ملک میں اقلیتوں پر جو بھی مظالم ہو رہے ہیں اس پر یہاں
کی حکومت کتنا سنجیدہ ہے اس کا اندازہ بین الاقوامی مذہبی آزادی پر نظر
رکھنے والے امریکی کمیشن کی رپورٹ سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے ۔اس سے یہ
بھی پتہ چلتا ہے کہ بیرون ملک ہمارے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے ۔چند گنے
چنے لیڈران کی بیان بازی نے ہمارے ملک کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش مسلسل
کر رہے ہیں جس پر اب تک لگام نہیں لگایا جا سکا ہے ۔جس کا خمیازہ بیرون ملک
میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اور ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کی جو
کوشش ہو رہی ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایاکاری کریں اس پر
بھی اثر پڑ رہا ہے ۔کمپنیاں تمام حالات پر نظر رکھتی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے
کہ وزیر اعظم کی کوشش پر کچھ لیڈران پانی پھیرنے کا کام کر رہے ہیں تو بیجا
نہ ہوگا ۔چونکہ ان کی بے لگام زبان بازی کی وجہ سے کمپنیاں سرمایا کاری
کرنے سے کترا رہی ہیں۔بی بی سی اردو کے مطابق’’بین الاقوامی مذہبی آزادی پر
نظر رکھنے والے امریکی کمیشن یو ایس سی آئی آر ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق
سنہ 2015 میں انڈیا میں عدم برداشت اور مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی
کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔اس رپورٹ کی اہم باتیں درج ذیل ہیں۔ اقلیتوں
کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے
بڑھتے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان
تنظیموں کی خاموش حمایت کرتے ہیں اور ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے
مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کے متعصب
رویے اور عدالت سے بھی جلد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے لوگ
خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔گذشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ظلم و ستم،
تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور
ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی آبادی کو
روکنے کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔فروری سنہ 2015 میں سنگھ پریوار
کے ایک اجلاس کے ویڈیوز میں بی جے پی کے کئی قومی لیڈر سٹیج پر بیٹھے دیکھے
جا سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں کئی لیڈر مسلمانوں کو ’شیطان‘ کہتے ہوئے اور
انھیں برباد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔مسلمانوں کا کہنا
ہے کہ وہ سماجی دباؤ اور پولیس کے رویے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کی
باضابطہ طور پر کم ہی شکایت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پولیس شدت پسندی کے
الزام میں مسلمان لڑکوں کو گرفتار کرتی ہے اور بغیر مقدمے کے سالوں تک
انھیں جیل میں رکھتی ہے۔ گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور
دلتوں کا اقتصادی نقصان تو ہو ہی رہا ہے، اس کے علاوہ اس قانون کی مبینہ
خلاف ورزی کا معاملہ بنا کر مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور ہندوؤں
کو تشدد کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ سنہ 2015 میں عیسائیوں پر تشدد کے 365
معاملے سامنے آئے جبکہ سنہ 2014 میں یہ تعداد 120 تھی۔ عیسائی کمیونٹی اس
کے لیے ہندو جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے جنھیں بی جے پی حکومت اور پارٹی
کی حمایت حاصل ہے۔تبدیلیِ مذہب کے قانون کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں
کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دسمبرسنہ 2014 میں ہندو تنظیموں نے گھر
واپسی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ہزاروں مسلمانوں اور عیسائیوں
کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن اس معاملے پر اندرون و
بیرونِ ملک ہنگاموں کے بعد آر ایس ایس نے اسے ملتوی کر دیا۔ سنہ 2015 میں
بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تبدیلیِ مذہب پر پابندی لگانے کے لیے ملک بھر
میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔اپریل سنہ 2015 میں ہندوستان کی وزارت
داخلہ نے تقریباً نو ہزار غیر سرکاری اداروں کا لائسنس منسوخ کر دیا۔ حکومت
کا کہنا ہے کہ ان اداروں نے فیرا (فارن ایکسچینچ ریگولیٹری ایکٹ) قانون کی
خلاف ورزی کی تھی جس کی وجہ سے ان پر کارروائی کی گئی تھی لیکن ان اداروں
کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی وجہ سے انھیں نشانہ
بنایا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق سنہ 2015 میں گذشتہ سال (2014) کے
مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں
کا الزام ہے کہ مذہب کی بنیاد پر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن
حکومت اسے دو دھڑوں کے درمیان تشدد کی واردات بتاتی ہے۔مارچ سنہ 2016 میں
ہندوستان کی حکومت نے یو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو ویزا دینے سے انکار
کر دیا تھا۔یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومت کو کچھ
تجاویز بھی دی ہیں ان میں مندرجہ اہم ہیں:انڈیا کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات
میں مذہبی آزادی کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے۔انڈیا میں واقع امریکی سفارت
خانے کی توجہ ان امور کی جانب مرکوز کی جائے۔ سفارت خانے کے حکام کو اس طرح
کے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کرنا چاہیے اور مذہبی
رہنماؤں، مقامی حکام سے ملاقات کرنی چاہیے۔حکومت ہند پر دباؤ ڈالنا چاہیے
کہ وہ یو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو بھارت کا دورہ کرنے کی اجازت
دے۔حکومت ہند سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنی پولیس اور عدالتی حکام کو انسانی
حقوق کے معاملے کی اور تربیت دے، تبدیلیِ مذہب قانون یوایس سی آئی آر ایف
امریکہ کا آزاد کمیشن ہے جس کا کام دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حقوق پر
نظر رکھنا ہے۔ ان تجاویز پر عمل کرنے کے لیے امریکی وزارت خارجہ پابند نہیں
ہے۔انڈیا میں مذہبی آزادی کی بنیاد پر کمیشن نے اس سال بھی ہندوستان کو
درجہ دوم میں رکھا ہے۔ اس زمرے میں بھارت کے ساتھ افغانستان، کیوبا،
انڈونیشیا، آذربائیجان، قزاقستان، لاؤس، ملائیشیا، روس اور ترکی شامل
ہیں۔اس کے ساتھ کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ رواں سال بھی انڈیا پر سخت نظر رکھے
گا تاکہ وہ فیصلہ کر سکے کہ وہ بھارت کو سخت تشویش والے ممالک کی فہرست میں
رکھنے کے لیے امریکی وزارت خارجہ کو سفارشات دے دیا یا نہیں۔کمیشن نے
پاکستان سمیت آٹھ ممالک کو اس زمرے میں رکھنے کی سفارش کی ہے۔‘‘(مذکورہ
معلومات بی بی سی اردو ۳ مئی سے ماخوذ ہے)اس رپورٹ میں کتنی سچائی ہے وہ تو
غوروفکر کا پہلو ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس سے ملک کی شبیہ خراب ہو
رہی ہے اس لئے اس طرح کی حرکات پر سنجیدگی سے غووفکر کرنے اور کل جماعتی
میٹنگ بلاکر سب کو باخبر کرنے کی ضرورت ہے۔
|