جب سے پانامہ لیک کا معاملہ سامنے آیاہے تب
سے جس کو دیکھو وہ سسٹم کو بچانے کی فکر میں دبلا ہوا جارہا ہے دانشور ،صحافی
، بیوروکریٹ اور سب سے بڑھ کر سیاستدان جوکہ اس ’’سسٹم ‘‘ کے سب سے بڑے
فائدہ اٹھانے والے( بینی فشری) ہیں یہ اس سسٹم کو بچانے نکلے ہیں جس میں
تھر کے علاقے میں ہرسال ڈھائی سو سے زائد بچے بھوک اور کم خوراک ملنے سے مر
جاتے ہیں ،دوسری طرف گڑھی یاسین (ضلع شکارپور سندھ ) کے ایک زیر زمین مقام
پر کروڑوں ،اربوں روپے قومی خزانے سے لوٹ کر دفن کئے جاتے ہیں اور پھر وہ
جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ،یہ اس سسٹم کو بچانے کی بات کرتے ہیں جس میں
سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے ملک سے کا خزانہ لوٹ کر بنایا گیا ذاتی
خزانہ برآمد ہوتا ہے جس کو گن گن کر نیب کے کارندے تھک جاتے ہیں اور پھر
بینک لاکھوں ڈالر سمیت ایک آوارہ فحاشہ عورت پکڑی جاتی ہے اور میڈیا پر
روزانہ اس کی کوریج کی جاتی ہے اور بالآخر وہ ہمارے کمزور سسٹم کو مات دے
کر عدالت سے چھوٹ جاتی ہے رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے کے باجود اور ستم بالائے
ستم یہ کہ اس کو گرفتار کرنے والا کسٹم افسر قتل کردیا جاتا ہے اور آج تک
یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کو کس نے قتل کیا تھا ،یہ اس سسٹم کو بچانے کی
بات کرتے ہیں جس میں تھانے میں غریب اور شریف لوگوں کو بے عزت کیا جاتا ہے
اور پیشہ ور مجرموں کو تھانوں میں وی آئی پی پروٹول دیا جاتا ہے ،تھانے
فروخت ہوتے ہیں پولیس کی نوکری، ٹرانسفر پوسٹنگ ،ترقی سب کی سب فروخت ہوتی
ہیں۔منشیات فروشی، جسم فروشی ، جوئے، شراب کے اڈے جن کی سرکوبی پولیس کا
کام ہے وہی پولیس کے افسران اور تھانیدار ان کی منشیات فروشی، جسم فروشی ،
جوئے، شراب کے اڈوں کی سرپرستی کرتے ہیں ،بلکہ کچھ تھانیدار اور پولیس
افسران تو باقاعدہ کچھ قحبہ خانو ں کے مالک ہیں اور ان کا پیشہ پولیس کی
نوکری نہیں بلکہ عورتوں کی دلالی ہے اور وہ بھی سرکاری وردی پہن کے یہ
ناپاک کام کرتے ہیں۔
میرٹ نام کی کوئی چیز ملک میں وجود نہیں رکھتی سیاسی بدمعاش اپنے پالتو
غنڈوں کو پولیس میں بھرتی کروا کر ان کی سرپرستی میں کھلے عام اپنے جرائم
کی دنیا میں ترقی کرتے چلے جارہے ہیں اور کرپشن لاکھوں سے بڑھ کر اب کروڑوں
اور اربوں تک پہنچ گئی ہے ،ایک سرکاری افسر کسی رئیس اور نواب کی سی زندگی
گز ارتا ہے اس کا ایک دن کا خرچہ اس کی ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتا ہے
،عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا لو گ کہتے ہیں کہ 10لاکھ کا وکیل کرنے سے
بہتر ہے کہ 5لاکھ کا جج کر لو او ر اس سے اپنی مرضی کا فیصلہ لے لو۔ اور اس
بات کا شکوہ کوئی عام آدمی نہیں کررہا بلکہ جانے والا چیف جسٹس سپریم کورٹ
جواد ایس خواجہ کہہ کر جاتا ہے کہ ’’ہم پاکستان کی عدالتوں سے انصاف فراہم
کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں‘‘اور موجودہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی برملا کئی
بار اپنے خطاب میں یہ باتیں کرچکے ہیں ہیں کہ ’’پاکستان میں ادارے دیوالیہ
ہوچکے ہیں‘‘ اور ’’ہر کام عدالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی کچھ کرنے کو تیار
نہیں ہے ،اگر حکومت اپنا کام خود کرے تو عدالتوں تک پہنچنے والے مقدمات 75%
تک کم ہو سکتے ہیں‘‘، ’’پاکستان میں گورننس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ
گئی ہے‘‘ ۔
اس سسٹم نے ملک کے دیہی ،پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں جو ظلم ڈھائے ہیں
وہ تو ایک طرف مگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی جنگل کا قانون ہے ،علاقہ
غیر کہلائے جانے والے قبائلی علاقوں میں بھی کوئی قانون کی عملداری ہوگی
مگر پچھلے کئی عشروں سے کراچی شہر میں جنگل کا نظام رائج تھا سوائے گزشتہ
ڈیڑھ دو سالوں کے جب سے کچھ حکومت نام کی چیز شہر میں نظر آرہی ہے اس میں
بھی اس سسٹم کا کوئی کمال نہیں ہے یہ تو ہماری فوج اور اس کے سپہ سالار کی
کرم نوازی ہے کہ اس شہر کے رہنے والوں کو زندہ رہنے کا حق ملنے کی امید
پیدا ہونے لگی ہے ،لیکن آج بھی کراچی میں سرگرم مجرم اور قاتل فوج اور اس
کا ذیلی ادارہ رینجرز کے جوانوں کے ذریعے روز پکڑرہا ہے اور میڈیا پر لاکر
ان کا تماشا دکھایا جاتا ہے مگر 100,100 قتل کرنے والے گرفتار تو ہوتے ہیں
مگر اس کے بعد چند دن میں ہی چھوٹ کر باہر آجاتے ہیں ہیں ہمارا معذور اور
اپاہج سسٹم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
، تاریخ عالم کے بدترین سانحہ ، بلدیہ فیکٹری کو آگ لگا کر 300 کے قریب
انسانوں کو زندہ جلانے والے کئی سال گزرنے کے بعد بھی اب تک قانون اور
ہماری ریاست کی پہنچ سے باہر ہیں اور وہ بھی کس لئے کہ اس فیکٹری کے مالکان
نے بھتہ دینے میں تاخیر کی اور پھر فیکٹری مالکوں کی غلطی اور کوتاہی کے
جرم کی سزا ملی کس کو ؟ اس فیکٹری میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کوجن اس
معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا وہ تو صرف اپنے بچوں کی روزی کمانے او ر
اپنے پیٹ کی آگ بجھانے چند سو کی دیہاڑی کمانے آئے تھے مگر پیٹ کی آگ تو
کیا بجھتی خود ہی اس سسٹم اور نااہل حکومتوں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں
کی مہربانی سے کسی اور کے بدلے کی آگ کا ایندھن بن گئے اور زندہ جل گئے
اتنا بڑا ظلم ہوگیا نہ آسمان ٹوٹ کر گرا اور نہ ہی زمین پھٹی ، نہ ہی ان
ظالموں کا کوئی حساب ہوا جنہوں نے اس ظلم عظیم کا ارتکاب کیا تھا، اگر کسی
مہذب ملک میں یہ درندگی کی گئی ہوتی تو سب سے پہلے وہاں کے صدر،وزیر اعظم
اور وزراء اپنے ذمہ داری ادا نہ کرنے اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں
فیل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہوتے اور پھر پوری ریاستی مشینری
،انٹیلی جنس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کو فوری حل
کرتے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں ان کے سہولت کاروں، ماسٹر مائنڈ اور
سب کو ایسی عبرتناک سزائیں فوری طو پر دی جاتیں مگر یہاں کیا ہوا کچھ بھی
نہیں شاید اﷲ بھی ہم سے ناراض ہے اﷲ نے جس نے ہماری رسی داز کی ہوئی ہے ۔
یہاں میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے مشہور قول سے اپنی بات کا اختتام کروں گا
کہ ’’کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں‘‘
اور پاکستان میں جو نظام رائج ہے وہ سراسر ظلم کا نظام ہے جس کو بچانے کی
کوشش کی جارہی ہے ۔
|