امریکہ کسی کا دوست نہیں
(Talib Ali Awan, Sialkot)
افغانستان میں جب روس نے جارحیت کی تو
امریکہ نے اپنے مفاد کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مل کرآج
کے’’ دہشت گردوں ‘‘اور کل کے ’’مجاہدین ‘‘کو مالی واخلاقی طور پر بھر پور
انداز سے سپورٹ کیا اور اس جنگ کو ’’افغان جہاد‘‘ کا نام دیا ،روس کو اس
جنگ میں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا حتیٰ کہ اس کا وجود برقرار نہ رہ
سکا اور اس طر ح دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی طاقت کئی ٹکروں میں تقسیم
ہوگئی ۔ پھراپنے چہیتے عراقی صدر ’’صدام حسین‘‘ کے ذریعہ سے ایران پر حملہ
کروایا اورسیکیورٹی کے بہانے کویت اور دیگر عرب ممالک میں اپنے اڈے قائم کر
لئے اور عربوں کے وسائل پر اپنی گرفت کو مضبوط بنا لی ، جب عراقی سربراہ
صدام حسین نے آنکھیں نکالنا شروع کی توعراق پر حملہ کرکے اسے نشان ِ عبرت
بنایا، در پردہ امریکہ کا مقصد دنیا میں اپنی اجارہ داری اور چودھراہٹ قائم
کرنا تھا ۔ نائن الیون کے بعددنیا کے حالات یکسر تبدیل ہو گئے،9/11 واقعات
میں اگرچہ کوئی پاکستانی کسی طرح بھی ملوث نہ پایا گیا ، پھر بھی امریکہ نے
افغانستان پر حملہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لئے پاکستانی حکومت پر اپنا
دباؤ بڑھایا ،پاکستان کے پھر پور سٹریجک تعاون سے اسامہ بن لادن کے بہانے
افغانستان پر جارحیت کا آغاز کر دیا ،اس نام نہاد ’’وار آن ٹیرر ‘‘ میں
افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرحدی علاقوں میں ڈراؤن حملوں کے نتیجہ
میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے ،جس میں کئی بے گناہ،ناحق اورمعصوم جانوں کا
ضیاع بھی ہوا ۔حکومت کی غلط خارجہ پالیسی کی بدولت پاکستان کو امریکہ کی
جنگ میں کودنے ، اپنانے اور ’’دوستی ‘‘ نبھانے کا جو خمیازہ بھگتنا پڑا اور
پڑ رہا ہے، اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی ۔ گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی
کے خلاف اس جنگ کے ’’آفٹر شاکس ‘‘ برداشت کررہے ہیں ،اسی ’’دوستی ‘‘ کے
بدلے پاکستان میں نظام ِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ،امن و امان تباہ و
برباد ہو گیا ،امریکہ نے ہماری اتنی قربانیوں کے باوجود ’’ڈومور،ڈومور‘‘ کی
رٹ لگائے رکھی ۔ جونہی امریکہ کا مطلب نکلا ہے ،اس نے آنکھیں پھیر لی ہیں ،
بار بار احسان جتلاتے ہیں ۔ دراصل تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ نے کبھی
ہمیں دوست سمجھا ہی نہیں ، اس نے پاکستان کو اپنی کالونی سمجھ رکھا ہے ،تبھی
تو آئے روز ہماری مقدس سرحدوں کی خلاف کرتا ہے ، ہماری خود مختاری اور سا
لمیت کو للکارتا ہے اور اوپر سے دھمکیاں دیتا ہے ۔
معلوم نہیں کیوں ؟ امریکہ کے ساتھ ہمارا رویہ ہمیشہ سے معزرت خواہانہ کیوں
ہوتا ہے ،وزیراعظم صاحب کو تو چھوڑیں کسی وزیر نے اس طرح سے بیان دیا جیسے
دینا چاہیے تھا ، وزیر خارجہ تو کوئی ہے ہی نہیں نہ کسی وزیر دفاع یا وزیر
اطلاعات نے میڈیا پر آکر کہا’’کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے ‘‘۔ہم
آپس میں تو ایک دوسرے کی بات تک برداشت نہیں کرتے اور دست و گریبان
ہوکربندوقیں تانیں رکھتے ہیں مگر جہاں بولنا ہوتا وہاں لمبی تان کر سو جاتے
ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔ہمارے کرتا دھرتاؤں اور عوام
کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس حقیقت کو جان لینا چاہیے کہ امریکہ سے ہماری
امداد کے لئے کوئی ’’بحری بیڑہ ‘‘ نہیں آئے گا ،امریکہ صرف اور صرف اپنے
مفادات کو مقدم رکھتا ہے ،اس کے لئے اسے چاہے ’’مجاہدین ‘‘ کو ’’دہشت گرد
‘‘ بنانا پڑے ، ایران ،عراق ،شام ،فلسطین ،مصر اور دیگر ممالک میں خانہ
جنگی کروانا پڑے یا اپنے دیرینہ ’’دوستوں ‘‘ کو ’’ٹشو پیپر ‘‘کی طرح
استعمال کرنا پڑے ،اسے کوئی عار نہیں ۔ اب اسی لئے ہمارے روایتی حریف بھارت
کے ساتھ معاہدے کرکے ’’پیار کی پینگیں ‘‘ بڑھا رہا ہے ،بلوچستان میں چاغی
کے قریب اپنے حالیہ ڈرون حملے کے بعد امریکی صدر کا بیان نہایت ہی قابل
تشویش ہے، باراک اوباما کے اس بیان کے بعد کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی
:
’’جب بھی خطرہ ہوا پاکستان میں کاروائیاں کریں گے ،پاکستان میں دہشتگردوں
کی محفوظ پناہ گاہیں دنیا کے لئے خطرہ ،ان کا خاتمہ کرینگے ‘‘۔ |
|