بھارتی پانی جنگ اور پاکستانی غدار
(Shumaila Javed Bhatti, )
کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو پراجیکٹس کی
تعمیر میں بھارت اسلام آباد کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کے حل
کے لئے ثالثی ماہرین کے انتخاب کے لئے عالمی بینک تک رسائی میں تاخیر کا
براہ راست فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ قومی انڈس واٹر کمیشن نے بھارت کی جانب سے
مقبوضہ کشمیر میں پراجیکٹس کی تعمیر پر سخت اعتراضات اُٹھائے ہیں اور اسے
پانی کے انڈس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کمیشن نے ایک سال
قبل ہی معاملہ کو ثالثی کے لئے عالمی بنک سے رجوع کرنے کا اعلان کیا جو کہ
انڈس معاہدے کی ضامن ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں انڈس واٹر کمیشن نے
اپنا کیس تیار کرلیا ہے مگر حکومت کی طرف سے اس رسائی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
یہ صورتحال بھارت کے لئے موافق جا رہی ہے او ریہ اس غیر معمولی تاخیر کا
فائدہ اٹھا رہا ہے۔ واضح رہے کہ 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ڈیم تعمیر کے آخری
مراحل میں ہے۔ یہ ڈیم دریائے کشن گنگا کے پانی کو دریائے جہلم کے پاور
پلانٹ کی طرف موڑنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ کثیر المقاصد ڈیم مقبوضہ
کشمیر میں نندی پور سے 5کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
850 میگاواٹ کا ریٹل پراجیکٹ دریائے چناب پر واقع ہے اس کی تکمیل میں
تقریباً ایک سال لگے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر بھارت چناب پر اس کے
موجودہ قابل اعتراض ڈیزائن کے مطابق ریٹل ہائیڈرو پراجیکٹ بنا لیتا ہے تو
مرالہ ہیڈ پر دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ میں 40فیصد تک کمی آ جائے گی جو
پاکستان میں پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں ایریگیشن کے لئے تباہ کن ثابت
ہوسکتا ہے۔ حکومت بھارت کے خلاف معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے میں
سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ صورتحال بگلیہاڑ ڈیم جیسی ہو
گئی ہے۔ پاکستان عالمی عدالت میں یہ کیس ہار گئی کیونکہ اس نے عالمی فورم
میں معاملہ بروقت نہیں اُٹھایا۔
حکومت نے اس سے پہلے کشن گنگا اور ریٹل پروجیکٹس کا معاملہ بھی عالمی بنک
کے سامنے لے جانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر تمام صورتحال نے اس وقت حیران کن
موڑ اختیار کرلیا ۔
کہتے ہیں کہ آئندہ جنگیں پانی پر ہونگی۔ پاکستان کی حد تک تو یہ بات بڑی حد
تک ٹھیک ہے کیونکہ ایٹمی و زرعی پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا سامنا ہے۔
بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر سال دو ہائیڈرو پراجیکٹ
مکمل کررہا ہے اور اب تک سندھ طاس معاہدے کے بعد 37 ہائیڈرو منصوبے مکمل
کرچکا ہے جبکہ پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کیلئے 62 ڈیموں کی تعمیر
مختلف مراحل میں ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ
کالاباغ ڈیم کی مخالفت کے پیچھے بھی بھارتی ’’را‘‘ کی فنڈنگ تھی ۔ ماہرین
لگی لپٹی رکھے بغیر بھارتی ڈیموں کی تعمیر پر بروقت اعتراضات نہ اٹھانے اور
کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے نہ ہونے دینے کے پیچھے لابی کو بے نقاب
کرتے رہے ہیں-
ذرائع کے مطابق اگست 2015ء میں یہ معاملہ حکومتی سطح پر التواء کا شکار ہے۔
دونوں ممالک مستقل کمشنرانڈس واٹرز کی سطح پر مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام
رہے جس کے بعد دفتر خارجہ نے تنازع ڈیموں کے ڈیزائن پر ثالثی کے لئے غیر
جانبدار ماہرین کے انتخاب کے لئے بھارت کو خط لکھا مگر اُس نے جواب دینے کی
زحمت تک گوارہ نہیں کی۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ غیر جانبدار ماہرین
مقرر کرنے کے لئے بلاتاخیر عالمی بینک سے رجوع کرتی مگر اس نے 6ماہ گزرنے
کے باوجود ابھی تک کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔
بھارت 2022ء تک مقبوضہ کشمیر میں دریاؤں سے 23ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے
کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ابھی تک بھارت نے 330میگاواٹ کا دلہستی ہائیڈرو پاور
پراجیکٹ، 450میگاواٹ کا بگلیہاڑ پراجیکٹ مکمل کرلیا ہے اور کشن گنگا تکمیل
کے مراحل میں ہے جبکہ ریٹل پراجیکٹ بھی شروع ہو گیا ہے۔ بھارت نے دریائے
نیلم (جو پاکستان میں دریائے جہلم سے ملتاہے) پر بھی یوری I ،یوریII
ہائیڈرو پراجیکٹس مکمل کرلیا ہے۔ اس نے مقبوضہ علاقے میں نیمو بازگو اور
چٹک ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو بھی مکمل کرلیے ہیں۔ پاکستان نے کشن گنگا اور
ریٹل کے علاوہ بھارت میں دریائے چناب میں بنائے جانے والے دوسرے تین
پراجیکٹس پر بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے جن میں پاک دل 1000میگاواٹ، میار
120میگاواٹ اور لوئر کالنائی 48میگاواٹ شامل ہے۔
بھارت دوہری آبی جارحیت کے ذریعے خشک سالی کے دور میں پاکستان کے حصے کا
پانی روک کر اور سیلاب کے دنوں میں مزید پانی چھوڑ کر پاکستان کو صحرا زدہ
اور سیلاب زدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے ہوئے ہے جس سے پاکستان کی
ماحولیات اور زراعت تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ
ہیگ کی عالمی عدالت انصاف نے فروری 2013ء میں جو حکم جاری کیا تھا بھارت
اُس پر عملدرآمد نہیں کررہا۔ عدالت نے کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ سے 24گھنٹے
پانی کے ماحولیاتی بہاؤ کو جاری رکھنے کے لئے 9کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی
چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ بھارتی حکومت کی تجویز 4.25کیوبک میٹر فی سیکنڈ
تھی۔ عدالت نے بھارتی حکومت کی طرف سے فروری 2013ء کے عدالتی حکم کی ازسر
نو تشریح کی درخواست بھی مسترد کردی ۔ تاہم پاکستان کی طرف سے بھارت کی آبی
جارحیت کے خلاف معاملات اور مقدمات مجرمانہ تاخیر سے اٹھائے جاتے ہیں ایسا
لگتا ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کے توڑ پر مامور واٹر کمشنر اور دیگر متعلقہ
افراد کو بھارت پیسے دیکر خرید لیتا ہے۔ مگر ابھی تک پاکستان میں آبی
غداروں کے خلاف مطلوبہ تحقیقات اور قرار واقعی سزا نہیں دی گئی جو کہ وقت
کا تقاضا ہے۔ |
|