یہ دوہرا معیار کیوں ۔۔۔۔؟؟؟

کسی ملک کی کامیابی و ترقی ،وہاں کے نظام سے وابستہ ہوتی ہے ۔ہمارے ملک کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ،ہر پل یہاں ترقی نہیں پستی ہمارا مقدر بن رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں تمام تر قومی و قدرتی وسائل اور محنتی و جفاکش افرادی قوت موجود ہونے کے باوجود ہم پستی و تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔تمام تر کوششوں اور اقدامات کرنے کے باوجود ،ہر چیز کے منفی اثرات کیوں مرتب ہو رہے ہیں ؟۔وجہ تو بہت ہی سادہ سی ہے کہ ہمارے ہاں نظام صحیح نہیں ہے،ہم ہر سطح پرخود ساختہ امتیاز،دھڑے بندی ،تفریق اور درجہ بندی شکار ہو کر رہ گئے ہیں ۔

حال ہی میں ایوانِ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں بشمول اپوزیشن اس امر پر متفق پائی گئیں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دس گنا اضافہ کیا جائے ۔جہاں اپنے مفاد کی بات ہوتی ہے تو یہ عوامی نمائندے چند گھنٹوں میں اپنی تنخواہوں میں اضافہ کی منظوری دے دیتے ہیں جبکہ غریب،لاچار،بے بس مزدوروں اور ضروریات ِ زندگی اور آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے چنگل میں پھنسے ملازمین کو تنخواہوں میں محض دس فیصد اضافہ کے لئے سال انتظار کرنا پڑتا ہے ، یہ دوہرا معیار کیوں؟ سو روپے کی چوری کرنے والے کو ہم مار مار کر بھرکس نکال دیتے ہیں جبکہ اربوں کی چوری کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں آخر کیوں ؟ عام آدمی اپنا ہر کام قطا ر میں لگ کر کرواتا ہے جبکہ خاص گھر بیٹھ کر ؟حلف کی پاسداری نہ کرنے والے اور وزیروں و مشیروں کے تلوے چاٹنے والے افسران کی اجارہ داری ہوتی ہے جبکہ ایماندار،خوددار اور فرض شناس افسران کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے ؟غریب ،نادار ،مفلس اور بے بس مریض سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں جبکہ شاہی خاندان کے افراد کو چھینک بھی آجائے توعلاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں ؟ عام آدمی کے بچے گورنمنٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ امراء کے مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں ؟امیرانصاف خرید لیتا ہے اور غریب کئی دہائیوں تک کورٹ کچہری کے چکروں میں پڑا رہتا ہے ؟ایماندار کو طنزیں سہنا پڑتی ہیں جبکہ بے ایمان اکڑ اکڑ کر چلتا ہے ؟سو روپے بل ادا نہ کرنے والے کا تو میٹر کاٹ لیا جاتا ہے مگر اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والے مگر مچھوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں؟جوجتنا بڑا چور ،اتنا بڑا عہدہ ؟یہاں لوگ کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کے پیسے لیتے ہیں ؟غریب ٹیکس دیتا ہے ،امیر ٹیکس چوری کرتا ہے ؟کسان ذلیل ہو کر رہ جاتاہے جبکہ ذخیرہ اندوز وں اور منافع خوروں کی چاندی ہو جاتی ہے ؟قانون پر عمل پیرا ہونے والا در در دھکے کھاتا ہے جبکہ قانون شکن مٹھی گرم کرنے والا منٹوں میں کام نکال لیتا ہے ؟بر وقت بل ادا کرنے والے لوڈ شیڈنگ برداشت کرتے ہیں جبکہ بجلی چور اور نادہندہ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ؟کیاعوام کے پیسوں کا ایسے ہی ضیاع ہوتا رہے گا؟کیا غریب کا بیٹا جس کی کوئی سفارش نہیں وہ بے روز گار ہی رہے گا؟ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟کیا ہمارے ہاں صرف چہرے ہی بدلیں گے؟ کیا ہمارے ملک میں’’جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس ‘‘کاقانون چلے گا؟ یہ دوہرا معیار کیوں ہے۔۔۔؟؟

انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتیں یوں تو ووٹ کی خاطر بڑے بلند و بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہیں کہ اگرہم اقتدار میں آئے تو نظام بدل دیں گے ،ہم یہ کر دیں گے ،ہم وہ کر دیں گے ، لیکن افسوس ہے کہ بات صرف وعدہ تک ہی محدود رہتی ہے ،عوام بے چاری کو یہ دوہرا معیار برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں ،میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اور پاکستان کو صف اوّل کی اقوام میں لاکھڑا کرنا ہے توہمیں اپنے دوہرے نظام ، معیار اور درجہ بندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور سب کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے ۔
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 96672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.