اردوگان اور راتب خور

راتب خور دانش ور کس قدر ذلت آمیز حقارت پر اتر آئے ہیں ۔ انہیں امت کے اندر کسی بھی جاندار آواز سے نفرت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ ہجوم مومناں یوں ہی ایک ایک کر کے چوہوں کی طرح مار ڈالا جائے۔ انڈونیشیا سے مراکش تک ایک بھی ایسا نہیں جو اٹھے اور اس لٹتی پٹتی امت کی ناؤ کو کنارے کی طرف لے جائے، سوائے طیب اردوگان کے ، اور طیب اردوگان کی جرات پر بزدل مفاد پرست ہی احتجاج کر سکتے ہیں ۔ جناب مطیع الرحمن کی شہادت پر حسب معمول طیب اردوگان کا رد عمل آیا تو پوری مسلم دنیا کے ساتھ غیرت مند لوگوں نے اس کی تحسین کی ۔ تقریباً آٹھ کروڑ آبادی والے ملک کے حکمران کے اس رد عمل پر وہاں کے کسی ایک فرد نے بھی یہ نہیں کہا کہ صدر ترکی ایک بنگلہ دیشی’’ بوڑھے‘‘ کی پھانسی پر اس قدر برہم کیوں ہوا ہے ۔ اس کے برعکس وہاں لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر بنگلہ حکومت سے احتجاج کیا ہے۔ رہا مسئلہ ہمارے ہاں ایک آدھ دانشور کا تو اس پر ہمیں حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ اصل میں حمیت و غیرت تیمور کے گھر کی لونڈی ہے ۔ نشے میں دھت فلسفے بھگارنا ، ہر معاملے میں انوکھی بات کرنا اور وقت آنے پر ’’ دستور پاکستان ‘‘ تخلیق کرنا ایسے ہی لوگوں کا شیوہ ہے ان کی نمک حلالی ہے ۔

حرام خوری کے نتیجے میں جنم لینے والی یہ بیماری لمحہ بہ لمحہ زور پکڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی شفاف اورسیدھی منزل کو بھی الجھا کر پیش کیا جاتا ہے اور شہر آشوب میں سر کے بل کھڑے ہو کر دیکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ یہ دانش ور چاہتے ہیں کہ امت یوں ہی بھیڑوں کی طرح ماری جاتی رہے اور ان کے اندر سے کوئی بھی ایسا شخص نہ اٹھے جو ان جیسے ملت فروشوں کے لیے سد راہ بن جائے۔طیب اردوگان کی شکل میں اﷲ نے مسلم امہ کو ایک ایسا رہنما دیا ہے جوجرات ، حکمت اور ہمت کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے ۔

یہ امت ماضی میں جن مصائب کا شکار رہی‘ بالخصوص ڈیڑھ دہائی سے جس نحوست اور نکبت میں مبتلا ہے ‘ یہ کسی اتفاقی حادثے یا وقتی ہنگامے کا نتیجہ نہیں ‘ بلکہ اس کے انہی ’’خواص‘‘ کی مسلسل بد اعمالیوں کا شاخسانہ ہے جن کی تعلیم وتربیت مغربی درس گاہوں میں ہوئی اور امت کو اس کے مقصد وحید سے دور رکھنا جن کا طرۂ امتیاز رہا ۔ یہ لوگ جو مادر پدر آزادی کے خوگر تھے ‘انہوں نے مسلم دنیا میں بھی ہر دینی پابندی سے عاری اورہر نظریاتی قید سے آزاد نظام ’’ متعارف‘‘کرایا ۔آج بھی یہی طبقہ اس امت کے سیاہ وسفید پر مسلط ہے اور وہی نظام چلانے پر مصر ہے کہ اس کے غیر ملکی آقاؤں کو جوپسند ہے ۔پورا معاشرہ ان کی گمراہی اور لوٹ کھسوٹ سے متنفر ہے اور ان سے خلاصی چاہتا ہے ‘ لیکن تمام داخلی اور خارجی شیطانی قوتیں ان کی پشت پر ہیں ۔غلامی پر فخر کرنے والے یہ لوگ اﷲ کے احکام کے کھلے باغی ہیں‘ یہ اﷲتعالیٰ سے بغاوت کی سزا ہے کہ آج یہ گروہ غیر ملکی طاغوتی طاقتوں کا حقیر غلام بن کر رہ گیا ہے اور اپنے ساتھ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو بھی غلام بنا ڈالنا چاہتا ہے ۔

برسوں سے پاکستان میں بھی مغرب کے یہی سیکولراور اسلام گریز غلام مالک بنے رہے ہیں ‘ جنہوں نے حقیر مفادات کی خاطر اس عظیم ملک کو دو لخت کیا ‘ اس میں کرپشن ‘ فحاشی اور عریانی پھیلائی ‘ اس کو لوٹ مار سے معاشی بد حالی سے دو چار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسی عظیم اسلامی مملکت ‘جوہری طاقت ہونے کے باوجوداغیار کی خوشہ چینی پر مجبور ہے ۔غیر ملکی آقاؤں کو آمرانہ حکومتیں راس آتی ہیں کیونکہ پاکستان کی فضا میں آمریت کاشجر خبیثہ خوب برگ و بار لاتا رہا ۔دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والا امریکہ آج بھی پاکستان میں اکثر شخصی حکومت پر بہت مطمئن رہا۔ریاست مدینہ کے بعد پاکستان دوسراملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔کلمہ طیبہ پر اس کی بنیاد رکھی گئی ‘اسی پاک مقصد کے لیے لاکھوں انسانوں نے جان و مال کی قربانی پیش کی ۔بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ کے بقول وہ ایک ایسا خطہ ارضی حاصل کرنا چاہتے تھے ‘جہاں اسلام کے نظام کو آزمایا جاسکے ۔ پاکستان نہ صرف بر صغیر بلکہ پوری کائنات کے مسلمانوں کا مشترکہ خواب تھا۔ احیائے اسلام کے جذبے کے تحت پاکستان کا قائم ہونا اسلام دشمن طاقتوں کو سخت ناگوار تھا ۔آج تک عالمی طاغوت کی آنکھوں میں یہ خار بن کر کھٹک رہا ہے ۔اسلام اور پاکستان سے عالم کفر کی نفرت کا سبب اس کا نعرہ ’’ پاکستان کا مطلب کیا …… لاالہ الا اﷲ ‘‘ بھی ہے ۔اسلام نے قومیت کی جو اساس دی ہے‘یعنی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہیں ‘برتری کا معیار تقویٰ ہے ‘ نہ کہ رنگ ونسل اور حسب ونسب ۔مغرب کو اسی اصول سے نفرت ہے ‘اس لیے کہ یہ اصول مادہ پرست مغربی سیکولرازم کی بنیاد ہی ڈھا دیتا ہے۔پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اسلام دشمن دنیا اور دانش ور اس خطرے میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اگراس ملک کو اپنی حقیقی اساس پر اٹھنے اوراور فطری رفتار سے بڑھنے کی اجازت دے دی گئی تو یہ ساری دنیاکے لیے امن و انصاف کا قابل تقلید نمونہ بن جائے گا۔ایسا ہو گیا تو حقیقی امن و انصاف اور مساوات کا یہ نظام ساری دنیا کو اپنی طرف مائل کرلے گا ‘ پھر مغربی سرمایہ داری اور اشتراکیت کو ان کے اپنے ملکوں میں پناہ نہیں ملے گی ۔عالمی طاغوت نے اسلام کو ہی پیغام اجل جانا ۔دنیا بھر میں امن وانصاف اور محبت و آشتی کے لیے ترسے ہو ئے لوگ اس نظام رحمت پر مبنی ماڈل کو اپنا لیتے تو مغرب کا خود غرض اور مفاد پرست نظام لندن اور واشنگٹن میں بھی اجنبی ہو کر رہ جاتا ۔ابلیس کے چیلوں نے اس خطرے کو بروقت بھانپ لیا چنانچہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی یہاں زبان ‘رنگ و نسل اور صوبائی عصبیتوں کے بیج بوئے گئے اورباشندگان مملکت کے درمیان قبائلی اور صوبائی تعصبات پھیلانے کی سازشیں کی گئیں اور اپنے پیٹ کی ’’ فکر ‘‘ کا سبق پڑھایاگیا ۔اس مقصد کے لیے آزادی کے بعد اقتدار منتقل کرتے وقت اس بات کاخصوصی التزام کیا گیاکہ انگریز کے تربیت یافتہ غلام ، ایجنٹ اور شاگرد ہی اور نفس ناطقہ حکومت کے ایوانوں تک پہنچیں۔
آج پاکستان کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں کسی جابر طاقت کی طرف سے اپنے وجود ‘ آزادی اور ایٹمی صلاحیت کے لیے خطرناک چیلنج درپیش ہے یا بھارت جیسے دشمن کی جارحیت کا سامنا ہے ‘ بلکہ ہماری اصل مصیبت یہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سیکولر اوراسلام دشمنوں نے پاکستان کو اس کی حقیقی منزل تک پہنچنے سے روک رکھا ہے ۔پاکستان پر میں سیکولر اور اسلام بیزار اس کام میں پیش پیش ہیں ‘ جن کو باہر سے ہدایات دی جاتی ہیں اور خاص طو رپر تاکید کی جاتی ہے کہ اسلام کے نظام کو کسی قیمت پر نافذ نہ ہونے دینا ۔ حالانکہ عدل وانصاف اور جمہوریت کے ہر اصول کی روسے پاکستان میں اسلامی نظام حیات کا نفاذ ناگزیر ہے ۔یہ اس ملک کے جمہور کے دلوں کی آواز ہے ۔ دنیا بھر میں جمہوریت کاڈھنڈورا پیٹنے والے پاکستان میں اسلام کے خلاف ہر غیر جمہوری اور جابرانہ ہتھکنڈا استعمال کرنا درست سمجھتے ہیں ۔ راتب خور دانش فروش کہتا ہے جو میں سوچتاہوں وہی برحق ہے اور جو کرتا ہوں وہی درست ہے ۔میرے خلاف سوچنے والے گمراہ اور غلط ہیں۔لہٰذا سارے ممالک کو بلاچون و چرا میری اطاعت کر نی چاہیے ۔

حق کا ساتھ دینے والے رہنماؤں اور حکمرانوں کو خوف دلایا جاتا ہے ’’وہ ‘‘تمہیں کھا جائے گا ، فلاں تمہیں نگل جائے گا ۔ تم اپنی چمڑی بچانے کی کوشش کرو، باقی مسلمانوں کے ٹھیکے دار نہ بنو ۔ عالم اسلام کے حکمرانوں کو چوہا بن جانے کا سبق دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے حکمران بھی اسی خوف کا شکار رہتے ہیں ۔ان ’’دانش وروں ‘‘ کو ہر حکمران نئے سرے سے تازہ کرتا اور نیا تیل لگا کر زیر استعمال لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس قوم کو مشکل کے وقت ’’ لیٹ ‘‘ جانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اگر کوئی ہمت اور جرات کی بات کرتا ہے تو اسے ’’ ماما گیری ‘‘ کا خطاب دے کر رگیدا جاتا ہے ۔کہیں سے بھی مسلم دنیا کے حق میں آواز اٹھتی ہے تو یہ چلے ہوئے کارتوس پھر سے پُھس پُھس کرنے لگتے ہیں ۔ یہ دانش ور سرشام سرخی پاؤڈر لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس قوم کو اسی کے سائے سے ڈرانے لگتے ہیں ۔اگر کہیں سے بھی حمیت و ہمت کی آواز بلند ہوتی ہے تو ان کے پیٹ پر براہ راست لات پڑتی ہے ۔ بس کرو! اب بس اے ظلمت کے تاجرو!اس صبح کو پھوٹنے دو جو اس قوم کا مقدر ہے جو مسلمان کے لیے مختص ہے۔رجب طیب اردوگان گزشتہ پندرہ برس سے ترکی کے حکمران ہیں انہوں نے کسی بھی مرحلے پر اسلامی غیرت و حمیت کا سودا نہیں کیا ۔ اسے اگر کوئی کھا نہیں سکا تو تمہیں بھی موت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک اپنا لکھا کھا نہیں لیتے اور اپنا لکھا پہن نہیں لیتے……!! بس کرو اب تو بس ……!!
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.