کانگریس کے عروج کا دور ختم ہو گیا۔اس کے
ساتھ ہی سیکولر ازم بھی زوال پذیرہو رہا ہے۔بھارت کی قدیم پارٹی نے نصف صدی
تک بھارت حکومت کی۔ جواہر لعل نہرو سے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی سے
نرسمہا راؤ اور منموہن سنگھ تک اس کے وزرائے اعظم دنیا کی توجہ کا مرکز بنے۔
نہرو، اس کی بیٹی اندرا، اس کے بیٹے راجیو نے 40سال بھارت پر حکومت کی ۔وزرائے
اعظم مرار جی ڈیسائی، چرن سنگھ، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، دیو گوڑا، آئی کے
گجرال بھی سابق کانگریسی تھے۔ آج یہی کانگریس 29ریاستوں اور 7یونین علاقوں
والے ملک میں سمٹ کر صرف پانچ چھوٹی ریاستوں میں حکومت کر رہی ہے۔ اس کے
لئے بھی اسے اتحادیوں کی مدد درکار ہے۔کل 545میں سے اس کے پاس پارلیمنٹ کی
آج صرف 44سیٹیں ہیں۔
پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں بھی اسے بدترین شکست ہوئی ہے۔ جب کہ اس
کے مقابلہ میں بی جے پی ہندو انتہا پسندی کے نعرے کے ساتھ بھارت کو لپیٹ
میں لا رہی ہے۔ اس نے شمال مشرق میں بھی اپنا کھاتا کھولا ہے۔ نریندر مودی،
امیت شاہ، راج ناتھ سنگھ کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس
ایل کے ایڈوانی، منوہر جوشی جیسے لوگ کنارہ کشی پر مجبور ہیں۔ پارٹی کے
اندر شدید خلفشار کے باوجود مودی کی فرقہ وارانہ پالیسی کو پذیرائی ملنے پر
اعتدال پسند حیران بھی ہیں اور ان کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔ بھارتی میڈیا
بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر خانہ جنگی چھڑ جانے کے امکانات ظاہر کر
رہا ہے۔ کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ اور جن سنگھی مورچے کی جانب سے سیاسی خلاء پر
کرنا بھارت میں اقلیتوں کے لئے اچھا شگون نہیں۔ مساجد، مدارس، چرچ، سکھ
گوردوارے ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر تھے۔ اب بھارت میں یونیورسل سول
کوڈ کے نفاذ کے مطالبات بڑھنے لگے ہیں۔ گاؤ ماتا کے پجاریوں کو حوصلہ مل
رہا ہے۔
بھارتی ڈیری ،کاسمیٹک اور دیگر خوراکی مصنوعات میں گائے کا پیشاب اور
خنزیرکی چربی شامل کرنا عام ہو رہا ہے۔ کیوں کہ ہندو اسے باعث ثواب سمجھتے
ہیں۔ جبکہ اسلام میں یہ حرام ہیں۔ سائنس نے بھی خنزیر کی چربی اور گوشت میں
زہریلے اور مضر صحت جراثیم دریافت کئے ہیں۔ مگر بھارت میں فرقہ پرست بی جے
پی کی آڑ لے کر سور کے کٹے سر مساجد میں پھینک کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے
کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کانگریس کا دور بھی مسلم کشی کی ایک مثال تھا۔اس نے
سوشلزم، لبر ازم، سیکولر ازم کا نعرہ لگا کر اقلیتوں کو تحفظ دینے کے دعویٰ
کیا ۔ مگر بی جے پی کھل کر مسلم دشمنی پر اتر آئی ہے۔ سکولوں میں وندے
ماترم ، بھارت ماتا کی جے جیسے ترانے لازمی قرار دیئے جا رہے ہیں۔ جبکہ یہ
مسلم نظریات کی نفی کرتے ہیں۔ ہندو فرقہ پرست میڈیا کو بھی اپنے نظریہ کی
تشہیر کے لئے استعمال میں لا رہے ہیں۔ ان کے کئی کارٹون چینل ،ڈرامہ چینل
پاکستان میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اب یہاں بھی ہندی کیا ا لفاظ بکثرت بلکہ
فیشن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ بندیا، ماتھے پر ٹیکے،راکھی، ساڑھیاں،
ہولی ، دیوالی، دیئے جلانا دیہات تک رواج بن رہا ہے۔ مندروں کے بھجن کی طرح
زیارتوں میں ناچ و نغمے ہونے لگے ہیں۔ ہندو کلچر یہاں حملہ آور ہے۔ یہ ایک
یلغار ہے۔ ہمارا میڈیا، کیبل اسے فروغ دینے میں مصروف ہے۔
گزشتہ دو سال میں کانگریس کو ہریانہ، مہاراشٹر، راجھستان، جھارکھنڈ، مدھیہ
پردیش، دہلی، مقبوضہ کشمیر، آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں شکست ہوئی ہے۔
اس ہفتہ اسے کیرالہ اور آسام میں بھی بدترین شکست ہوئی۔ اس کا ووٹ شیئر کم
ہو کر 19فیصد رہ گیا ہے۔ سونیا گاندھی اور کانگریس کے نائب صدر راہول
گاندھی پارٹی کو زوال سے بچانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب خدشہ ہے کہ
کانگریس بھی بی جے پی ک راہ پر چل سکتی ہے۔ یہ اقلیتوں کے خلاف میدان میں
آکر جن سنگھیوں کا مقابلہ کرنے کا ذہن بنا سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ
سکھوؤں کا گولڈن ٹمپل کی تباہی اور پھر بابری مسجد کی شہادت بھی کانگریس کے
دور میں ہوئی۔
آسام میں بی جے پی انتخابی کامیابی کو ڈرامائی قرار دیا جا رہا ہے۔کیوں کہ
یہاں کانگریس کی 15سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ مگر مغربی بنگال، تامل ناڈو،
پانڈوچری، کیرالہ میں مقامی پارٹیوں نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کا
صفایا کر دیا۔ بی جے پی دہلی میں عام آ دمی پارٹی سے شکست کھا گئی اور بہار
میں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ انتخابات سے قبل بی جے پی
شمالی اور مغربی علاقوں سے دور تھی۔ مغربی بنگال میں ترنومل کانگریس کی
ممتا بینرجی اور تا مل ناڈو میں اے آئی اے ایم ڈی کی جے للتھا کو ایک بار
پھر وزیر اعلیٰ بننے سے بی جے پی روک نہیں سکی۔ تا ہم بی جے پی گزشتہ برسوں
میں 13ریاستوں پر قبضہ کر چکی ہے۔ کرناٹک کو چھوڑ کر کانگریس کے پاس کوئی
بڑی ریاست نہیں بچی۔ مبصرین کوتشویش ہے کہ آسام میں چائے باغات کے محنت کش،
بنگال میں مسلم اور کیرالہ کے عیسائی کانگریس کے ہاتھ سے کیسے نکل گئے۔
آئیندہ سال سب بڑی ریاست اتر پردیش سمیت پنجاب میں اسمبلی الیکشن ہوں گے۔
بھارت میں شدت پسندی کے فروغ سے دہلی کی خارجہ پالیسی پر منفی اثرات پڑنے
کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرست اکھنڈ بھارت کے خواب دکھا کر عوام
کو مشتعل کر رہے ہیں۔ ہندو نیشنلزم کے نعرے پر وہ آگے بڑھنے لگے ہیں۔ وہ
بھارتی ووٹر کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چانکیا پالیسی کے تحت پاکستان کو
دوستی کے جھانسے میں لاکر اس پر وار کرنے کا موقع تلاش کیا جا ئے گا۔ اس
فرقہ پرستی نے بھارت میں مسلمانوں کو متحد ہونے کی ابھی تک کوئی ترغیب نہیں
دی۔ بھارت کے مسلمان متحد ہو کر ہی اپنے حقوق کی پاسداری کر سکیں گے۔ ورنہ
ہندو کلچر کا سیلاب انہیں لپیٹ میں لینے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے۔اس کا
کانگریس یا سیکولرازم کے عروج و زوال سے کوئی تعلق نہیں۔کیوں کہ بھارتی
سیاست میں ایشوز کے بجائے فرقہ بندی غلبہ پا رہی ہے۔ |