محسن کُشی!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
24مئی 16ء کو انہیں اس جہانِ فانی سے کوچ
کئے نصف صدی ہوگئی۔ والی ریاست بہاولپور نواب سر صادق محمد خان خامس کو
اپنے حُسنِ کردار کی وجہ سے ’’محسنِ پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے
اخبارات کا جائزہ لیا، ٹی وی چینلز پر نگاہ رکھی، مگر اِکا دُکا چینلز نے
بمشکل چند لمحے اس خبر کو اپنے ناظرین کو دکھانا پسند کیا۔ اخبارات دیکھے
تو چند بیانات دے کر شہیدوں میں نام لکھوانے والوں کے علاوہ کوئی خاص
سرگرمی دکھائی نہ دی۔ شہر کی جانب دیکھا، تو اسلامیہ یونیورسٹی اور آرٹ
کونسل کی تقریبات کے علاوہ کسی نے اپنے محسن کو یاد نہ کیا۔ اسلامیہ
یونیورسٹی کا غلام محمد گھوٹوی ہال کبھی بہاول پور کا اسمبلی ہال بھی رہا
تھا، اس لئے وہاں تقریب بنتی تھی۔ ایک آدھ کالم شائع ہوا اور ایسے ہی ایک
آدھ رپورٹ۔ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کی مالی حالت سے کون واقف نہیں،
ویران دفاتر، وسائل سے تہی دست، کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات کاغذات کو آپس
میں نتھی کرنے کے لئے پِن بھی دستیاب نہ ہوتی تھی، ایسے میں کانٹوں سے کام
لیا جاتا تھا، جہاں کامن پن نہ ہوگی، وہاں کاغذ کی دستیابی اور دیگر فرنیچر
کا کیا عالم ہوگا؟ ایسے میں نواب بہاول پور نے پورے پاکستان کے سرکاری
ملازمین کی تنخواہوں کا بندوبست کیا۔ قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل پاکستان
تشریف لائے تو جس گاڑی پر وہ حلف برداری کی تقریب کے لئے گورنر جنرل ہاؤس
پہنچے وہ بھی نواب صادق خان عباسی کی ہی تھی۔ کراچی میں انہوں نے قائداعظم
اور بعد ازاں محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا محل پیش کردیا تھا۔
یہ ہندوستان کی ریاستوں کے واحد نواب تھے جن کے پاس جنرل کا عہدہ تھا اور
فوجی اعزازات بھی تھے ۔یوں وہ پیش ورانہ کمانڈر بھی تھے ۔ انہوں نے بلوچ
رجمنٹ کے نام سے ایک ڈویثر ن فوج کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں پاکستان کی فوج
میں ضم ہوئی اورجو اپنی شناخت ابھی تک قائم رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح بعد ازاں
انہوں نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے ڈیزرٹ رینجرز کی تشکیل دی ۔سر صادق خان کا
دور اقتدار 31سال پر محیط ہے اس دوران نظم و نسق کا خوب نظام موجودتھا ۔
تعلیمی نظام ، جوڈشنری ڈھانچہ ، اکاؤنٹنٹ جنرل ، اپنا ڈاک سسٹم قائم کیا
گیا ۔حکومتی مشینری چلانے کے لیے اپنے کسی رشتہ دار کو عہدہ نہ دیا بلکہ
اہلیت کی بنیاد پر ذمہ داری دی گئی۔ احتساب کا نظام موجود تھا ۔عوامی شکایت
سننے کے لیے دربار کا اہتمام کیا جاتا ۔ مذہبی رواداری بھی موجو دتھی
۔13فیصد ہندو ،سکھوں کو تمام بنیادی حقوق میسر تھے ۔ لیفٹینٹ کرنل محمو
دکرمانی کو برطانیہ نے فوجی اعزازت سے نوازا تھا ۔لیکن جب انہوں نے تقسیم
ہند کے وقت ہندو اور سکھوں کے قافلے پر قاتلانہ حملہ کرایا اور عورتوں کو
مال غنیمت کے طور پر تقسیم کرایا تو اس پر نواب نے ان کو سزا دی ۔بہاولپور
ریاست سے اڑھائی لاکھ ہندو اور سکھوں کا انخلا ہوا تھا تو ان کے مقابلے میں
نو لاکھ مہاجرین کو آباد کیا گیا۔ جو مال و اسباب ہندو ، سکھ چھوڑ کر گئے
تھے ان پر مقامی آبادی کو قبضہ نہیں کرنے دیا بلکہ ان کو مہاجرین کے اندر
تقسیم کیا گیا ۔ ۔اسلامی ریاست کو سرسبز بنانے کے لیے ستلج ویلی معاہدہ ہوا
جس کے لیے 12کروڑ روپے کا قرض لیا گیا ۔جس کو1986تک ادا کرنا تھا ۔لیکن اس
قرضہ کو 25سال قبل 1950میں واپس کردیا ۔ 1927سے 1951تک بہاولپور ریاست کا
دفاعی بجٹ ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا جو 1952-53میں صوبہ سرحد
کے سالانہ بجٹ کے برابر تھا ۔
نواب سر صادق خان نے متعدد رفاہی اداروں کی بنیاد رکھی ۔ ان اداروں کی
متعدد عمارتیں آج بھی شاہکار ہیں ۔ جامع مسجد الصادق بنائی ۔ سعودیہ عرب
میں حاجیوں کے لیے رہائش گاہیں بنائی گئیں ۔ جامعۃ الاالزہر کی طرز پر
جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی ۔ عباسیہ سکول ، ڈیرہ نواب ہائی سکول ، صادق
وویمن کالج ، صادق گرلز ہائی سکول تعلیمی اداروں کی بنایاد رکھی ۔ ان کے
علاوہ بہاولپور کو یہ اعزاز حاصل تھاکہ مختلف شہروں میں 12رفاہی اداروں کی
معاونت کی جاتی تھی ۔ پیرا میڈیکل سکول بنایا گیا ، ریاست میں تعلیم کو
لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ہر مسجد کو سکول بنادیا گیا،خوبصورت عمارت پر مبنی
سنٹرل لائبری بنائی گئی۔ ڈرنگ اسٹیڈیم ،چڑیا گھر بنائے گئے۔ ہندوستان میں
موجود 600ریاستوں میں سے بہاولپور واحد اسلامی ریاست تھی جس نے سب سے پہلے
پاکستان میں نہ صرف شامل ہونے کا اعلان کیا بلکہ لاکھوں مہاجرین کوآباد
کیا۔بہاول پور میں نواب دور کی پُر شکوہ تعلیمی اداروں سمیت دیگر عمارتیں
عوام کو حسرت سے دیکھتی اور اپنے محسن کو بھلا دینے پر زبانِ حال سے افسوس
کر رہی ہیں۔ |
|