اسلام آباد میں کچھ ہونے والا ہے۔ حکومت جا
رہی ہے۔ فوج آ رہی ہے۔ یہ افواہیں اور پروپگنڈہ نئی بات نہیں۔ یہ پانامہ
پیپرز انکشافات تک ہی محدود نہیں۔ پہلے بھی بعض لوگ توقعات وابستہ کئے ہوئے
تھے۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے مارچ، کنٹینر دھرنوں کے موقع پر
بھی فوج کو بلانے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی موقع ملنے پر یہ لوگ باز نہیں آتے۔
یہ فرماتے ہیں کہ ضروری نہیں کہنواز شریف حکومت کو ختم کرنیکے لئے کرپشن ہی
وجہ بنے۔
جنرل راحیل شریف نے جب اپنے 13افسران کو برطرف کر دیا ۔ اس کا مطلب یہ لیا
گیا کہ یہ نوازشریف کے نام صاف پیغام ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔
یہ سوال کئے گئے کہ کیا پاک فوج پانچویں بار ٹیک اوور کرنے کی تیاری کر رہی
ہے۔ جب جنرل صاحب نے سب کا بے لاگ احتساب کی بات کی۔ اس کا مطلب بھی یہی
لیا گیا کہ انھوں نے نوازشریف کو مستعفی ہونے کے لئے کہہ دیا ہے۔ اسے ایک
وارننگ کے طور پر لیا گیا۔ یہی عناصر ہیں جو پی ٹی آئی اور پاک سر زمین
پارٹی کو جی ایچ کیو کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے ایک ٹی وی
خطاب میں فوج کے اخلاقی اتھارٹی پر سوال اٹھایا کہ آیا وہ ملک کے چیف
ایگزیکٹو سے سوال کرنے کا اخلاقی حق رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ
نواز شریف کسی پرکان نہ دھرنے کا رادہ رکھتے ہیں۔
فوج ایک اہم ادارہ ہے۔ ملک کے دفاع، قدرتی آفات، حادثات، نیز امن و قانون
کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوج کو طلب کیا جاتا ہے۔ فوج صرف
سرحدوں کی ہی نگہبان نہیں بلکہ اس کا ملکی مفادات کی پاسداری میں اہم کردار
ہے۔ فوج پر بات کرنا یوں تو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ معاشروں میں
ایسا نہیں ۔ اگر نیت صاف ہو، مقصد اصلاح اور نشاندہی ہو، تنقید برائے تعمیر
کی غرض سے ہر کسی کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ فوج کو سیاست میں دخل اندازی
پر مجبور کیا جا تا رہا ہے۔کبھی کرپشن اور کبھی سیکورٹی رسک کی آڑ میں فوج
کو زبردستی بلایا گیا۔ اس پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ یہ جشن منانے والے
کون تھے۔ سول حکومت کے مخالفین اور اپوزیشن والے وہ لوگ جو کرسی پر اپنا حق
جتاتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لئے اداروں کو استعمال کیا۔ ان کے
کندھوں پر بندوق رکھ کر نشانہ باندھا گیا۔ اپوزیشن جب خود کوئی کردار ادا
نہیں کر سکتی تو وہ بیساکھیوں کا سہارا لیتی ہے۔ یہی لوگ اداروں کو تباہ
کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ریاست کے ادارے اپنے منڈیٹ کے مطابق کام کریں تو
یہ ریاست کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اداروں نے کسی بھی وجہ سے اپنے اختیارات
سے تجاوز کیا یا ان میں کوئی کمی کی۔ اس کا منفی اثر قومی مفادات پر پڑا۔
جمہوریت کو اس لئے پسند کیا جاتا ہے کہ اس میں عوام کے منتخب نمائیندوں کے
ہاتھ باگ دوڑ ہوتی ہے۔ مگر آج یہ جمہوریت بھی آمریت بن رہی ہے۔ پارلیمنٹ
ملک کا انتہائی اہم ادارہ ہے۔ یہاں ملک کے اہم ایشوز زیر بحث لانا انتہائی
ضروری ہے۔ تاگہ سارا ملک باریک بینی سے ایشوز، معاملات کو پرکھے۔ کوتاہیوں
کی نشاندہی ہو۔ یہ سیاسی ریفائنری ہے۔ یہاں تمام فیصلے ہوں۔ مگر آج چند
افراد مل کر ہی حکومت چلاتے ہیں۔ جب کہ پارلیمنٹ ملک کی حکومت چلانے کی ذمہ
دار ہے۔ کابینہ کے بعد بالا دستی اسی ادارے کی ہے۔ سبھی یہاں جوابدہ ہیں۔
صدر، وزیراعظم بھی یہاں سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ مگر یہ اب برائے نام
ہے۔ صدر صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی تحریر پر تقریر کرتے
ہیں۔ یہ ایک علامتی عہدہ بن گیا ہے۔ جب کہ صدر مملکت مسلح افواج کے سپریم
کمانڈر ہوتے ہیں۔
حکومت کو برطرف کرنے کے لئے کئی عوام کارفرما ہوتے ہیں۔ اول، عوامی دباؤ ،
ایجی ٹیشن، دھرنوں ، نافرمانی کی تحریک وغیرہ کے دباؤ سے حکومت ختم کی جا
سکتی ہے۔ اس آپشن کو بھی آزمانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ پی ٹی وی پر
حملہ کر کے یہاں سے حکومت ختم کرنے کا اعلان کرنے کی تھیوری پر عمل ہو رہا
تھا۔ اس صورت میں حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد وسط مدتی انتخابات کا اعلان
کیا جانا تھا۔ دوم، حکومت جانے کے بعد اس کی جگہ قومی حکومت کی تشکیل بھی
ایک امکان تھا۔ قومی حکومت کیسے قائم ہو سکتی ہے جبکہ سب سٹیک ہولڈرز اپنے
مفادات کی بات کرتے ہیں۔ ملکی مفاد بہت کم لوگوں کی ترجیح ہے۔ صرف کرسی اور
اقتدار ہی ان کا مقصد ہے۔ اسی کے لے الائنس بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ سوم،
وزیراعظم نواز شریف مستعفی ہو جاتے اور ان کی جگہ ن لیگ کا ہی کوئی رہنما
وزیراعظم بن جاتا۔ الزامات کے درست یا غلط ثابت ہونے پر ہی آئیندہ کا لائحہ
عمل طے کیا جاتا۔ چہارم، آخری امکان فوج آنے کا تھا، مارشل لاء۔
اس وقت وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان پالیسی سازی میں ہم آہنگی پائی
جاتی ہے۔ لیکن ملک دشمن دو شریفوں کو ایک ساتھ رکھنے کے روادار نہیں۔ جب کہ
یہ دو ایک میان میں دو تلواریں یا ایک جنگل میں دو شیر بھی نہیں۔اگر چہ
پرویز مشرف نے نوازشریف کو دوسر ے دور میں بر طرف کیا۔ ان پر کرپشن کے
الزامات لگائے گئے ۔ نیب بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت
واپس لائی جائے۔ انہیں چونکہ اس وقت سیاسی پارٹنرز کی ضرورت تھی۔ یہ سب کے
سب لوگ کرپشن سے پاک نہ تھے۔ ان کا نعرہ وہیں رہا اور شریف فیملی کو ملک
بدر کر دیا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی اور کرپشن میں تعلق کو
جوڑدیا ہے۔ کراچی آپریشن میں اسی پر کام کیا جا رہا ہے۔ جہاں سیاستدانوں کی
بھی پرائیویٹ ملیشیا ز سرگرم رہی ہیں۔ دہشت گردی ختم کرنے کے ساتھ کرپشن کا
خاتمہ ضروری ہے۔ سول حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے ساتھ کر رہی
ہے۔ فوج کو اس سلسلے میں وافر فنڈز درکار ہیں۔ امریکہ اس جنگ کو ادھوری
چھوڑ کر فرار ہو چکا ہے۔ پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بجائے جنگی ٹیکنالوجی، میزائل ڈیفنس سسٹم اور
دیگر سٹریٹجک دفاعی نظام سے بھارت کو لیس کیا جا رہا ہے۔ گوادر کے مقابلے
میں چاہ بہار بندرگاہ تعمیر کرنے کے لئے ایران، افغانستان اور بھارت کی سر
پرستی کی جا رہی ہے۔ بھارت کو پکی دوستی کا یقین دلانے کے لئے پاک افغان
سرحد پر اٖفغان فوج اور امریکی ڈرون پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کو للکار
رہے ہیں۔ ملا منصور کو ڈرون حملے کا نشانہ بنا کر پاکستان کی خودمختاری کو
چیلنج کیا گیا اور سرحدی خلاف ورزی کی گئی ۔امریکہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر
رہا ہے کہ اس نے اس حملے سے قبل سول حکومت کو اعتماد میں لیا تھا۔ امریکہ
سول اور فوج میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔
ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے
مل کر مضبوط ریاست کے مفاد کے لئے کام کریں گے۔ دشمنوں کے عزائم کو کبھی
کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملک دشمنوں کے اشتعال دلانے پر کمزور جمہوریت کو
ڈی ریل نہ ہونے دیا جائے گا۔ تا ہم وزیراعظم نواز شریف عندیہ دیتے ہیں کہ
ملک کے دفاع، معیشت، خارجہ پالیسی، ضرب عضب، تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں
سب کے ساتھ مشاورت ہو گی۔ ہو سکتا ہے بلوچستان میں ڈرون حملے پربھی
پارلیمنٹ میں بحث کرنے پر غور کیا جائے۔ اسلام آباد میں ابھی کچھ ہونے کا
کوئی امکان نہیں۔ ملکی تعمیر و ترقی میں سب ادارے مل کر کام کریں تو ملک
دشمن ناکام ہو جائیں گے۔ |