مسئلہ کشمیر عالمی عدالت انصاف میں۔۔۔۔2

عالمی عدالت انصاف کا مسلہ کشمیرکے حل میں کردار ہو سکتا ہے۔عالمی آئین و قانون کے ماہرین عدالتی jurisdiction یاحدوداختیاراور اقدامات کے بارے میں تجاویز دے سکتے ہیں۔کوسوو کا کیس عالمی عدالت میں گیا۔ اس کی امریکہ نے حمایت کی۔ کوسوو کیس کا باریک بینی سے مطالعہ کرے کی ضرورت ہے۔ یہ جمہوریہ کوسوو اور سربیا کے درمیا تنازعہ تھا۔ 2008میں کوسو واسمبلی نے آزادی کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ نے سربیا کی درخواست پر اس کیس کو عالمی عدالت میں ایڈوائس کے لئے ریفر کیا۔ جس پر فیصلہ کوسوو کے حق میں آیا۔ کیوں کہ یہ اعلان آزادی کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہ تھا۔سربیا اس اعلان کو غیر قانونی قرار دلانے میں ناکام ہو گیا۔ کیوں کہ یہ کوسوو کے منتخب نمائندوں کا فیصلہ تھا۔ کشمیر میں بھی پی ڈی پی سیلف گورنمنٹ کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ مگر انھوں نے بھارت کو بی جے پی کی مدد سے براہ راست کشمیر پر حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔کوسوو نے عالمی عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ سربیا نے کوسوو کے عوام کے انسانی حقوق پامال کردیئے ہیں۔ اس لئے اسے ان پر حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ دوم یہ کہ کوسوو کے عوام سربیا سے آزادی چاہتے ہیں اور اس کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کوسوو جیسا موقف اختیار کرنے کی روادار نہیں ہو سکتی۔ جبکہ بھارت نے کشمیریوں کے انسانی حقوق ہی پامال نہیں کئے بلکہ بھارتی فوج امن و امان قائم کرنے کے بجائے کشمیری عوام کے خلاف جنگ کر رہی ہے اور سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارت کے سینئر قانون دان کی بھارت کو مسلہ اس ادارے میں لے جانے کی تجویز اور اسے چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے مسترد کیا جانا انتہائی اہم ہے۔ کیوں کہ چیف جسٹس ٹھاکر نے صاف کہا کہ صرف محبت سے کشمیر کو بھارت کے ساتھ جوڑے رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا یک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت کسی آئین و قانون یا کسی بھی آپشن کے استعمال سے کشمیر کو بھارت سے جوڑے نہیں رکھ سکتا۔اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگر عالمی عدالت سے رجوع کیا گیا تو فیصلہ کم ازکم بھارت کے حق میں نہیں ہو سکتا۔

اس آپشن پر غور کیا جا سکتا ہے کہ آیا عالمی عدالت انصاف سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل در آمد کرانے کی پوزیشن میں ہے ۔ عالمی عدالت انصاف کا منڈیٹ کیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو نیو یارک میں قائم نہیں بلکہ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں کام کر رہا ہے۔ یہ عدالت انٹرنیشنل قوانین کی روشنی میں ان لیگل تنازعات کا فیصلہ کرتی ہے جو متحارب ممالک کی جانب سے اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی جانب سے لیگل ایڈوائس کے لئے ریفر ہونے والے سوالات کا جواب بھی یہی عدالت تلاش کرتی ہے۔ یہ عدالت 15جج صاحبان پر مشتمل ہے۔ جنھیں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل 9سال کے لئے منتخب کرتی ہے۔ اس کا انتظام رجسٹری آفس چلاتا ہے۔ تسلسل قائم رکھنے کے لئے عدالت کے ایک تہائی ججز ہر تین سال بعد منتخب کئے جاتے ہیں۔ ججز کے انتخابات نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں منعقد ہوتے ہیں۔ کورٹ کے ان پندرہ ججوں میں سے ہی خفیہ بیلٹ کے زریعہ تین سال کے لئے صدر اور نائب صدر منتخب کئے جاتے ہیں۔ اس وقت عالمی عدالت کے صدر فرانس کے رونی ابراہام ہیں۔جو دو بار اس عدالت کے جج منتخب ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے اس کے صدر ہیں۔ان کا آبائی ملک مصر ہے۔ جبکہ وہ اسکندریہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ نائب صدارت صومالیہ کے عبد القاوی احمد یوسف کے پاس ہے۔ اس کے دیگر13ججز کا تعلق جاپان، سلواکیہ، مراکش، برازیل، برطانیہ، چین، امریکہ، اٹلی ، یوگنڈا، جامیکا، آسٹریلیا، روس اور بھارت سے ہے۔رجسٹرار فلپ کوویریئربلجئم کے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے بھارتی جج دلویر بھنڈاری بھی اس تقریب میں مہمان خصوصی تھے جو دہلی میں کشمیر کے حوالے سے کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی۔ عالمی عدالت کے یہ جج بیس سال تک بھارت میں جج رہے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بھی سینئر جج کے طور خدمات پیش کی ہیں۔ انٹرنیشنل لاء ایسو سی ایشن کی بھارت کی طرف سے نمائیندہ اور بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ مسلہ کشمیر عمر میں ان سے دو ماہ بڑا ہے ۔ان کی پیدائش اکتوبر1947کی ہے۔ کتاب کے سینئر وکیل مصنف نے کشمیر کو عالمی عدالت میں پیش کرنے کی تجویز دی ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے عالمی عدالت انصاف کے بھارتی جج سے بھی مشاورت کی ہو۔ وہ 2021تک اس عدالت کے جج رہیں گے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے مسلہ کشمیر کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کی بات جس تناظر میں بھی کی ہے۔ اس پر غور ہونا چاہیئے۔ اقوام متحدہ میں امن و سلامتی کے زیر عنوان منعقدہ ایک مباحثہ میں خطاب کے دوران ڈاکٹر لودھی نے سوال کیا کہ سلامتی کونسل قانونی تنازعات کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے سے کیوں گریز کر رہی ہے۔ انھوں نے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی منطق یہ ہے کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل در آمد نہ کرنے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔ سلامتی کونسل کسی تنازعہ میں فریق بن سکتی ہے یا نہیں اس بارے میں قانونی ماہرین ہی درست رائے دے سکتے ہیں۔ تا ہم پاکستان اس عدالت سے رجوع کرنے پر سنجیدگی سے غور کر سکتا ہے۔

اس عدالت میں پاکستان کے خلاف ایک کیس زیر التوا ہے۔ جو مارشل آئی لینڈز کی جانب سے پاکستان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ یہ درخواستیں برطانیہ، پاکستان، بھارت کے خلاف جوہری اسلحہ کی دوڑ کے خاتمہ سے متعلق ہے۔ ایک درخواست پاکستان نے بھارت کے خلاف 1999 کو دی ہوئی ہے۔ جب بھارت نے کسی وارننگ کے بغیر پاکستان کی حدود میں پرواز کرنے والے پاک بحریہ کے جہاز کو میزئل مار کر تباہ کر دیا جس میں بحریہ کے زیر تربیت 16اہلکار شہید ہو گئے۔ عالمی عدالت نے اس درخواست پر 17سال گزرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ پاکستان نے اس سے قبل ایک اور درخواست1973 کو بنگلہ دیش میں 92ہزار جنگی قیدیوں کے سلسلے میں بھارت کے خلاف دی۔ ایک درخواست پاکستان نے بھارت کے خلاف انٹرنیشنل شہری ہوا بازی کے حدود کے متعلق 1971کو دی ۔

مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کے لئے پاکستان اور آزاد کشمیر حکومتیں ہی نہیں بلکہ چین بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی وجہ سے وہ جرائتمندانہ موقف رکھتا ہے۔ وہ کشمیر کو متنازعہ مسلہ سمجھتا ہے۔ جسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جس سکتا ہے۔ یہ حل جموں کشمیر میں شفاف رائے شماری ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کی قرارادوں پرعمل درآمد سے انکار کر رہا ہے۔ اس لئے اس کے خلاف عالمی عدالت میں کیس درج کیا جا سکتا ہے۔پاکستانی سر ظفراﷲ خان عالمی عدالت انصاف کے صدر اور نائب صدر رہ چکے ہیں، پاکستان بھی سلامتی کونسل کا کئی بار رکن بن چکا ہے۔مگر تب غفلت ارباب اختیار نے اس جانب توجہ نہ دی۔ کئی مواقع گنوا دیئے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی سلامتی کونسل کو مسلہ کشمیر عالمی عدالت انصاف کو ریفر کرانے میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔ تا ہم عالمی عدالت انصاف جانے سے پہلے زبردست تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل قوانین کے ماہرین، عالمی عدالت کے ساتھ کام کرنے والے سینئر قانون دان ، انٹرنیشنل لاء یونیورسٹیوں کے پروفیسرز بہتر اور معقول آراء دے سکتے ہیں۔ عالمی عدالت سے رجوع کرنے سے فوری طور یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ مسلہ کم از کم انٹرنیشنلائز ہو جائے گا۔ سلامتی کونسل کی جانب سے کیس عدالت ریفر کرنے میں چین کی خدمات غیر معمولی ہوں گی۔کوسوو کی بھی نصف دنیا نے مخالفت کی تھی ۔ مگر فیصلہ اسی کے حق میں آ گیا۔ آزاد کشمیر اسمبلی اگر مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حقیقی نمائیندگی کا دعویٰ کرے تو مثبت ابتداء ہو سکتی ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555030 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More