نیو یارک کی 116سالہ خاتون سوزینا موشیٹ
جونزچند دن پہلے انتقال کر گئی اور اسی خاتون کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ
یہ دنیا کی معمر ترین شخصیت ہے ۔ خبر کے مطابق سوزینا موشیٹ جونز کے انتقال
کے بعد اٹلی کی ہی 116سالہ ایما مورانو دنیا کی معمر ترین شخصیت بن گئی ہیں
جن کے بارے میں یہ تصور بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ واحد معمر شخصیت ہیں جنھوں
نے تین صدیاں دیکھی ہیں ۔
اس ایک خبر پر ذرا سی توجہ، ذرا سا دھیان او رذرہ سی سوچ ہمیں اس ڈگر پر لے
آتی ہے کہ جس کے بعد ہم یہ فیصلہ باآسانی کر سکتے ہیں کہ ایک انسان زیادہ
سے زیادہ کتناعرصہ اس دنیا میں سانس لے سکتا ہے ۔ اقتدار اور عہدے کے نشے
میں بدمست زمینی خدا جو اپنے ماتحتوں کے لیے عذاب جان اور مشکلات کا باعث
بنے ہوئے ہوتے ہیں اس ایک خبر سے اپنی خدائی کا دورانیہ جمع تفریق کرسکتے
ہیں مگر اس کے لیے طاقت کے خول اور اقتدار کی ہوس سے باہر نکلنا ہو گا جو
کہ زمینی خداؤں کے لیے اندھی تقلید کرنے والے اپنے پیروکاروں کی موجودگی
میں ممکن نہیں ہے مگر ان زمینی خداؤں کے عبرت ناک قصے کہانیوں سے تاریخ کی
کتابیں بھری پڑی ہیں جہاں سے عبرت پکڑنے والے آج بھی اقتدار حاصل کرنے کے
بعد عبرت پکڑتے ہیں ۔زمینی خدا جو طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر
زمین پر ظلم کرتے ہیں ہر جگہ ہر مقام او رہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور ان
کے مظالم دیکھ کر خاموشی اختیار کرنے والے بھی ہر دور میں بکثرت پائے جاتے
ہیں اور ان کے مظالم میں ان کے اقتدار کے جاہ و جلال کی وجہ سے ساتھ دینے
والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی ہے مگر یہ خاموشی اور یہ ساتھ صرف چند دن کا
ہوتا ہے اور اس کے بعد لامتناہی پریشانی اور عذاب ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ملت
اسلامیہ میں بھی ایسے افراد کا اضافہ جہاں فکر کی بات ہے وہاں ان کے مظالم
میں ان کا ساتھ دینے والے اور اچھے لوگوں کی خاموشی زیادہ فکر مند ہے اسی
حوالے سے دو اندوہ ناک واقعات کا ذکر کرنے کو دل تو نہیں چاہتا ہے مگر دل
پر پتھر رکھ کر پیش ورق ہیں کہ شاید کسی کے لیے اصلاح کا باعث بن سکیں :
سیکڑوں میل دور اپنی اولاد کے لیے رزق حلال کمانے والے ۵۳ سالہ ایبٹ آباد
کے رہائشی ظلم و بربریت کا شکار ہونے والی عنبرین کے باپ کو کہاں یہ علم
تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں طاقت اور چند دن کے اقتدار کے نشے میں بدمست
چیئرمین اور اس کے حواری اس کی نوجوان بیٹی کو پہلے اسی کے دوپٹے سے پھانسی
دیں گے پھر اس کی لاش کی بے حرمتی کچھ اس انداز سے کریں گے کہ انسانیت شرما
جائے گی۔حالاں کہ انسانیت کی معراج کو چھوتے ہوئے درد دل رکھنے والے آج بھی
بے شمار لوگ مردہ کو نہلاتے ہوئے بھی اتنی احتیاط برتتے ہیں کہ جیسے کسی
بچے کے ساتھ اس کی ماں کرتی ہے مگر طاقت ، جاہ و جلال ،سیاسی قد کاٹھ، عہدہ
اور دنیاوی اقتدا رکے نشے میں بدمست ایبٹ آباد کے علاقے مکول پائیں کے یہ
بااثر افرادنویں جماعت کی طالبہ سولہ سالہ عنبرین کو اس کے ناکردہ گناہ
پرپہلے اسے سر سے ننگا کیا پھر اسی کا دوپٹا لے کر اس کے گلے میں ڈالا اور
پھر جب عنبرین زندگی کی بھیک مانگ مانگ کر چپ ہو گئی تو اس کی لاش کو گاڑی
میں باندھ کر گاڑی سمیت جلا دی ۔اُف۔۔۔۔۔ اتنا ظلم ۔۔۔زمین لازمی کانپی ہو
گی مگر اقتدار ، دنیاوی جاہ و جلا ل سیاسی قد کاٹھ ، عہدہ اور طاقت ان کو
اس ظلم کے اس دوراہے پر لائی کہ جہاں زمین کی تھرتھراہٹ محسوس ہی نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔ آسمان بھی رویا ہو گا مگر طاقت کے نشے نے ان افراد کو اتنا بدمست کیا
ہوا تھا کہ انھیں نہ عنبرین کی آہ و بکا میں اپنی بیٹیوں کی آہ و بکا سنائی
دی اور نہ ہی ظلم ، ظلم نظر آیا ۔ کاش اس وقت انھیں رحمت عالم صلی اﷲ علیہ
وسلم کی وہ آخری دعا وہ آخری التجا یاد آجاتی کہ جو امت کے لیے کی گئی اور
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جب ظالم کی معافی نہ کرنے کا جواب آتا تو رحمت عالم ؐ
بھی اس نہ پر خاموش ہوگئے ۔
ہو سکتا ہے یہ با اثر افراد اس دنیا کی عدالتوں اس دنیا کے قانون کے مطابق
باعزت بری ہو جائیں اور ظالم نہ ٹھہرائیں جائیں مگر عنبرین کی آہ و بکا اور
عنبرین پر ہونے والا ظلم ان کے لیے اس دنیا میں بھی ذلالت کا باعث بنے گا
اور آخرت میں بھی کہ جب سیاسی قد کاٹھ کسی کام آئے گا نہ ہی حسب نسب ،
چیئرمینی کام آئے گی اور نہ ہی زمینی خدا ئی اور نہ ہی ان کے آگے پیچھے اور
ہر جائز و ناجائز کام پر ڈیفینڈ کرنے والے ان کے پیروکار۔مگر آخری اطلاعات
کے مطابق ظالم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اپنے سیاسی اثرو رسوخ سے سچے
اور بے قصور ٹھہرانے کے منتظر ہیں مگر ۔۔۔مگر یہ فیصلہ دنیا کی عدالت دنیا
کے قانون کا ہی ہو گا ۔۔۔اور دنیا کی زندگی تو صرف چند دن کا کھیل ہے زندگی
تو مرنے کے بعد شروع ہو گی ، وہاں پھر نہ جھوٹی گواہیاں ہو گی اور نہ پیسہ
جاہ و جلال اور نہ سیاسی و معاشرتی قد کاٹھ۔
عنبرین کے اس اندوہناک سانحہ کے ساتھ ہی ظلم و جبر کی انتہا کو چھوتی ہوئی
ایک اور خبر لاہور سے وصول ہوئی جس میں محکمہ پولیس سے وابستہ اعلیٰ عہدہ
پر فائز گورنمنٹ آفیسر نے ایک ۱۵ سالہ طالبہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنادیا ۔گو
کہ یہ آفیسر بھی پابند سلاسل ہے مگر اطلاعات روز بروز ایسے وصول ہو رہی ہے
کہ جیسے یہ ملزم بھی بے گناہ ٹھہرایا جائے گا ۔شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے
ہیں اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب ملز م کے پیروکار اندھی عقیدت رکھتے ہوں اور
ان کے گناہ بھی انھیں ’’حق ‘‘ نظر آتا ہو یا پھر ملز م زمینی خداؤں کا خدا
ہو تو تب ایسا ہوتا ہے۔مگر یہ زمینی خدا تو چند دن کے خدا ہوتے ہیں اور ان
کا انجام ۔۔۔عبرت ۔۔۔رہتی دنیا کے لیے عبرت |