طاق جفت فارمولہ پر سیاست کیوں؟

دہلی میں طاق جفت فارمولہ کا دوسرامرحلہ پندرا اپریلسے شروع ہو گیا ہے۔ اس کے نفاذ کے پہلے ہی دن تقریباًکل 1,311 گاڑیوں کے چالان کاٹے گئے۔ یہ اعلان پہلے ہی کیا جاچکا تھا کہ پندرہ دن تک چلنے والے اس سسٹم پر عمل نہیں کرنے والی گاڑیوں کے لئے 2000 روپے کاچالان کاٹا جائے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا سابقہ ضابطہ ہی ہے جس کا نفاذ جنوری میں ہوا تھا، اس وقت بھی 30 اپریل تک نجی گاڑیا ں اپنی نمبر پلیٹ کے حساب سے متبادل دنوں میں سڑک پر اتری تھیں۔یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ کسی بھی قانون کے نفاذ کی کامیابی کا انحصارعوام کے تعاون اور دل چسپی پر ہواکرتا ہے۔اگر عوام کے رجحان پر غور کیاجائے تویکم جنوری 2016 کو شروع کئے جانے والے جفت۔طاق فارمولہ نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔اس سے نہ صرف یہ کہ بڑی حدتک دہلی کی آلودگی پر قابو پا نے میں مدد ملی تھی،بلکہ حیرت انگیز طور پر دارالحکومت کا ٹریفک نظام بھی تندو تیز ہوگیاتھا۔اسی تحریک سے حوصلہ پاکر وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے اس فارمولہ کو دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سسٹم کو حکومت اپنی مرضی سے دہلی والوں پر تھوپ رہی ہے۔البتہ اس مسئلہ پرلگ بھگ دوماہ تک عوام سے رائے لی جاتی رہی،عوامی رابطہ کی سائٹوں کے توسط سے عوام کے مطالبے جمع کئے گئے۔اس کے بعد اسے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مگر حزب اختلاف خاص طور پر بی جے پی جس کے ہاتھ میں اس وقت مرکز کی باگ ڈور ہے ،اسے یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ عوامی مفادات سے وابستہ کوئی بھی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے قبل جب ماہ جنوری میں ملک کے مختلف آلودہ شہروں کی سروے رپورٹ میں دہلی کا نام آیا تھا اوررپورٹ میں بڑھتی آ لودگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیاتھا کہ اگراس کی روک تھام کی کوشش نہیں کی گئی تو دہلی میں صحت عامہ کامسئلہ سنگین ہوجائے گا۔بس اسی تشویش کے سامنے آ نے کے بعد دہلی میں جفت۔طاق فارمولہ کے نفاذ کی تیاری شروع کردی گئی۔مگربی جے پی کے مہارتھیوں کو عوامی صحت ،مفادات اورملک کی بھلائی سے صرف دکھاوے کی حد تک ہی ناطہ رہاہے۔ان کے اندر ہمیشہ اقتدار کی خواہشات موجیں مارتی رہی ہیں۔اقتدار پانے کیلئے فرقہ وارانہ کشید گی،مارکاٹ یا فتنہ اوربدامنی پھیلانے کی ضرورت پڑی تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔چنانچہ دہلی میں جفت۔طاق منصوبہ کے نفاذ سے پہلے بی جے پی کے پیٹ میں دردہونے لگا اور کسی نہ کسی بہانے اس منصوبہ کو دہلی ہائی کورٹ میں گھسیٹ لیا گیا۔مگر چونکہ یہ معاملہ دہلی کی آلود گی پر قابو پانے اورعوام کی صحت سے جڑہوا تھا ،لہذاعدالت عالیہ میں مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی۔ راجدھانی میں تجربے کے طور پر آزمائے جارہے آڈ۔ ایوان سسٹم میں مداخلت سے دہلی ہائی کورٹ نے انکار کردیا۔ہائی کورٹ نے کہا کہ ماہرین کی رائے لیکریہ اسکیم بنائی گئی ہے، اس کے ذریعے سے دیکھا جاناچاہئے کہ آلودگی میں کمی آتی ہے یا نہیں۔ ایسے میں اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چیف جسٹس جے۔ روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کی بنچ نے اپنے 12 صفحات پر مشتمل آرڈر میں کہا تھاکہ ہم تب تک اس میں دخل نہیں دے سکتے جب تک پالیسی آئین یا قانون کے خلاف نہ ہو۔ آڈ۔ ایون اسکیم کچھ لوگوں کیلئے پریشانی والی ہوسکتی ہے، لیکن کورٹ اس بات کے لئے دخل نہیں دے سکتی کہ پالیسی کیسی ہے یا اس سے بہتر کوئی اور پالیسی ہوسکتی تھی یا نہیں۔ حالانکہ عدالت نے دہلی حکومت سے کہا تھا کہ عرضی میں جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان ایشوز پر غور کیا جائے۔ مستقبل میں اس طرح کی اسکیم لانے سے پہلے ان سوالوں پر بھی غور کریں۔دہلی سرکار کے وزیر ٹرانسپورٹ گوپال رائے نے کہا کہ یہ اسکیم دہلی والوں کے مفاد میں ہے اور 15 جنوری تک ٹرائل کے بعد ہر ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے گا اس کے بعد ہی اسکیم پر آگے فیصلہ لیا جائے گا۔ بہرحال ماہ جنوری 2016کوآزمائش کے طور پر جفت۔ طاق فار مولہ نافذ کردیا گیا۔آڈ۔ ایون کے نفاذ سے سڑکوں پر بھیڑ کم ہو گئی،اور سب سے بڑی اطمینان بخش بات یہ رہی کہ آلود گی پر قابو پانے میں بھی مدد ملی۔بس اسی کامیابی سے تحریک پاکر اسے دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مگر یہ کامیابی حزب اختلاف کو کب برداشت ہوسکتی تھی ،چنا ں چہ جمعہ کے روز ہی بی جے پی کے ایک قدآور لیڈر وجے گوئل نے اس اہم منصوبہ کو ناکام بنانے کا اعلان کردیا۔اطلاعات کے مطا بق بی جے پی جفت-طاق منصوبہ کو لے کر کجریوال حکومت پر حملہ آور ہے اور اس کے راجیہ سبھا ممبر وجے گوئل نے پیر کو اس نظام کو توڑنے اور 2 ہزار روپے کاجرمانہ اداکرنے کا اعلان کر دیا ہے۔وہیں کجریوال حکومت نے بھی کہا ہے کہ وہ وجے گوئل کو دو بار سمجھائیگی، اگر پھر بھی وہ نہیں مانتے ہیں تو ان کا چا لان کاٹ دیا جائے گا۔بی جے پی ممبر پارلیمنٹ وجے گوئل نے کہا کہ میں جفت-طاق منصوبہ کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، لیکن اس بات کی مخالفت کر رہا ہوں کہ اس کی آڑ میں اروند کجریوال عوام کے لاکھوں کروڑوں روپے اپنے پروپیگنڈے میں لگا رہے ہیں۔ گوئل نے کہا کہ کجریوال کیوں نہیں جفت-طاق فارمولہ کو مستقل طور پر لاگو کر دیتے۔ یہ ہر ماہ جفت-طاق لاگو کریں گے اور اپنا پرچار کریں گے۔انہوں نے کہا کہ میں پیر کو دو ہزار روپے کا اچالان کٹواؤں گااور انہوں نے ایسا ہی کیا۔یہیں سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آ رہی ہے کہ بی جے پی کے پاس اس منصوبہ کی کاٹ کیلئے کوئی مثبت جواب نہیں ہے ،صرف اپنی انا کی آگ سرد کرنے کیلئے بہانے تراشرہی ہے۔بی جے کا کہنا ہے کہ جفت۔ طاق منصوبہ کی اتنی جلدی کیوں تھی، جب ان کے پاس انفراسٹرکچر نہیں تھا۔گوئل کے اس کھلے چیلنج پر دہلی کے وزیر ٹرانسپورٹ گوپال رائے نے کہا کہ لگتا ہے کہ وجے گوئل مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وجے گوئل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو پہلی بار میں انہیں پھول دیا جائے گا۔ دوسری بار بھی پھول دیا جائے گا اور پھر بھی وہ نہیں مانے تو تیسری بار ان کاچالان کاٹا جائے گا۔رائے نے کہا کہ وجے گوئل کے رویہ پرجب بی جے پی کچھ نہیں بول رہی ہے۔اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی بھی اپنے لیڈر کے رویہ سے اتفاق رکھتی ہے اور وہ جفت-طاق سسٹم کو ناکام کرنا چاہتی ہے۔بی جے پی عوامی مفادات کو ناکام بنانے کیلئے اب پارٹی سے متعلق آٹو ٹیکسی یونین کو متحرک کرچکی ہے۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ عدالت کے ذریعہ منہ کی کھانے والی پارٹی کی یہ سازش بھی کامیاب نہیں ہوسکے گی اوردہلی کے عوام میں بی جے پی کیلئے اس کا مثبت پیغام نہیں جائے گا۔وزیر اعلی اروند کجریوال نے کہا ہے کہ بی جے پی اور آرایس ایس دہلی میں آڈ۔ایون کو فیل کرانا چاہتی ہے۔ہفتہ کی صبح سی ایم نے ایک کے بعد ایک کئی ٹویٹ کرکے بی جے پی پر نشانہ لگایا۔ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے وجے گوئل کے ٹویٹس کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بی جے پی لوگوں سے آڈ۔ایون رول کو توڑنے کی اپیل کر رہی ہے۔ بی جے پی آٹو یونین نے پیر سے ہڑتال کی کال دی ہے ، بی جے پی چاہتی ہے کہ کسی طرح بھی آڈ۔ایون فیل ہوجا ئے۔ اپنے دوسرے ٹوئٹ میں انہوں دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی نے جنوری میں بھی آڈ۔ایون منصوبہ کو ناکام بنانے کیلئے افسران کی ہڑتال کروا دی تھی، لیکن دہلی کے عوام نے بی جے پی کوہی فیل کر دیا اورآ ڈ۔ایون کو کامیاب بنایا۔ اس باربھی دہلی بی جے پی کے ناپاک ارادے کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
 

Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.