جمہوریت ،جمہوریت جمہوریت ……یہ وہ راگ ہے جسے ہماری سیاسی
قیادت صبح و شام الاپتی ہے۔اور اسے پاکستانی کی بقاء و سلامتی کے لیے ضروری
ہی نہیں لازم و ملزوم قرار دیتی ہے،یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے اس سے اختلاف
رائے کی قطعا گنجائش نہیں……لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ہماری
سیاسی قیادت جمہوریت کیمفہوم سے ہی نا آشنا ہے،اور جو ایک آدھ اس کے معانی
و مطالب سے آگاہی رکھتے ہیں تو وہ بھی ایسا نہیں چاہتے کہ عوام جو ان کا
حلقہ انتخاب ہیں جمہوریت کے ثمرات سے فیضیاب ہوں۔جمہوریت انکی ترقی و
خوشحالی کا موجب بن سکے۔
جمہوریت کا ادراک رکھنے والے سیاستدان ایسا کیوں نہیں چاہتے ، اس لیے کہ ان
کی نیتوں میں فتور موجود ہوتا ہے،اور ان کے دلوں میں کھوٹ کوٹ کوٹ کر بھرا
ہوتا ہے۔اور ان کے دل و دماغ کو اس سوچ نے آسیر بنا رکھا ہوتا ہے کہ اگر
ہمارے سادہ لوح عوام کو جمہوریت کے فیوض و برکات ملنے لگ گئے اور انہیں
جمہوریت سے آشنائی مل گئی تو وہ ان کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے،لہذا
انہیں جمہوریت کے روشنی سے دور رکھا جائے انہیں جمہوریت کے مطالب معانی سے
لاعلم ہی رہنے دیا جائے،یہ سیاستدان چاہتے ہیں کہ عوام کوحسین اور سنہری
مستقبل کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنے میں ہی عافیت ہے۔
پانامہ پیپرز کے بعد جمہوریت کے سچے پیروکاروں اور نقلی نام لیواؤں کے
درمیان حد فاصل کھینچ دی ہے آئس لینڈکے وزیر اعظم سیگمنڈر تلاؤگسن نے اپنی
اہلیہ کا نام پانامہ پیپرز میں آنے پر اپنے منصب سے استعفی دیدیا، گو انہوں
نے استعفی عوامی احتجاج کے آگے سر نگوں ہوکر دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی
پارلیمان کے سپیکر ڈیوڈ کارٹرنے اپوزیشن ارکان کی اقاریر کے دوران ’’کھپ ‘‘
ڈالنے اور سپیکر کے احکامات و ہدایات کو خاطر میں نہ لانے کے جرم پر ملک کے
وزیر اعظم مسٹر ’’جان کی ‘‘کو پارلیمنٹ سے باہر نکال دیا……برازیل کی
پارلیمان نے برازیلین صدر دلماروزیف کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کرکے
انہیں چھ ماہ کے لیے ان کے منصب سے معطل کردیا، ڈلماروزیف پر الزام ہے کہ
انہوں نے 2014 کے بجٹ میں خسارے کو چھپانے کے لیے سرکاری اکاؤ نٹس میں ہیرا
پھیری کی تاکہ انتخابات میں فائدہ اٹھایا جائے۔ نائب صدرمائیکل ٹیمرنے
قائمقام صدر کا منصب سنبھال کر فرائض سرانجام دینا شروع کر دئیے ہیں۔ ادھر
دلماروزیف نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنے نام کو لگنے والے داغ
سے صاف کروانے کے لیے پوری کوشش کریں گی…… آسٹریلوی وزیر اعظم کا نام
پانامہ پیپرز میں آنے پروزیر اعظم میلکم ٹرن بل سے وہاں کی اپوزیشن نے
وضاخت طلب کر لی ہے اور جب جمہوریت کی ماں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ
کیمرون پارلمنٹ میں آکر معاملے کی وضاخت کرسکتے ہیں حالانکہ پانامہ پیپرز
میں ان کا نہیں ان کے ’’ابا جی‘‘ کا نام آیا ہے تو ہمارے وزیر اعظم کو اپنے
حلقہ انتخاب پارلیمان میں آنے پر اعتراض کیونکر ہے وہ پارلیمان میں آنے اور
جواب دینے کے سوال پر سیخ پا کیوں ہوتے ہیں۔ جب کہ سیاسی لیڈروں کا تو یہی
دعوی ہوتا ہے ،کہ وہ عوام کو جواب دہ ہیں اور جمہوریت میں عوام ستے مراد
پارلیمان ہی ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کے بنائے ٹرمز انڈ ریفرنس کو مسترد کرتے
ہوئے وزارت قانون کو خط لکھ دیا ہے سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ٹرمز اینڈ
ریفرنس کے حتمی فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ممکن نہیں ……1956کے ایکٹ کے
تحت کمیشن کی تشکیل سے مقاصد تو حاصل نہیں ہونگے نام ضرور خراب ہوگا اس لیے
مناسب قانون سازی کی جائے……پانامہ پیپرز کی انکوائری کے ضوابط کار اتنے
وسیع اور لامحدود ہیں کہ کئی برس لگ جائیں گے……جن افراد،خاندانوں ،گروپس
اور کمپنیوں کی تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے ان کی معلومات اور تعداد فراہم
کی جائے…… سپریم کورٹ کے اس ردعمل سے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے اور
وزیر اعظم نواز شریف سمیت خاندان کے دیگر افراد اور حکومتی اتحاد میں شامل
شخصیات سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔سپریم کورٹ کے اس جواب جو حکومت کے لیے
غیر متوقع ہے سے اپوزیشن کی بغلیں کھل گئیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سپریم
کورٹ کے جواب سے ان کے موقف کی تائید ہوگئی ہے کہ حکومت تحقیقات کے لیے
مخلص نہیں اور وہ وقت گذارنے کے چکر میں ہے۔حکومت خصوصا وزیر اعظم کی
مشکلات میں اضافہ کا باعث کوئی اور ہو نہ ہو آرمی چیف کا وزیر اعظم کو
پانامہ پیپرز کا معاملہ جلد سے جلد نمٹانے کا مشور وزیر اعظم کے لیے ہ ضرور
باعث تشویش ہے۔اسکی وجہ یہ قرار دی جاسکتی ہے کہ حکومت تو خود چاہتی تھی کہ
سپریم کورٹ اس معاملے کو طول دے اور اتنا طول دے کہ حکومت کی باقی مدت پوری
ہو جائے بعد میں جو ہوگا اسے دیکھ لیا جائے گا۔لیکن حکومت ایسا نہیں چاہتی
تھی اور نہ ہی یہ تحریر کیے گئے سکرپٹ کا حصہ تھا کہ سپریم کورٹ جوڈیشن
کمیشن کی تشکیل سے ہی انکار کردے بلکہ حکومت کی آرزوتو یہی تھی کہ سپریم
کورٹ کمیشن تشکیل دیکر بات کو برسوں تک لمبا لے جائے۔
میں نے تو بہت پلے لکھا تھا کہ اگست تک حکومت کے لیے بہت مسائل کھڑے ہونگے
لہذا وزیر اعظم پانامہ پیپرز کے بحران سے نکلنے کے لیے وزارت سے مستعفی
ہوجائیں اور اپنے جانشین کے طور پر چودہری نثار علی خاں کے تقرر کا رسک
نہیں لینا چاہتے تو اپنے برادر خورد جناب شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیں
تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے ٹرمز اینڈ ریفرنس کو ہی اپنا لیا جائے تاکہ کسی
انہونی سے ملک اور جمہوریت کو محفوظ بنایا جا ئے۔لیکن شائد میری یہ بات
حکومت کو اچھی نہیں لگی۔ اب وزیر اعظم کا ایک روز کے لیے ترکی تشریف لے
جانے کا بظاہر مقصد تو ترکی کے صدر کے فرزند کی شادی میں شریک ہونا بتایا
جا رہا ہے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف ترک صدر طیب
اروان سے اس بحران سے نکلنے کے ’’گر‘‘ سیکھنے کی بھاگ دوڑ قرار دیا جا رہا
ہے۔ان سطور کے شائع ہونے تک وزیر اعظم ترکی کے لذیز کھانوں سے لطف اندوز
ہونے کے بعد اسلام آباد واپس پہنچ چکے ہوں گے اور آئندہ دو چار روز میں
نہیں بلہ پیر کے روز پارلمنٹ میں وزیر اعظم کی باڈی لینگویج اور خطاب کے
لہجے سے معلوم ہوجائے گا کہ وزیر اعظم ترک صدر سے کیا ’’گر اور ہنر‘‘ سیکھ
کر آئے ہیں۔ویسے جو کچھ ہمارے وزیر اعظم کر رہے ہیں وہ جمہوریت نہیں ہے
بلکہ جمہوریت کے نام پر دھبہ ہے،جمہوریت تو وہ ہے جو آئس لینڈ کے وزیر اعظم
نے کیا۔ جو نیوزی لینڈ کے سپیکر پارلمنٹ نے اپنے احکامات نہ مانے پر اپنے
ہی وزیر اعظم کو پارلیمنٹ سے باہر نکال کیا کیا بھلا ہمارا سپیکر چاہے کسی
بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اپنی جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ ایسا
سلوک کرنے کی جرات کریگا؟، جمہوریت تو اسے کہتے ہیں کہ برازیل کی
صدردلماروزیف کو ان کے منصب سے محض اس لیے اسکی پارلیمنٹ نے چھ ماہ کے لیے
معطل کردیا کہ اس نے 2014 کے بجٹ خسارے کو چھپانے کے لیے سرکاری اکاؤنٹس
میں ہیرا پھیری کی …… برازیلین صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنے نام کو صاف کرنے
کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی۔
جناب وزیر اعظم پاکستان جو کچھ اوپر مذکور ممالک میں ہوا ہے کیا ایسا ہمارے
ملک میں ہونا ممکن ہے…… نہیں یقیننا نہیں ہو سکتا نہ سپیکر وزیر اعظم کو
ہاؤس سے باہر نکالنے کا سوچ سکتا ہے اور نہ وزیر اعظم اپنے خلاف مواخذے کی
تحریک کو کامیاب ہونے دیتااس لیے پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے
نام پر سرکس چل رہا ہے جس میں مداری ( مزاری،زرداری شریف۔دریشک، لغاری
ٹوانے، میاں ،) اپنے ذاتی کاروبار اور مفادات کے فروغ کے لیے عوام کے ووٹ
بٹورنے کے لیے وقتی طور پر انہیں خوش کرنے کے لیے کرتب دکھاتے ہیں جمہوریت
وہ ہے جو آئس لینڈ میں ہوا، جو نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے سپیکر نے
کردکھایا، اور جو برازیلین پارلیمنٹ نے کام کیا۔ |