھ ساری بات بتادی۔انہوں نے اس سے وہ نوٹ لیکراس کوشاباش دی۔
نوٹ دیکرہلکاپھلکاہوکرکلاس میں آگیا۔
آج میں نے آپ کاامتحان لیاہے۔سرمشتاق نے بریک کے بعدکلاس میں داخل ہوتے ہی
کہا۔طلبہ ان کی بات سن کرحیرت زدہ رہ گئے کہ ہم نے کوئی امتحان نہیں
دیاسرکیسے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے امتحان لیاہے ۔وہ حیرت سے ایک دوسرے کی
طرف دیکھنے لگے۔ آخرکلاس کے مانیٹرنے جرات کرکے پوچھ ہی لیاسرہم سمجھے نہیں․․․کیساامتحان․․․؟
ہاں آپ سمجھ ہی نہیں سکتے۔میں خودہی بتاتاہوں۔ آج میرے دل میں یہ بات آئی
کہ مجھے اتناعرصہ ہوگیاہے آپ کوپڑھاتے ہوئے۔ کیاآپ نے میری طرف سے کوئی
تربیت بھی قبول کی ہے یانہیں؟ بس یہ سوچ کربریک کے بعدجب تمام طلبہ باہرچلے
گئے تومیں نے اپنی جیب سے ایک ہزارکانوٹ نکال کرکلاس میں پھینک دیااوراسٹاف
روم میں آکرکیمرہ کے ذریعے دیکھنے لگا۔آخرکارجعیل سب سے پہلے کلاس میں
آیا۔سرنے جیسے ہی جعیل کانام لیاتوسب طلبہ اس کی طرف متوجہ ہوگئے اس نے
شرمندگی سے سرجھکالیاکہ شایدسرنے اس کوپہلے وہ نوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے دیکھ
لیاتھا۔اب اس کی خیرنہیں!
اس نے وہ نوٹ اٹھایااورمیرے پاس لے آیا۔سرنے بات آگئے بڑھاتے ہوئے
کہا۔تومیں نے اﷲ کاشکراداکیاکہ میری تربیت کاآپ پراثرہورہاہے۔اس لئے میں یہ
ایک ہزارکانوٹ جعیل کوانعام کے طورپردیتاہوں اورہاں پانچ سواس کے علاوہ بھی
دے رہاہوں ان کی سب ساتھی مٹھائی کھالیں گے۔یہ کہہ کرسرمشتاق صاحب نے
ہزارکانوٹ نکال کرجعیل کوبلایاتواس کی آنکھوں میں آنسوآگئے اس کویقین
ہوگیااس پرآگہی کادرکھل گیاکہ جب بندہ حرام سے بچتاہے تواﷲ تعالی اس کیلئے
حلال کے بہت سارے راستے کھول دیتے ہیں ۔وہ ایک عزم اورارادے کے ساتھ
اپناانعام وصول کرنے کیلئے آگئے بڑھ گیا۔کبھی بھی حرام نہ کھانے کے عزم سے۔ |