مُحترم قارئین السلامُ علیکم
ماشاءَاللہ ہماری ویب کے فیچر کالمز کے توسط سے قارئین کی معلومات میں خوب
اضافہ ہورہا ہے مورخہ 26 جون 2010 کے فیچر کالم بنام( ضلع چاغی٬ پاکستان
میں سونے کی وادی) میں بتایا گیا کہ چاغی، قیمتی معدنیات کے لحاظ سے دُنیا
بھر میں قیمتی معدنیات کے خزانوں کے حوالے سے اہم ترین پٹی ہے جس کی وجہ سے
اگر اِسے سونے کی وادی کے نام سے موسوم کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
اس قسم کے معدنی خزانوں سے ہماری پاک سر زمین لبریز ضرور ہے کہیں کوئلے کی
عظیم ترین کانیں دریافت ہو رہی ہیں تو کہیں گیس کے قیمتی ذخائر موجود ہیں
نہ پٹرول کی کمی ہے نہ ہی دوسری معدنیات کے حوالے سے ہم کسی کے مُحتاج ہیں
دُنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اسی پاک سرزمین میں موجود ہے تو اجناس کے
حوالے سے بھی ہم اقوام عالم میں ایک مُقام رکھتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ
دُنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والی قوم بجلی میں خُود کفیل نہیں بے
شُمار پٹرول اور گیس کے ذخائر ہونے کے باوجود ہم آج بھی عرب عمارات سے اپنی
ضروریات پوری کرنے کیلئے مُحتاج ہیں ہمارا مُلک دُنیا میں زرعی مُلک کے
حوالے سے پِہچانا جاتا ہے لیکن عوام چینی اور دالوں کیلئے ترس رہے ہیں۔
ہمارے پاس اسٹیل مِل ہے لاکھوں چھوٹے بڑے صنعتی یونٹ ہیں لیکن لوگ بے
روزگاری سے تنگ آکر خُود کُشیاں کر رہے ہیں وجہ صاف ہے کہ جو معدینات کے
خزانے ہمارے پاس موجود ہیں اس کے ثمرات تحقیق کے نام پر امریکہ یورپ اور
دیگر اقوام ہم سے زیادہ پارہی ہیں اور وجہ صرف یہ ہے کہ یہ قیمتی خزانے ہیں
تو ہماری زمین میں لیکن ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب ہم اس سے بھرپور استفادہ
حاصل نہیں کرپاتے اور جو کچھ پاکستان کے حصے میں آتا ہے اُسکا بیشتر حصہ
بھی کمیشن کی صورت میں بیوروکریٹ کی جیبوں میں چلا جاتا ہے اور باقی جو کچھ
بَچتا ہے اُسکا کافی بڑا حصہ کرپٹ سیاستدانوں کی جیب میں چلا جاتا ہے کوئی
سوئس اکاونٹ بھرنے میں مصروف ہے تو کوئی امریکہ میں اپنا مستقبل محفوظ بنا
رہا ہے کسی کی دولت دُبئی میں محفوظ ہے تو کوئی بے دھڑک پاکستان میں اپنی
جائیدادوں میں اضافہ کر رہا ہے ڈاکٹر عطا الرحمن نے چند دِن قبل اپنے ٹی وی
انٹرویو میں بجا فرمایا تھا کہ جہاں ہندوستانی وزراء دوسرے ممالک میں جاکر
جدید ٹیکنالوجیز مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف ہمارے وزراء وہاں اپنے کشکول
میں بھیک سمیٹ رہے ہوتے ہیں اور یہ بھیک بھی قارئین کرام عوام کی بھوک
مِٹانے کیلئے حاصل نہیں کی جاتی بلکہ اپنے پیاروں اور دُلاروں کے عیش اور
آرام کی خاطر طلب کی جاتی ہے۔
ہماری تقریباً تمام معدنیات کا 50 فی صد حصہ ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب
گوروں کے خزانے میں پُہنچ جاتا ہے جب تک ہمارے سیاستدان تعلیم یافتہ،
باکردار، اور متوسط طبقوں سے نہیں آئیں گے ہم ٹیکنالوجی میں دُنیا سے پیچھے
ہی رہیں گے کیونکہ یہ 2 فی صد اشرافیہ کا طبقہ کبھی بھی ہمیں تعلیم کے
میدان میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم نہیں کرے گا ہم کبھی اپنی زندگیوں کے
فیصلے نہیں کر پائیں گے اور نہ ہی یہ ہماری آوازوں کو اپنے آقاؤں تک
پُہنچنے دیں گے جسکے سبب ہم پر ڈرون حملے ٹائپ کا عذاب مسلط ہے، غربت کا
عذاب مسلط ہے ، بے روزگاری کا عذاب مسلط ہے جہالت کا عذاب مسلط ہے۔
اور سچ پوچھیے تو ہم اس عذاب کے مستحق بھی ہیں کہ 60 برس سے ہم اِنہی
ظالموں کو چُن کر پارلیمنٹ میں پُہنچا رہے ہیں جنہوں نے ہمارے جسموں سے
تمام لہو چُوس کر اپنے پَنجُوں اور دانتوں کو تقویت دی ہے ہم گُزشتہ 60
برسوں سے عصبیت، قومیت، علاقائیت، کے نام پر جذباتی نعروں کا شکار ہورہے
ہیں اور ماضی سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں مجھے آج جدہ ایئرپورٹ پر ملنے
والا وہ پٹھان مزدور یاد آرہا ہے جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمارے جمہوری
نظام سے تو سعودیہ کا بادشاھی نظام ہی اچھا ہے کہ اِنکا پیٹ کھا کھا کر بھر
گیا ہے اور اب یہ عوام کو بھی کھانے دے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں ایک پارٹی
کا پیٹ بھرتا نہیں کہ دوسری بھوکی پارٹی عوام کے خُون پَسینے سے جمع خَزانے
کو لوٹنے کیلئے آجاتی ہے یہ تو ایسا ہی کھیل ہے جیسے لوگ میوزیکل چیئر کے
گرد گھومتے ہوئے کھیلتے ہیں۔
مجھے نہ سیاست کی سمجھ ہے نہ سیاستدانوں کی لیکن اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ
یہ وہ رہنما نہیں جو ہمیں منجدھار سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہمیں
چہروں کی تبدیلی کی ضرورت نہیں نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے ایسے رہنماؤں کی
ضرورت ہے جو ہم میں سے ہوں جو غربت میں پروان چَڑھے ہوں جنہوں نے علم ایئر
کنڈیشنر کمروں کے بجائے تپتی دھوپ میں حاصل کیا ہو جن کے آئیڈئل کارل مارکس،
بُش، یا ٹونی بلئیر نہ ہوں بلکہ طارق بن زیاد اور محمود غزنوی(رَحمُ اللہِ
اجمعین) ہوں۔
جنہیں اسلام سے مُحبت ہو مسلمانوں سے پیار ہو جِن میں قوم کیلئے کچھ کرنے
کا جذبہ ہو جنہیں اپنے اکاؤنٹ سے زیادہ اپنا نام تاریخ میں امر کرنے کی
خواہش ہو جو نظام مُصطفیٰ کے نَفاذ کو پاکستانیوں کی پریشانیوں کا حل
سمجھتے ہوں۔ اب ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خُود کرنا ہوگا کہ شاعر مشرق
علامہ اقبال (علیہ الرحمہ ) کی روح آج پھر ہم سے مُخاطب ہے
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خُود اپنی حالت بدلنے کا |