آف شور کمپنیوں کولے کر پاکستان میں خوب سیاست بازار گرم
ہے ۔پہلی قسط میں تیسری مرتبہ منتخب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے بیٹوں
کے پانامہ لیکس میں نام آنے پر اپوزیشن اورعمران خان نے خوب ہلا گلا مچایا
ہوا تھا ۔ دوسری قسط میں عمران خان کا نام بھی نکل آیا گویا کہ مسلم لیگ ن
کی لاٹری نکل پڑی ۔میاں صاحب کے تو پھر بیٹوں کے نام آئے تھے یہاں تو پی۔ٹی
۔آئی ون مین شو کا نام ہی نکل آیا ۔ اسی لئے خواجہ آصف کو کہنے کا موقع مل
گیا کہ کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیا ہوتی ہے ۔عمران خان یہ کہہ کر دامن نہیں
بچاسکتے کہ انہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لئے آف شورکمپنی بنائی تھی اور جب
فلیٹ بک گیا تو بنی گالا میں فارم ہاؤس بنالیا ۔ ویسے سنا تو یہ بھی ہے کہ
خان صاحب بنی گالہ کے فارم ہاؤس کو گفٹ کہتے رہے ہیں ۔آف شورکمپنیوں کے
خلاف سب سے بلند آواز خان کی تھی اور اب جب اس کی اپنی آف شورکمپنی نکل آئی
ہے تو اب تاویلیں اور وضاحتیں بالکل بھی نہیں چل سکتیں۔ سیاست میں بھول چوک
کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔مخالف پارٹی ایک ایک چیز پر نظر رکھتی ہے اور
جوش جذبات میں کہہ گئے الفاظ کبھی کبھی شرمندگی کا باعث بھی بن جاتے ہیں ۔دیانت
داری اور صاف گوئی کا رونا رونے والے عمران خان کا اپنا حساب کتاب صاف
ہوناچاہیے تھا اورنظامی شہیدؒ کی پھانسی پر بھی پی ٹی آئی کی طرف سے سکوت
اس کے مداحوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہاہے ۔نظامی شہیدؒ کو پاکستان سے
محبت کی سزا دی گئی ہے جس پر ہرپاکستانی غم وغصے کا اظہار کررہاہے لیکن ایک
سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے کم ازکم مذمتی بیان تو دے ہی سکتے تھے
لیکن لگتا ہے موصوف کے مشیر ووزیر اس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ پاکستان کی
خاطر قربان ہواجائے ۔سوشل میڈیا پر انصافیوں کی اب وہی درگت ن لیگی بنارہے
ہیں جو پانامہ لیکس کی دوسری قسط سے پہلے ن لیگیوں کی بن رہی تھی۔بدلتاہے
رنگ آسماں کیسے کیسے ۔سیاست دان پانامہ لیکس پر خوب سیاست کررہے ہیں ۔وزیراعظم
کو اب ایک خود مختار ،آزاد اور بااختیار جوڈیشل کمیشن بنانے میں بالکل بھی
گھبرانا چاہیئے اور نہ تاخیری حربوں سے یہ تاثردینا چاہیے کہ حکمران احتساب
سے ڈرتے ہیں اورمخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کراپنے معاملات چھپانے پرمصر ہے۔
قدرت نے اس وقت پانامہ لیکس کی صور ت میں پاکستان کو ایک نادر موقع فراہم
کیاہے کہ وہ بلاامتیاز وبلاتفریق احتساب کرسکے۔اگرپانامہ پیپرزکی وجہ سے
قوم کی ان پیران تسمہ پا سے جان چھوٹ جاتی ہے جنہیں سوائے قومی وسائل
لوٹنے،بیرون ملک اثاثے بنانے اور آپس میں لڑنے بھرنے کے سواکوئی کام نہیں ۔احتساب
کی زد میں چاہے شریف خاندان آئے ،زرداری خاندان ،چودھری خاندان،ولی خاندان
یاعمران خان ،جہانگیرترین یاپھر علیم خان ہو ۔ ان سب کا احتساب یقیناصاف
شفاف ہوناچاہیے ۔لیکن اب یہ سب بلکہ کچھ بھی نہیں ہوسکتاکیونکہ دونوں اطراف
میں داغ نکل آیاہے ادھر اگر ن لیگ کے فرزندان کے نام ہیں تو ادھر انصافین
کے سربراہ کا نام ہے ۔اب کہیں گمنامی میں بیٹھ کر مک مکا ہوگا اور کھیلواور
کھیلنے دوکی سیسات جاری رہے گی۔وزیر اعظم کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ کو لکھے گے
خط کامسترد ہوجانا کوئی عجوبے کی بات نہیں بلکہ ایساہونا ہی تھا کیونکہ
اپوزیشن پارٹی اس کو پہلے ہی مسترد کرچکی تھی ۔اب حکومت اپوزیشن کو اعتماد
میں لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دے گی جس میں مشترکہs TORلائے جائیں گے لیکن
مجھے یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی کیونکہ اس کا بھی سوئس بینکوں والا
حال ہی ہوگا ۔ عوام کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔یہاں توسابق
سیکرٹری خزانہ کے گھر سے 63کروڑ روپے سے زائد برآمدہوتے ہیں ،شرجیل میمن کے
گھر سے تہہ خانے سے دگنی دولت برآمدہوتی ہے اوراگر پنجاب میں کاروائیاں ہوں
تواس سے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئیں۔ایک اسپورٹس فیسٹول یا کسی ایل ڈی اے
سٹی کی شفاف تحقیقات ہوں تو عوام کو دن میں تارے نظر آجائیں ۔مگر حیلوں
بہانوں اور مختلف طریقوں سے سیاست دان اور بیوروکریٹس اوردیگر کرپٹ لوگ
تحقیقات کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں ۔جہاں کھیت سے 20 روپے کادھنیاتوڑنے
کی وجہ سے ایک غریب کو سال بھر جیل کی ہوا کھانی پڑے اور اس کی ضمانت بھی
نہ ہوسکے وہاں مگرمچھ کہاں قابو میں آئیں گے ۔ایسے ظالم نظام حکومت میں
انصاف ملنا ریاست پاکستان کوملنا ناممکن سی بات نظر آتی ہے ۔ |