وطن عزیز کو توڑنے کی سازش

گذشتہ دنوں تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے میں کاسا منصوبے کا افتتاح ہوا۔ جس کے تحت پاکستان تاجکستان سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی خریدے گا۔ جب کہ تین سو میگا واٹ بجلی افغانستان کو بھی ملے گی۔ افتتاحی تقریب میں پاکستان، تاجکستان، افغانستان اور کرغزستان کے سر براہان نے شرکت کی۔

قارئین کرام! وطن عزیز کے آزادی سے لے کر موجودہ دور تک اگر نظر دوڑائے تو یقینا یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ابتدائی دور میں وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی مسائل کم تھے۔ کوئی بھی ادارہ نقصان میں نہیں جارہا تھا۔ وطن عزیز کے نظام کو چلانے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار نہیں تھا۔ پاکستان نے خود کئی ملکوں کو قرضے فراہم کی ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز سیاسی خلفشار کا شکار رہا۔ انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کرکے چند ماہ بعد اسمبلیاں تھوڑ دی جاتی۔ بعض ملک دشمن عناصر ملک کو لوٹ کر پیسہ باہر ممالک میں لے گئے۔

روز اول سے ملک کو بھارت سے خطرہ تھا۔ دشمن کے مقابل میں چھوٹا ملک ہونے کے ناطے دفاعی بجٹ پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا ناگزیر تھا۔ 1948 اور 1965 کے جنگوں سے دشمن کا مکروہ چہرہ اور مزموم عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ مختلف طریقوں سے وہ ملک کو نقصان پہنچانے اور تھوڑنے کے کوششوں میں مصروف عمل رہے۔ ملک کے اندر منافرت اور سیاسی انتشار پھیلاکر 1971 میں وطن عزیز کا ایک ٹکڑا الگ کر دیا۔ تاہم یہاں پر بس نہیں ہوا۔ وہ باقی حصے کو اپنا غلام بنانے کا خواب دیکھنے لگے۔ کبھی کشمیر میں دراندازی ، کبھی لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ اور کبھی اپنے ایجنسیوں کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانا ان کا مشغلہ بن گیا۔

جب 1999 میں پاکستان ایک اسلامی ایٹمی قوت بن کر ابھر آیا تو ازدلی دشمن سمیت دوسرے چھپے دشمن بھی سامنے آنے لگے۔ اسرائیل اورامریکہ سمیت مغربی دنیا نے پاکستان پر پابندیاں لگائی۔ ہر طرح کا معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کیا۔ ملکی معیشت کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوششیں کی گئی۔وطن عزیز کے اندر تحریکیں چلائی گئیں۔ ملک تھوڑنے کے لیے طرح طرح کے حربے ازمائے گئے۔ کبھی BLF کے ذریعے آزاد بلوچستان کی ڈیمانڈ کی۔ تو کبھی مہاجر صوبہ کو بنانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ کبھی آزاد کشمیر کے سول آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ تو کبھی کھلے عام دہشت گردی سے وطن عزیز کے امن کو متاثر کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے متعدد افراد گرافتار کیے جا چکے ہیں۔ جب کہ امریکی در اندازی بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ کبھی شکیل آفریدی جیسے ایجنٹوں کو اٹھ کھڑا کیا تو کبھی براہ راست ملک کے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم شہریوں کو لقمہ اجل بنایا گیا۔
کشمیر کا مسئلہ جب بنا تو اقوام متحدہ نے اسے کشمیری عوام کے رائے کے مطابق حل کرانے کا حکم دیا۔ افسوس کی بات ہے کہ آج 70 سال بعد بھی وہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے کے بعد ایک نیا ایشو بن گیا ہے۔ بیسویں صدی کے ورلڈ میپس میں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ دکھا جا تا تھا۔ ایکسویں صدی کے آغاز کے بعد کچھ ایسے نقشے شائع ہو گئے جن میں پاکستان کا وجود ہی نہیں تھا۔ بعض نقشوں میں پاکستان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جبکہ عام نقشوں میں مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن اب یہ بھی دعوی کرنے لگا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ یوں گلگت بلتستان بھی بھارت کا حصہ ہے۔

پچھلے دنوں دوشنبے میں ہونے والے افتتاحی منصوبے کے فو ٹیج کو اگر دیکھا جائے تو بیک گراونڈ میں ایک نقشہ نظر آرہا ہے۔ اس نقشے میں گلگت بلتستان سمیت کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ جس کو باقاعدہ اخبارات کی زینت بھی بنایا گیا اور میڈیا پر بھی دکھا یا گیا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اپنی ٹیم سمیت شائد اس پر توجہ نہیں دی۔ یہ ملکی سلامتی اور خودمختاری پرایک کاری ضرب ہے۔ حکومت پاکستان، پاک آرمی اور سلامتی کونسل میں پاکستانی ممبر سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس بات کا سختی سے نوٹس لے کر یہ مسئلہ عالمی عدالت میں اٹھائے۔ بین الاقوامی نقشوں میں پاکستان کے حدود کو واضح کرکے وطن عزیز کی سالمیت کی حفاظت کریں اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کے سازشوں کو بے نقاب کریں۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83164 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.