زرداری، نواز اور مشرف کو قوم
آزما چکی ہے ....مگر پھر بھی قوم مشرف کو ایک موقع اور دینا چاہتی ہے..
کہا جاتا ہے کہ زبان ایک ایسا ترازو ہے کہ جس کے پلڑے عقل مندی سے بھاری
اور نادانی سے ہلکے ہو جاتے ہیں اور اِسی طرح شیکسپئیر کا ایک قول ہے کہ جن
کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا وہ زیادہ بولتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے خالی
برتن زیادہ (ڈہنگتے)بجتے ہیں اور شائد ایسے ہی لوگوں کے لئے دنیا کے ہر
معاشرے میں یہ ازل سے ہی ہوتا چلا آیا ہے کہ کم عقل زیادہ بولتے ہیں اور
ایسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں کہ اِس کے بعد وہ گھاتے میں چلے جاتے ہیں اور
پھر پچھتاتے رہتے ہیں۔
اَب اِسی کو ہی لے لیجئے! کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو شہید
کی 57ویں سالگرہ کے موقع پر صدارتی ہاؤس نوڈیرو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے
رہنماؤں اور کارکنوں سے اپنے جوشیلے خطاب میں جن خیالات کا اظہار جس ہلکے
پھلکے انداز سے بے معنی الفاظ میں کیا ....کیا واقعی وہ الفاظ پاکستان جیسے
ملک کے کسی جمہوری اور انتہائی طاقتور ترین صدر کا خطاب کہیں سے لگتا تھا
....؟ اور کیا صدر کا یہ بے اثر اور بے معنی لفاظی سے بھرا خطاب کیا آئندہ
قوم کی زندگی میں کوئی مثبت انقلاب برپا کرسکے گا....؟ اور کیا واقعی اِس
خطاب سے قوم نے کوئی معنی اور مفہوم اخذ کیا ہوگا....؟جس خطاب کا چرچہ آج
ملک کے طول ُارض میں اِس کی حمایت سے کہیں زیادہ مخالفت اور تنقید ی نقطہ
نظر سے کئے جارہا ہے۔
معاف کیجئے گا محترم قارئین!اور آپ مجھے اِن سطور میں یہ بھی کہنے دیجئے کہ
کسی ایسے بے اثر اور بے معنی خطاب سے قوم کو نہ تو پہلے کوئی دلچسپی تھی
اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے.... جس سے ملک کا کوئی بھی سربراہ یہ سمجھے کہ
وہ اپنے کسی غیرمدبرانہ اور فہم و فراست سے عاری خطاب کے ذریعے قوم کو اپنا
گرویدہ بنالے گا....اور قوم اِس کے پیچھے پیچھے ہو لے گی ...تو وہ اِس کی
کم خیالی کے سوا اور کچھ نہیں ہے کوئی صدر اپنے عہدے کی لاج رکھے بغیر جب
اپنے خطاب میں ایسے ہلکے پھلکے الفاظ کہے جس طرح صدر آصف علی زرداری نے کہے
ہیں کہ” پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار سے ہٹانا آسان کام نہیں، پنجاب کے
ایک خاص طبقے کی سوچ مجھے پسند نہیں کرتی، فارمولا بنا لیا ہے ہاریں گے تو
بھی جیت ہماری ہوگی،”دستی“ اور ”جٹ“ پھر جیت گئے،) یہاں میرا خیال ہے کہ
اگر دستی، جٹ کی طرح کوئی مڈ بھی ہوتا تو وہ بھی جیت جاتا کیوں کہ جناب!
حکومت ہی آپ کی ہے جو جی چاہے کریں کون پوچھنے والا ہے.... اور وہ کہتے ہیں
کہ جو آپ سے پوچھے اُس سے اللہ ہی پوچھے ....) اعتراض کرنے والے اپنے گھر
میں بیٹھ کر اعتراض کریں، کارکن جعلی شیروں سے مت گھبرائیں، اقتدار سے ہٹا
تو ایسے جیالے چھوڑ جاؤنگا جو ہمیشہ مخالفین کو شکست دیتے رہیں گے ....
ہاں البتہ! اِن ساری بے وزن اور بے مقصد باتوں کے علاوہ صدر کا اِس موقع پر
صرف یہ کہنا حقائق پر مبنی ہے کہ ”پاکستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں، سیاسی
قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے، اور اِس کے ساتھ ساتھ صدر نے اپنے اِس خطاب
میں ہر بار کی طرح اِس مرتبہ بھی اپنے اِس عزم کو دُہرایا کہ ”ہم بےنظیر
بھٹو شہید کے قتل کا بدلہ نہیں لیں گے“ کیونکہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے
....یہاں اِن کے اِس جملے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں پی پی پی کے
رہنماؤں اور کارکنوں کو شدید ٹھیس پہنچی ہوگی تو وہیں مجھ جیسے ملک کے اُن
کروڑوں لوگوں کے دلوں کو بھی ایک زور دار دھچکا لگا ہے اور آج پوری
پاکستانی قوم یہ سوچ رہی ہے کہ جمہوریت آخر ایسا کونسا انتقام ہے .....؟کہ
جس پر صدر مملکت اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی پیاری ماں اور دنیا کی ایک
عظیم ہستی بےنظیر بھٹو شہید کے قاتلوں سے انتقام نہ لے کر اِس پر اپنا سب
کچھ قربان کر رہے ہیں اور آج قوم اِس خواب کو بھی اپنی آنکھوں میں سجائے
بیٹھی ہے کہ وہ شہید رانی محترمہ بےنظیر بھٹو کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکا
دیکھنا چاہتی ہے۔ تو پھر صدر مملکت آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کے قاتلوں
کو پھانسی دینے سے اپنا دامن کیوں بچا رہے ہیں ....؟اور اَب اگر یہ ملک کے
طاقتور ترین صدر ہوکر بھی شہید رانی متحرمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا
نہ دے سکے تو پھر کیا یہ اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد کسی قاتل کا کیا بگاڑ
سکیں گے....؟جب یہ اپنے اقتدار میں اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی ماں کے
قاتلوں کا کچھ نہیں کر رہے ہیں تو پھر یہ بعد میں کیا کریں گے.......؟
مگر اِدھر ایک ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری ہیں کہ یہ خدا جانے کیوں
بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں سے بدلہ نہ لینے کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں.....؟
جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر مملکت اپنا عہدہ صدرات سنبھالتے ہی جو
کام سب سے پہلے کرتے وہ محترمہ شہید کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم
نامہ صادر فرماتے تو پھر اِن کی فہم و فراست کا امتحان مکمل ہوتا....مگر وہ
ایسا آج تک نہ کرسکے۔ جس سے عوام اِن کے اِس سرد روئے کی وجہ سے مایوسی
ہوئی ہے۔
جبکہ گزشتہ دنوں فرینڈلی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز
شریف نے رائے ونڈ میں اپنے پارٹی اجلاس میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے
اِسی خطاب کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اِس حقیقت کو بھی ساری دنیا
کے سامنے عیاں کردیا کہ عوام صدر زرداری کی صدارتی ہاؤس نو ڈیرو کی تقریر
کا لب ولہجہ سمجھ نہیں پائے اور نہ اُن کا انداز سربراہ مملکت کے شایانِ
شان تھا اور اِسی طرح یہاں میرا اور ساری پاکستانی قوم کا بھی یہی خیال ہے
کہ واقعی یہ حقیقت ہے کہ صدر مملکت کا یہ خطاب اپنے اثر سے خالی تھا اور جس
کا لب ولہجہ بھی عوام نہیں سمجھ پائے ہیں کیونکہ اِس میں بھی کوئی شک نہیں
کہ اِن کا خطاب اِن کے نہ تو شایانِ شان ہی تھا اور نہ ہی عوامی توقعات کے
مطابق تھا اور سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ رہی کہ صدر نے اِس موقع پر
تکبرانہ زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ کو پیپلز پارٹی کو اقتدار سے نہیں
ہٹا سکتا جس سے عوام حیرت زدہ رہ گئے کہ آخر زرداری صاحب کی حکومت نے ملک
اور قوم کے لئے ایسا کیا اچھا کردیا کہ کوئی اِن (پیپلزپارٹی)کو اقتدار سے
نہیں ہٹا سکتا......؟ اور اِس کے ساتھ ہی عوام اِس مخمصے میں بھی مبتلا ہے
کہ نہ ہی اُنہوں نے اپنے اِس خطاب میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا
کوئی واضح ایجنڈا پیش کیا اور نہ ہی ملک سے کرپشن، بھوک و افلاس اور
بیروزگاری کے خاتمے سے متعلق اپنے کسی منصوبے کا ذکرکیا کہ اِس موقع پر
عوام کو یہ احساس ہوجاتا کہ ایک عوامی اور جمہوری حکومت کا طاقتور ترین صدر
اپنے ملک کی عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کیا کرسکتا ہے.....؟اور
اُوپر سے صدر کا اِس موقع پر یہ کہنا کہ کوئی پیپلز پارٹی کو اقتدار سے
نہیں ہٹاسکتا....حکومت کی دو ڈھائی سالہ ڈھکی چھپی کارکردگی پر ایک سوالیہ
نشان لگایا ہے جس کا جواب دنیا کے موجودہ حکمرانوں کے لئے بھی مشکل تر
ہوجائے گا۔ اور یہاں جہاں تک بات رہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں
نواز شریف کی صدر کی تقریر پر تنقید کرنے کی تو یہ نواز شریف کی کوئی نئی
حرکت نہیں ہے۔ وہ تو صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہر اچھی بات اور اچھے عمل
میں بھی کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے ہیں اور پھر اِس کا بتنگڑ بنا کر خود
کو میڈیا میں زندہ رکھتے ہیں مگر خیر اِس تقریر کے حوالے سے جو کچھ بھی
نواز شریف نے کہا اُسے اپنی جگہ بہتر کہہ سکتے ہیں۔ مگر اتنا بھی نہیں کہ
اِن کی ساری بات قوم مان کر اِن کے ساتھ اِس حکومت کے خلاف شانہ بشانہ کھڑی
ہوجائے اور جیسا یہ(نواز شریف)کہیں قوم ویسا ہی کرنے لگے....؟ اور زرداری
کو ہٹا کر نواز شریف کو اقتدار کی مسند پر لا کر بیٹھا دے ....اَب ایسا بھی
نہیں ہے.....؟؟
ویسے ایک بات تو ہے کہ آج قوم زرداری، نواز اور مشرف کو اچھی طرح سے آزما
چکی ہے کہ اِن میں سے کون کتنے پانی میں ہے ....؟اور کون ملک اور عوام کے
ساتھ کتنا مخلص ہے....؟تب ہی تو میرا خیال ہے کہ آج اپنے منہ میاں مٹھو
بننے والی اِس جمہوری (مگر سول آمر)حکومت میں بھی پاکستان کے ساڑھے سولہ
کروڑ عوام اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہنسی خوشی ایک اور موقع ملک کے
سابق صدر شہنشاہِ آمریت عزت مآب جنابِ متحرم جنرل (ر)پرویز مشرف کو دینا
چاہتے ہیں کہ وہ ملک کا اقتدار ایک بار پھر سنبھالیں کیونکہ آج ملک کو اِن
سے اچھا کوئی اور حکمران مل ہی نہیں سکتا جو ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال
سکے اور قوم کی دم توڑتی زندگیوں کی ناؤ کنارے لگا کر اِن میں زندگی کی ایک
نئی روح پھونک سکے۔ اور اِن ساری باتوں کے ساتھ ساتھ جو امریکا جیسے تیز
اور شاطر ملک کی مصلحتاً ہی صحیح ہاں میں ہاں ملا کر اپنا کام چلا سکے۔ اور
امریکی گوروں کو چکمہ دے کر قومی خزانے کو لبالب بھر کر ملک میں دولت کی
ریل پیل کرسکے۔ آج یقیناً یہ کام کسی جمہوری صدر کا نہیں ہوسکتا بلکہ اِس
کام کو کرنے کے لئے پرویز مشرف جیسے آمر سوچ رکھنے والا حکمران ہی ایسا اور
اِس سے بھی گھمبیر کام کرسکتا ہے۔ اِس لئے یہ بات اَب ناگزیر ہوگئی ہے کہ
ملک میں جلد ازجلد پرویز مشرف واپس آئیں اور اپنے خلاف بننے والے مقدمات کا
سامنا کریں اور اِن سے باعزت طور پر بری ہوکر ملک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں
لیں اور اِسے پھر ایسے ہی چلائیں جیسے وہ باوردی رہ کر ڈنکے کی چوٹ پر نو
سال آمریت کے سائے تلے چلا چکے ہیں۔ مگر اِس مرتبہ مشرف صاحب! جب اقتدار آپ
کے ہاتھ لگے تو براہِ کرم یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین رکھیے گا! کہ
ہاتھ ذرا ہلکا ہی رہے کیونکہ اَب کی بار آپ فوجی وردی میں نہیں بلکہ
شیروانی، اور کوٹ، پینٹ والے صدر ہوں گے .....اور اَب کی بار آپ کی کسی
غلطی کو عوام معاف نہیں کریں گے بلکہ اگر آپ سے غلطی سرزد ہوگئی تو عوام کے
ہاتھ آپ کے گریبان تک ہوں گے.......اور آپ کی صدرارت ٹھکانے لگ چکی
ہوگی....مگر پھر بھی عوام یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہی ملک کے صدر دوبارہ بنیں
اور ملک کو مشکلات سے نکالیں. |