یوم تکبیر اور ہماری ذمہ داری
(Muhammad Abdullah, Lahore)
|
میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ قیام پاکستان
ایک معجزہ تھا جبکہ میرا مؤقف یہ کہ قیام پاکستان سے لے کر پاکستان کا اپنے
وجود پر قائم رہنا اور پھر آج پاکستان کا اقوام عالم میں قائدانہ کردار یہ
ساری تاریخ کا اک اک صفحہ ہی معجزات سے بھرا پڑا ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا
تو چانکیہ کوٹلیہ کے جانشینوں نے کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی ایک کٹا
پھٹا پاکستان دیا ہے جو چند دن بھی قائم نہیں رہ سکے گا اور یہ ہمارے پاس
واپس آئیں گے کہ ہمیں اپنے ساتھ شامل کر لو۔ ایک طرف تو وہ یہ خواب دیکھنے
میں مگن تھے جب کہ دوسری طرٖف اس نومولود ملک پر جنگ بھی مسلظ کیے بیٹھے
تھے۔ کیفیت اس وقت یہ تھی کہ پاکستان جس کے پاس نہ انڈسٹری تھی نہ کوئی
انتظامی ڈھانچہ تھا، اپنے ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہ تک نہ تھی۔ ان
حالات میں کٹے پھٹے پاکستان نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور زمانے کی سرد گرم
ہواؤں کو برداشت کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ 65ء مین ایک بار پھر اس
پاکستان کی آزمائش کا فیصلہ ہوا۔ بھارت نے چوروں کی طرح رات کے اندیھرے مین
پاکستان کو ہڑپ کر جانا چاہا مگر فرزندان توحید کے جزبہ جہاد کے سامنے منہ
کی کھائی اور وہ جو چند گھنٹوں میں پاکستان کو فتح کرنے آئے تھے 17 دن کی
جنگ میں اپنا جنگی سازوسامان چھوڑ کر اور اپنے بیشتر علاقے ماپستان فوج کے
ہاتھوں مقبوضہ کروا کر دھوتیاں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کو
ایک بار آزمائش کی بھتی مین سے گزنا پڑتا ہے کہ آیا یہ امت مسلمہ کے کسی
کام بھی آسکتا ہے کہ نہیں اور وہ عرب اسرائیل جنگ تھی جس میں پاکستان کی
فضائیہ اسرئیلی تیارون کو مار گراتی ہے۔ اس سے قبل لیبیا، انڈونیشیا وگیرہ
کی تحریک آزادی کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کر چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد
کچھ اپنوں کی بے وفائیوں اور غیروں کی سازشون کے نتیجے مین ہمیں ٹھوکر لگتی
ہے ہمارا مشرقی بازو کت کر علیحدہ ہوجاتا ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے بہت بڑا
جھٹکا تھا کہ تم جن کامون مین پڑ گئے تمہاری تھلیق کا مقصد یہ نہیں تھا تم
تو لا الہ الا اللہ کی حکمرانی پوری دنیا پر قائم کرنے کے وعدے پر تحلیق
کیے گئے تھے سیدھے ہو جاؤ، صراط مستقیم پر آجاؤ۔ ارباب اقتدار اس اشارے کو
سمجھتے ہیں اپنے قبلہ کا از سر نو تعین کرتے ہیں۔ دوسری طرف کیفیت یہ تھی
کہ پاکستان کی غفلت کے سبب عالمی استعمار اس خطے مٰیں ہمارے ازلی دشمن
بھارت کو چودھری بنا کر ہمارے سر پر مسلط کرنے کا دھرپے تھا۔ بھارت ایٹمی
تیکنالوجی حاصل کر چکا تھا اور وہ پاکستان کو دن رات دھمکا رہا تھا، کشمیر
کو پلیت میں رکھ کر پیش کرنے کہ مطالبے کر رہا تھا، بڑے کٹھن حالات تھے
پاکستانی بے چارے سہمے سہمے سے پھرتے تھے کہ اب ہوگا کیا ؟ اب بنے گا کیا؟۔
ان حالات میں کاتب تقدیر کو پاکستانیوں کی حالت زار پر رحم آیا اور کچھ
دوستوں کی مہربانیوں کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے 28 مئی 1998ء کو
پاکستان کو ایٹمی قوت سے نوازا۔ ہم اس سے بہت پہلے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکے
تھے اور کسی مناسب موقع کی آڑ میں تھے اور وہ موقع اس طرح سے میسر آئا کہ
سرخ ریچھ روس پاکستان کی رال پاکستان کے گرم پانیوں کی طرف للچانے لگی تھی۔
وہ افغانستان تک در آیا تھا۔ اور یہ وہ وقت تھا کہ پوری دنیا مل کر بھی روس
کا مقابلہ کرنے سے ڈرتی تھی۔ روس جس ملک پر چاہتا قبضہ کر لیتا، امریکہ اور
اس کے حواری چپ چاپ منہ دیکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب روس پاکستان براستہ
افغانستان کی طرف متوجہ ہوا تو ساری دنیا سمجھ رہی تھی کہ اب پاکستان نہین
بچے گا، یہ تو چند دنوں کی گیم ہے۔ خود پاکستان کے اندر سے کچھ بدبخت سرخ
فیتے اٹھائے روس کے استقبال کے لیے پاکستان کی سڑکوں پر کھڑے تھے۔ مگر اس
وقت پاکستان کے عالی دماغوں نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ کیا کہ دنیا ششدر رہ
گئی۔ کوئی ان کو دیوانہ اور کوئی پاگل کہہ رہا تھا۔ دنیا سمجھتی تھی کہ
پروس کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے مگر پاکستان نے یہ بازی کھیلنے کہ فیصلہ کر
لیا کہ روس کے قدموں کو افغانستان میں ہی روک کر اپنے افغانی بھائیوں کی
مدد کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ دنیا اس انتظار میں بیٹھی تھی کہ ہم چند
دنوں میں پاکستان میں روسی ٹینکوں کو دندناتا دیکھیں گے مگر یہ کیا دنیا کی
سب سے ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بڑی فوج رکھنے والا ملک اللہ کے بندوں کے
سامنے بے بس ہو چکا تھا۔ یہ اللہ کی واضح مدد کے نطارے تھے کے ٹیکنالوجی کا
مقابلہ جزبہ جہاد کے ساتھ تھا۔ پھر تاریخ نے دیوار برلن کے ٹکرے ہوتے بھی
دیکھے، وسطی ایشیائی ریاستوں کی آزادی بھی دیکھی۔ اس سارے عمل کے دوران
پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے عمل پیرا رہا اور جب دیکھا کہ دنیا
پکستان سے کچھ اور ہی مطالبہ کر رہی ہے اور بھارت کی چیرہ دستیاں بھی بڑھتی
جاریی ہیں اور اوپر سے بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے باقاعدہ پاکستان پر
غرانا شروع کر دیا ہے تو عین اس وقت پاکستان اکھاڑے میں اترا اور چاگی کے
مقام پر زبردست دھماکے کر کے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام
دیا کہ پم مسلمان اللہ اکبر کے قائل ہیں ہم صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔
اس لیے ہمیں اپنے سامنے جھکانے کا خواب دیکھنا چھوڑ دو نہیں تو پاکستان بھی
اب منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان کے ان ایٹمی
دھماکوں پر پوری دنیا کو سانپ سونگھ گیا، جس دن پاکستان نے ایٹمی دھماکے
کیے اس دن پورے عالم اسلام میں جشن منایا گیا کہ اب ہم بھی دنیا میں سر
اٹھا کر جینے کہ قابل ہو گئے، اب امت مسلمہ کی حفاظت کا انتظام بھی ہو گیا
یہی وجہ ہے کہ اس بم کا نام اسلامی بم رکھا گیا۔ اس کے بعد نائن الیون ہوتا
ہے امریکہ اپنے سارے حواریوں کے ساتھ ہمارے ہمسائے میں آن موجود ہوتا ہے۔
اب پاکستان کے سامنے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بچانا بھی مقصود
تھا کیونکہ ہم براہ راست جنگ کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس لیے ڈبل گیم
کھیلنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ سارے حالات و واقعات ہمارے سامنے کے ہیں میں ان کی
تفصیل میں نہیں جاتا۔ قصہ مختصر پاکستان ایک طرف امریکہ کا فرنٹ لائن
اتحادی بھی تھا اور دوسری طرف افغانستان کے فریڈم فائٹرز کا سب سے بڑا
پشتیبان بھی تھا۔ نتیجتا" اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور امریکہ کو بھی
اپنے پیشرو روس کی طرھ منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اور اس کے سارے حواری ایک ایک
کر کے دم دبا کر افغانستان سے بھاگتے ہیں اور خود امریکہ بھی اس دلدل سے
نکلنا چاہتا ہے مگر اس دفعہ پاکستان اس کو محفوظ راستہ دینے کے لیے تیار
نہیں ہے۔ امریکہ پہلے بی افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو
سمجھتا ہے اور اب جب اس کو واپسی کا رستہ نہیں ملتا تو کھسیانی بلی کھمبا
نوچے کے مصداق وہ پاکستان کو سبق سکھانے کی کوشش کرتا ہے اس کے لئے بھارت
کو ساتھ ملا کر ایک طرف تو سرحدوں پر دباؤ بڑھایا جارہا تھا تو دوسری طرف
پاکستان کے اندر اپنے زرخرید غلاموں (جہنم کے کتوں) کے ذریعے امن و امان کی
فضا کو خراب کرنے کی بھرپور کوششیں کی جاتیں ہیں۔ خودکش دھمکوں اور فوجی
اور عسکری ادروں پر حملوں کا لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی میں
سوچتا ہوں کہ یہ کیسا ملک ہے کہ اتنے کٹھن حالات میں بھی گھبراتا اور
پریشان نہیں ہوتا اگر اس کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو کب کے اس کے اعساب
جواب دے جاتے اور وہ پاؤں میں گر کر معافی مانگ رہا ہوتا مگر پاکستان
پہلوان کی طرح بازو اٹھائے اکھاڑے میں کھڑا ہے اور اس کے اعصاب بھی پر سکون
ہیں۔ پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ اس وقت کسی سے الجھنا نہین چاہتا کیونکہ
وہ اس وقت دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے اقتصادی راہداری کو پایہ
تکمیل تک پہنچانے کے بالکل قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بغیر کسی سے
الجھے اپنی عسکری ،ایٹمی اور فوجی استعداد کو بڑھاتا ہوا اپنے اصل مشن پر
گامزن ہے۔ اس لیے ملک کے اندر صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ دشمنوں کے پورے
پورے نیٹ ورکس پکڑے اور بے نقاب کیے جاتے ہین پاکستان کو دہشت گردوں اور
جہنم کے کتوں (خارجیوں) سے پاک کیا جاتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ کسی جنگل میں
شیر نے کسی وجہ سے شکار کرنا چھوڑ دیا تو جنگل کے آوارہ کتوں نے پر پرزے
نکالنے شروع کر دیے کہ شائد شیر بوڑھا ہو گیا ہے اور اب شکار کے قابل نہیں
رہا۔ یہی حال پاکستان کا ہے کہ ہم نے کسی سے الجھنا چھوڑا تو ان امریکہ و
بھارت جیسے آوارہ کتوں نے کچھ اور ہی سمجھ لیا اور پاکستان کے خلاف کولڈ
سٹارٹ ڈاکٹرائن اور ڈرون حملوں وغیرہ کا سلسلہ شروع کرنے کی کوششیں کی
جارہی ہیں۔ آج یوم تکبیر ہے تو اس کی مناسبت سے ہم پوری دنیا کو یہ پیغام
دینا چاہتے ہیں کہ یوم تکبیر دراصل یوم بقاء ہے، یوم استحکام ہے، یوم وفا
ہے، یوم تجدید سلامتی ہے، یوم فتح ہے اور یوم یکجہتی ہے۔ مسلمان جب بھی
میدان کارزار میں اترتا ہے تو نعرہ تکبیر بلند کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی
کبریائی بیان کرنا اور لوگوں سے منوانا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ اور ہم
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے بالک تیار کھرے ہیں۔ ایسے میں ہماری سیاسی
قیادت کو بھی چاییے کہ وہ امریکہ اور بھارت سے دوستی کی امید چھوڑیں۔
پاکستان میں جو طبقہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہونے پر بڑا بے
چین ہے ان کو بھی یہ بات سمجھ لینی چایئے کہ ہمارا رب امریکہ نہین اللہ ہے
اگر امریکہ مدد نہین دے گا اور اور ناراض ہو کر ایف سولہ طیارے نہیں دے گا
تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں امریکہ کی دوستی کی غرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں
اس کی دشمنی کے لیے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ تاریخ شاہد ہےکہ امریکہ
اپنے دوستوں کو ہمیشہ نقصان پہنچاتا آیا ہے اور وہ اپنے دشمنوں کا کچھ بھی
نہیں بگاڑ سکا۔ اس لیے ہمیں امریکی امداد کی بجائے اللہ کی مدد کی امید
رکھنی چاہئے کیونکہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی |
|