وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا
(Shahzad Hussain Bhatti, Attock)
جمہوریت کیوں ضروری ہے اس کی تین بنیادی
وجوہات ہیں، ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق پوری قوم سے ہو، اس میں کسی ایک
شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کرنااور دوسروں کو نظر انداز کرنا غلط ہے۔انصاف
کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جن لوگوں کے مفادات سے تعلق رکھتا ہواس میں
انکی یا انکے نمائیندوں کی رائے لی جائے۔ مشترک معاملات میں کسی کو من مانی
کا حق نہیں ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ایک انسان اجتماعی معاملے میں اپنی
رائے سے فیصلہ کرتا ہے، تو یا تو وہ متکبر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بڑی چیز
اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اور یا پھر وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے
دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے۔ تکبر، خودپسندی اور دوسروں کا حق مارنا
اجتماعی انسانی ضمیر کے خلاف ہے اور ان کو ہمیشہ بہت بڑی خامی سمجھا گیا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ جن معاملات کا تعلق اجتماعی حقوق اور مفادات سے ہو، ان
میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی انسان اس بھاری بوجھ کو
تنہا اپنے سر لینے کی جرُاّت نہیں کرسکتا۔ ہر انسان جانتا ہے کہ وہ عقلِ
کْل نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شریک مشورہ
کیا جائے تاکہ مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جاسکے، اور اگر کوئی غلطی ہوبھی
جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اْس کی ذمہ داری نہ آئے۔
جمہوریت کسی بھی ملک کے لیے مارشل لاء سے ہزارہا درجہ بہتر ہے بشرطیکہ اسکی
حقیقی روح کے مطابق اسے نافذ کیا جائے۔ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے
ملک میں عوام کو صرف ایک لفظ جمہوریت ہی سکھایاگیا ہے اسکے اوصاف، روح،
فوائد،اطلاق غرض کچھ بھی تو ہماری بھولی عوام کو معلوم نہیں۔اہل دانش کے
نزدیک یہ اقتدار حاصل کرکے کرپشن اور لوٹ مارکا استعارہ ہے۔جس میں نجومی کی
فال کی طرح آئے روز جلسوں اور جلوسوں میں جمہوریت کے ثمرات کے سہانے خواب
دیکھائے جاتے ہیں کہ اس کے اطلاق سے ملک سے مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا ،
خوشحالی کا دوردورہ ہو گا، امیر غریب کا فرق مٹ جائے گا، نوکریوں کے
انبارلگ جائیں گے، ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، صفائی،گندے پانی کی
نکاسی،پینے کا صاف پانی میسر ہو گا، بجلی کی فراہمی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ
ہو جائے گا، ہسپتالوں میں مفت علاج اور صحت کی بہتر سہولیات ملیں گی، فری
تعلیم ہوگی،بھیڑیے اور میمنے کی ایک گھاٹ پر آمدہو گی اور نہ جانے کیا کیا۔
لیکن ہماری انگریزوں کے گھوڑے نہلانے والی غلام ابن غلام اشرافیہ کے نزدیک
جمہوریت کا مطلب کچھ اور نہیں یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے حاصل کردہ طاقت سے
عوام کے وسائل کوکرپشن اورلوٹ مار کے ذریعے ہڑپ کر کے ملک سے باہر منتقل
کیا جائے اور بیرون ملک اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پُرتعیش آرام و سکون مہیا
کیا جائے۔ یہاں قارئین کے لیے یہ گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ"انگریزوں کے
گھوڑے نہلانے والی غلام ابن غلام اشرافیہ"کی اصطلاع میں نے اپنے دو سال قبل
ایک کالم میں متعارف کروائی جو میرے استاد محترم پروفیسر انور جلال ملک
صاحب کو بہت پسند آئی شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے میری کتاب"کمرہ نمبر
ایک سو نو" کے دیباچے میں اس اصطلاع کا با ضابطہ طور پرذکر کیا۔
میرے عزیز ہموطنوں جس ملک میں دس کروڑ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو،
ادویات جعلی اور مہنگی ہوں، ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات کا فقدان
ہو، تھانوں اور کہچریوں میں ناکردہ جرائم سے خلاصی کے لیے نسلیں گور ہو
جاتی ہوں،کمزورں کی جائیدادوں پر جمہوری حکومت کے وزیر قبضہ مافیا
ہوں،چھوٹو گینگوں کی سرپرستی ہوتی ہو،بے روزگاری اور بھوک کے ہاتھوں آئے
روز خودکشیاں معمول ہوں۔ میرٹ کا استحصال ہو۔ ڈگریوں میں خیرات بٹتی
ہو۔چڑھاؤں اور نذرانوں سے غریبوں کی حالت زار بدلنے کے بجائے اربوں کے
اخراجات سے شاہانہ دیکھاوے کی شادیاں کی جاتی ہوں، حق دار کی حق تلفی کی
جاتی ہو، وہاں کے حکمران عوامی مسائل سے روائیتی بے حسی اور چشم پوشی
اختیار کرتے ہوئے اسی عوام کے نام پر دوسرے ممالک سے بھیک کی اپیل کرتے ہوں
وہ حقیقت میں عوام کے خادم نہیں دشمن ہیں،ان کے مالک ِ کل ہیں جو اپنے حلقے
کے عوام کی خدمت کے نام پر ایوانوں میں آکر اپنی زندگیاں سنوارتے ہیں۔
چند دن پیشتر قومی اسبملی نے سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیرمین و ڈپٹی چیرمین سینٹ
سمیت ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاونسز میں اضافے کے ایکٹ 1975ء میں
ترمیم کرکے ایکٹ 2016ء کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی ۔ اس نئے قانون کے
تحت55 کھرب کے مقروض ملک جس کے ساتھ آئی ایم ایف کا واجب ادا سات ارب ڈالر
کا سود بھی شامل ہے اُس غریب ملک کی غریب عوام کی فلاح و بہبود اور حالت
زار بہتر بنانے کے دعویدارغریب ترین ممبران پارلیمنٹ کی بنیاد ی تنخواہوں
میں دولاکھ سے چار لاکھ روپے ماہانہ اضافے کر دیا ہے جبکہ دیگر الاونسز اس
کے علاوہ ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ترمیم کے حق میں تمام جماعتیں متفق
تھیں کیونکہ یہ کوئی عوامی بل یا قرارداد نہیں تھی خالصتاً لٹیروں کی حوصلہ
افزائی تھی۔ایسی جمہوری حکومتوں اور عوامی نمائیندوں کا کیا فائدہ جس میں
فائدہ صرف اشرافیہ اور سرمایہ دار کا ہو۔ مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں مگر
جمہوریت کے حسن کی پرچھائی عوام پر نہیں ڈالی جاتی۔جمہوریت دیکھنی ہے تو
جمہوریت کی ماں برطانیہ میں دیکھو۔لندن کے میئر صادق خان کو دیکھو ،جو آفس
جانے کے لیے بس کے اسٹاپ پر کھڑا ہوتا ہے۔وطن سے محبت دیکھنی ہے تو سکاٹ
لینڈ کے حمزہ یوسف کو دیکھو جس نے وطن سے محبت کی خاطر ایک دیارغیر میں حلف
اس نیت سے اُٹھایا کی میری قو م اورپاکستان مجھ پر فخر کر سکے۔یہاں محبت یہ
ہے کہ سرمایہ ملک سے باہر غیر قانونی طریقے سے لے جاؤ۔ جائیدادیں ملک سے
باہر بناؤ۔ اولادوں کو ملک سے باہر رکھو بلکہ شہریت بھی دوسرے ملک کی رکھو
بس عوام کا خون نچھوڑنے کے لیے انتخاب پاکستان کا کرو کیونکہ اس معاملے میں
یہ مٹی بڑی زرخیزہے۔آخر میں خالد عرفان کا شعر
میں کرپشن کی فضیلت کو کہاں سمجھا تھا
بحر ِ ِ ظلمات کو چھوٹا سا کنواں سمجھا تھا
پھر بجٹ اس نے گرایا ہے ہتھوڑے کی طرح
وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا |
|