پانی کی کمی کا رونا روتے ہیں
ڈیم بنانے کو تیار نہیں۔ بجلی کے شدید بحران کو بھگت رہے ہیں بجلی چوروں کو
پکڑنے کو تیار نہیں۔ قرض پر قرض لیے جا رہے ہیں دولت لوٹنے والوں کو پکڑنے
کو تیار نہیں۔ اسلحہ مہنگے ترین قیمتوں میں خریدتے ہیں کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔
بینکوں سے قرض لے کر کھا جاؤ پھر معاف کرا لو کوئی پروا نہیں۔
حکومتی عہدوں کی آڑ میں بے شمار مراعات حاصل کرتے جاؤ کوئی پوچھ گچھ نہیں۔
صوابدیدی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے جاؤ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بے
ضمیر لوگوں کی پشت پناہی کرتے جاؤ کوئی ضابطہ اخلاق نہیں۔
ہمارے ہاں کی تو چھوڑیں اب تو فرانسیسی بھی پاکستان کو بیچی گئی آبدوزوں کی
سودے میں کمیشن لینے کے چرچے کرتے نظر آتے ہیں اور اس میں موجودہ صدر
سرکوزی کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں فرانسیسی ماہرین کو دھماکے
میں ہلاکت بھی کمیشن میں اختلافات کے باعث ہونے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
یہ تو اندرونی صورت حال اب بیرونی صورت حال بھی دیکھیں۔
ہمارے حکومتی اہلکار جب بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو بالکل بادشاہوں کا
سا طرز اختیار کر جاتے ہیں۔ انکی رہائش انکی شاپنگ انکی ٹپیں دیکھ کر کوئی
نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس ملک کے لوگ ہیں جو قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور قسط
ادا کرنے کے لئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔
غیر ملکی کمپنیاں ان پر مکھی کی طرح ٹوٹ پڑتی ہیں کہ یہ لوگ دولت کی لالچ
میں انکا کچرا بھی سونے کے بھاؤ خرید سکتے ہیں۔ جیسے غیر ملکی کمپنیوں سے
مہنگے نرخ پر بجلی خریدنے کے معاہدے کئے اور دوسری حکومت کی ان کمپنیوں پر
سختی آپ کو بجلی کے بحرانوں کی طرف لے گئی۔
ایسی ہی بے شمار غلط روایات ہمیں بربادیوں کی طرف لے گئی ہیں۔ حکومت غریب
اور افراد امیر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بس اب یہ سلسلہ رک جانا چاہیے۔
ورنہ عوام کا غیظ و غضب سب کچھ ہاتھ میں لے کر از خود منصف بن جائے گا۔
عوام اب عدلیہ کی جانب نظر کئے اس کی کارکردگی جانچ رہے ہیں۔ ورنہ اگر اسے
بحال کرا سکتے ہیں تو اسے معطل بھی کر سکتے ہیں۔
عدلیہ لٹیروں اور قرض معاف کرانے والوں کا فیصلہ کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ تا
کہ لوگوں میں عدلیہ پر اعتماد بحال ہو۔
ایک اور اطلاع جو آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروجیکٹ اور حکومت پاکستان کے مشترکہ منصوبے کے
نینل پروجیکٹ مینیجر ڈاکٹر عبدالمجید نے پریس کانفرنس میں بتایا کی پاکستان
میں اگر پانی کی کمی ہو تو 30 دن کے آبی زخائر ہیں انڈیا میں 120-200 دن کا
زخیرہ ہے۔ امریکہ میں 900 دن جبکہ مصر میں 1000 دن تک کے آبی زخائر ہیں۔
بھارت اب تک 4291 بڑے ڈیم تعمیر کر چکا اور 676 ڈیم زیر تعمیرہیں۔
تربیلا اور چشمہ بیراج میں 18 ملین ایکڑ فٹ پانی زخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔
اسکردو ڈیم میں 9 ملین ایکڑ فٹ پانی زخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ جبکہ 40 ملین
کیوبک فٹ پانی ضائع ہو کر سمندر کی نظر ہو جاتا ہے۔
یہ تو تھی پریس کانفرنس کی رپورٹ ۔ اب یہاں چند بہت انتہائی اہم اور مشکل
سوال ذہن میں اٹھتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ سے بھارت کو دریاؤں پر کنٹرول ملا۔
آخر کس طرح ہندوستان دریاؤں پر بند باندھنے پر کمر بستہ ہوا اور ہم ایک
کالا باغ ڈیم بننے اور نہ بننے کی سیاست میں لگے رہ گئے۔
ڈیم صرف پانی ہی زخیرہ نہیں کرتا بلکہ سستی بجلی کی ترسیل میں بھی معاون
ہوتا ہے۔ اور ہم ان دونوں ہی نعمتوں سے محروم ہیں۔ بجلی کے بحران سے ہماری
صنعتیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں بلکہ بیروزگاری کی شرح میں اضافے کا باعث
بھی ہے۔ اب تو اقوام متحدہ کے نمائندے بھی یہ کہتے ہیں کہ ڈیم بناؤ۔
ہم کیوں روائتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنے
پاؤں پر کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ پچھلے تیس سال سے یہی بحث جاری ہے کہ ڈیم
بنائیں یا نہ بنائیں۔
مخالفت برائے مخالفت کی روایات چھوڑیں ملکی مفادات اور اہمیت کے منصوبوں کا
اجرا کر کے آئندہ کے مسائل سے عہدہ براء ہونے کی روایات ڈالیں۔
الله ہم سب کو ہدایت دے۔ |