آزاد کشمیر انتخابات ، سیاسی نعرے اور کشمیر

حفصہ مسعودی
آزاد کشمیر میں آج کل انتخابات کا موسم ہے اور سیاسی درجہ حرارت بھی آج کل گرمی کی طرح عروج پر ہے۔ بھانت بھانت کی پارٹیز اور ان کے ’نوے نکور ‘ لیڈرز بھی نکل رہے ہیں ، وہیں پرانے آزمائے ہوئے کارتوسوں کی بھی بھرمار ہے۔ لیڈرز اور پارٹیز ایک طرف لیکن جو دلچسپ چیز ہے آزاد کشمیر کی سیاست میں وہ ان کے سیاسی نعرے ہیں۔ جو نہ صرف دلچسپ و مضحکہ خیز ہیں ، بلکہ کئی قسم کے سوالوں کو بھی جنم دیتے ہیں ، ہم کچھ بڑی جماعتوں کے سیاسی نعروں کو زیر بحث لاتے ہیں جو انتخابات میں آتیں ہیں اوراپنے نعروں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

مسلم کانفرنس ریاست کی قدیم ترین اور بڑی سیاسی جماعت ہے ،یہ جماعت ریاست میں خود کو قائداعظم کی جماعت کا جانشین بھی سمجھتی ہے اور اس کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس تادم آخر اسی جماعت کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ یہ جماعت بار بار ’ریاستی تشخص‘ کی بات کرتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگتی ہے ، یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ اس کی زیادہ تر سیاست اسی نعرے پر ہوتی ہے ، دوسری طرف اسی جماعت کے صدر سردار عبدالقیوم خان نے ایکٹ 74ء میں انتخابات لڑنے کے لئے الحاق پاکستان سے وفاداری کا حلف لینے کی شق شامل کروائی اور اسی نے ’کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ‘ بھی دیا۔ یعنی یہ جماعت ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا جائز و لازمی جزو سمجھتی ہے تو یہ ایسا ہوا جیسے کوئی کہے ’ہوں تو میں راجپوت کا سگا بیٹا ، لیکن مجھے گجر ہونے پر فخر ہے ‘، ہے نہ مضحکہ خیز بات۔ اس جماعت کی تاریخ اس کے قول و عمل کے تضادات سے بھری پڑی ہے ، جس کا احاطہ کرنے کے لئے کئی کتب کا مواد مل سکتا ہے تاہم میں ایک واقعہ لکھنا چاہوں گی ضیاالحق کے دور میں آزاد کشمیر میں سردار عبدالقیوم کی حکومت تھی اور ریاست کی حکومت اور اسلام آباد کے درمیاں کچھ چپقلش چل رہی تھی ہمارے ایک بزرگ (جواس زمانے میں سرکاری ملازم تھے) بتاتے ہیں ان سمیت ان کے کئی ساتھیوں کو ضیا الحق کے خلاف ریلی نکالنے کے لئے کوہالہ کی طرف لے جایا گیا۔ یہ سب لوگ رستے میں نعرے لگا رہے تھے ’ڈنگی مچھ تے کانڑیں اکھ ، ضیا الحق ، ضیاالحق‘۔ کوہالہ کے قریب جا کر وہ رفع حاجت کے لئے مجمع سے دور ہو گئے ان کو واپس مجمع تک پہنچتے آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ جب وہ واپس پہنچے تو دیکھا وہ مجمع نعرے لگا رہا ہے ’مرد مومن مرد حق، ضیا الحق ضیاالحق‘۔ کیونکہ لیڈرز اور اسلام آباد کے درمیان مصالحت ہو چکی تھی لہذا اب مرد مومن کو گالیاں دینے کی ضرورت باقی نہ تھی۔ جو جماعت صرف آدھے گھنٹے میں اپنا موقف ایسے تبدیل کر سکتی ہے وہ راجہ ہوتے ہوئے بھی گجر ہونے پر فخر محسوس کر سکتی ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ اسی جماعت کا دوسرا نعرہ ہے ’کشمیر توجہ چاہتا ہے‘ لیکن کس کی توجہ ؟ صاحب یہ جماعت 40 سال تک برسراقتدار رہی ہے اس دوران یہ جماعت خود توجہ نہیں دے پائی تو پھر یہ کس کی توجہ کشمیر کی طرف دلوانا چاہتی ہے ، یہ بھی ایک سوال ہے ۔

دوسری ریاستی جماعت جموں و کشمیر پیپلز پارٹی ہے اس کے بانی سربراہ غازی ملت رہے ہیں اور آج کل اس کی سربراہی غازی ملت کے بیٹے سردار خالد ابراہیم کر رہے ہیں۔ سنا ہے دونوں باپ بیٹا بڑی دبنگ شخصیت کے مالک ہیں ، کچھ تاریخی حقائق ایسے ہیں جن کی بنا پر ان کو دبنگ سمجھنا مشکل ضرور تھا لیکن ہم نے زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھ کے مان لیا کہ کوئی لیڈر ہیں کشمیر کی ایک اچھے رہنما کے لئے ترستی دھرتی کے۔لیکن حال ہی میں ان کا ایک بیان نظر سے گذرا ’کشمیر کاو وٹر ہونے کی بجائے پاکستان کا شناختی کارڈ ہولڈر ہونے کو ترجیح دوں گا ‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو صرف خود کو وفادار باقی سب کو غدار سمجھتے ہیں ۔ جناب پاکستان کے شناختی کارڈ ہمارے پاس بھی ہیں اور آپ کی پاکستان کے ساتھ وفا کے تقاضے اگر ہم عوام سے مختلف ہیں اور آپ کشمیری ووٹر نہیں بننا چاہتے تو آپ کس منہ سے خود کو کشمیری لیڈر کہتے ہیں ؟ یہ سمجھا دیجئے۔ اس جماعت کا نعرہ ہے" پہلے پاکستان پھر کشمیر"پاکستا ن سے محبت تو ہم عوام بھی کرتے ہیں لیکن یہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہیں تو آپ پاکستان کے انتخابات لڑا کیجیئے ناں جناب ۔ آپ بھی خوش اور کشمیر کے عوام بھی خوش۔

پھر وہ جماعتیں ہیں جو پاکستانی جماعتوں کی شا خیں ہیں ان کے نعرے وعدوں کی شکل میں نسبتا معقول ہیں کم از کم کشمیری قوم کا مذاق نہیں اڑاتے لیکن تضادات بہر حال ان میں بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کشمیر کے لئے ہزار سا ل تک لڑیں گے۔ چلیں جی شملہ معاہدہ کو چھوڑیں اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آزاد کشمیر میں 14 سال رہی ہے اس میں کون سی لڑائی لڑی ۔۔؟دکھائی نہیں دی۔ دوسرا نعرہ ہے پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی مسئلہ کشمیر ہے ، پیپلز پارٹی کے رہنما جو خود کو گڑھی خدابخش کا مجاور کہتے ہیں اور کراچی کے چکر بھی لگاتے رہتے ہیں سب کچھ کر لیتے ہیں سوائے مسئلہ کشمیر کی طرف توجہ دینے کے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے جب گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینا شروع کیا اس وقت چوہدری مجید سمیت پیپلز پارٹی والوں نے اپنی رضا اپنی خاموشی کے ذریعے ظاہر کی اور اب گلے پھاڑ کر بیانات دے رہے ہیں۔

سب سے معقول نعرہ سنائی دیتا ہے پی ٹی آئی کا ، کشمیر کے فیصلے کشمیر میں ، لیکن رات کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے برسٹر سلطان محمود پاکستان سے صدر بنا کر آزادکشمیر بھیجے جاتے ہیں تو کشمیریوں سے رائے تک نہیں لی جاتی اور پی ٹی آئی کے پاس جتنی بھی لیڈر شپ ہے وہ درجہ بالا سبھی نعروں کے ساتھ ’وفا‘ نبھا کر آئی ہے ۔ اب دیکھ لیتے ہیں کہ کشمیر کے فیصلے کشمیر میں کیسے ہوتے ہے ؟ ویسے عمران خان کی کتاب کے نقشے میں کشمیر نہیں تھا ، کہیں فیصلہ بھی کوئی ایسا ہی نہ ہو۔
مسلم لیگ ن بھی خود کو قائداعظم کی جماعت کہتی ہے۔ اس جماعت کے ترقیاتی نعرے ہیں مسئلہ کشمیر سے متعلق کوئی نعرہ نہیں ہے (یا مجھے معلوم نہیں ہے) یہ ترقیاتی نعرے لگاتی ہے اور ان کا وہی حال کرتی ہے جو دوسری جماعتیں دوسرے نعروں کا کرتی ہیں ،وہ سوئی گیس کی فراہمی اور ریلوے وغیرہ۔ گزشتہ انتخابات میں کچھ وعدے کشمیر عوام سے بھی ہوئے تھے جس کو زیر بحث نہیں لا رہی لیکن کسی پر بھی کام تک شروع نہیں ہوااوراس جماعت کے آزاد کشمیر کے سربراہ نے حال ہی میں مسئلہ کشمیر کے کسی سیاسی جماعت کے منشور میں شامل نہ ہونے پر افسوس کیا ہے ، اور یہ بھی کہا ہے کہ ان کی جماعت کے منشور میں مسئلہ کشمیر شامل ہوگا۔ خدا کرے کہ یہ جماعت منشور کے مطابق کام بھی کرے ، جس کے آثار کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

پھر ہم سب کی پسندیدہ جماعت اسلامی ہے اس کے نعرے نے بڑا دلچسپ ’یو ٹرن‘ لیا تھا دو دہائیاں قبل دارالسلام سے پاکستان والا اور پھر ان کو دوسرا نعرہ ہے ، آزادی کا رستہ الجہاد ، جہاد کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں مسلمان ہونے کے ناطے ہو ہی نہیں سکتا لیکن جہاد کا جو حشر کشمیر میں ہوا ہے اور جس جس طرح جہاد کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا جہاد صدیوں میں بھی آزادی دلوا سکتا ہے؟

نعرہ ایک زمانے میں عوام کی اجتماعیت کی دلیل تھا ایک اجتماعی مقصد کی طرف اشارہ کرتا تھا ،ایک وعدہ تھا ، اب نعرے صرف شغل کے لئے لگائے جاتے ہیں ، محفلوں کو گرمانے کے لئے ، کسی بھی سیاسی نعرے کا احترام کوئی جماعت کرتی نظر نہیں آتی۔ کیا اس قوم کو نعروں کا مقصد و مدعا سمجھانے کے لئے بھی کسی انقلاب کی ضرورت ہے ؟
Danish Irshad
About the Author: Danish Irshad Read More Articles by Danish Irshad: 5 Articles with 3162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.