بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ ایران

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں ایران کا دو روزہ دورہ کیا اور ایرانی صدر حسن روحانی اور افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ چاہ بہاربندرگاہ کے راستے افغانستان ’’ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ کی سہولت مہیا کرنے کیلئے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ ہندوستان کی جانب سے ایران کی اس اہم بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچہ پر پچاس کروڈ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے اسی طرح ایران میں کئی مشترکہ منصوبوں پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بارہ معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ بھارت چارہ بہار بندرگاہ اور فری ٹریڈ زون بنانے کیلئے 50 کروڑ ڈالرفراہم کرے گا۔معاہدے کے بعد بھارت ایران اور افغان مارکیٹ تک رسائی حاصل کر سکے گا اور افغانستان کو بھی کراچی بندرگاہ کا متبادل میسر آ سکے گا۔ایرانی صدر حسن روحانی نے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کو ایران اور بھارت کے درمیان تعاون کی ایک بڑی علامت قرار دیا اور کہا ہے کہ ایران کے توانائی کے وسائل اور بھارت کی کانیں ایلومینیم ،اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کی راہ ہموار کرسکتی ہیں۔

جب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ شروع ہوا ہے بھارت سمیت دیگر کئی ملکوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ جنوبی ایشیا میں گیم چینجر کی حیثیت رکھنے والے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کیلئے نت نئی سازشیں اور منصوبے بنا رہے ہیں۔ خاص طور پر بھارت کو اکنامک کاریڈور کا یہ منصوبہ کسی طور ہضم نہیں ہو رہا۔اس حوالہ سے یہ خبریں کھل کر منظر عام پر آچکی ہیں کہ انڈیا نے راہداری منصوبہ ناکام بنانے کیلئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کا کام ہی اس منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے قتل و خون بہانا ہے۔ اس مقصد کے تحت وہ کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔اسی طرح بھارت کی جانب سے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ میں اربوں روپے خرچ کرنے کا مقصد بھی پاک چین اقتصادی منصوبوں کے جواب میں افغانستان تک زمینی راستہ حاصل کرنا ہے۔ ہندوستان نے خطہ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی سے فائدے اٹھاتے ہوئے گذشتہ چند برسوں میں افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ مضبوط کیا اور چاہ بہار پورٹ تک براہ راست رسائی کیلئے220کلومیٹر سڑک کی تعمیر بھی مکمل کرلی ہے جس پر دس کروڑ ڈالر کے اخراجات آئے ہیں ۔ انڈیا مشرق وسطیٰ کی منڈیوں تک رسائی کیلئے ایران کے جنوب میں واقع چاہ بہار کی تعمیر و توسیع پر کام کر رہا ہے اور جتنا جلد ممکن ہو سکے اس کی تکمیل چاہتا ہے۔بھارت ایران کو سالانہ چار ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔وہ یہ بندرگاہ اس لیے بھی بنانا چاہتا ہے کہ اس سے مشرق وسطی اور خلیجی ممالک کے درمیان سفری اخراجات اور وقت میں تین گنا تک کمی ہو سکتی ہے۔دبئی کی ایک مقامی کمپنی کے ہیڈ آف کنسلٹنگ رابن ملز کا کہنا ہے کہ چاہ بہار پاکستان میں چین کی مدد سے بننے والی بندرگاہ گوادر کے ساحل سے قریب ہے ، لہذا بھارت کے لیے اس میں سٹریٹجک عنصر بھی ہے۔ ایرانی بندرگاہ کا یہ علاقہ خلیج عمان میں پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہے۔ کہاجاتا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس منصوبے پر ماضی میں بہت کم کام کیا گیاتاہم اب بھارت اسے فری ٹریڈ زون کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ کامن ویلتھ میں شامل آزاد ریاستوں اور مشرق وسطی کے ممالک تک رسائی حاصل ہو سکے لیکن میں سمجھتاہوں کہ یہ صرف ایک پہلو ہے جسے پیش کیا جارہا ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان چاہ بہار کی بندرگاہ کو پاکستان کیخلاف منفی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور مستقبل میں اس کے پاکستان کیخلاف عزائم اچھے نہیں ہیں۔ جس وقت دونوں ملکوں کے مابین یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت ہی ان خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ انڈیا اس مقام کو پاکستان کیخلاف تخریبی کاروائیوں کیلئے استعمال کرنے سے باز نہیں رہے گااور اس وقت بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔کچھ عرصہ قبل کلبھوشن یادیونامی ہندوستانی نیوی کے جس حاضر سروس افسر کو گرفتار کیا گیا وہ ایرانی پاسپورٹ پر آکر ہی یہاں دہشت گردی کی آگ بھڑکاتا رہا۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد حساس اداروں کی رپو رٹوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ را کے دیگر کئی جاسوس چاہ بہار میں موجود ہیں اور یہ نیٹ ورک پچھلے کئی برسوں سے کام کر رہا ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض ایرانی حکومتی ذمہ داران کو اس ساری صورتحال کا علم نہیں تھا تو کیا ایرانی انٹیلی جنس ان سارے معاملات سے واقف نہیں تھی اور یہ کیسے ممکن ہے کہ را کے افسر اور جاسوس وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف تخریب کاری اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کھیل کھیلتے رہے اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوا؟۔ ایرانی اداروں کی مرضی کے بغیر چاہ بہار بیٹھ کر پاکستان کیخلاف آپریشن کس طرح انجام دیے جاسکتے ہیں؟۔مبصرین کا یہ کہنا درست ہے کہ ایران کے حکومتی ذمہ داران بڑی شدومد سے یہ کہتے رہے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے لیکن اب جبکہ ہندوستان کی طرف سے ان کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک سازشوں کا مسئلہ سامنے آیا تو انہیں کھل کر اس کی وضاحت کرنی چاہیے اوراس تاثر کو دور کرنا چاہیے تھا کہ یہ سب کچھ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر ایران ان معاملات سے بے خبر تھا تواسے چاہیے تھا کہ وہ ہندوستان کے دہشت گردانہ کردار کی مذمت کرتا اور ساری دنیا کو بتایا جاتا کہ انڈیا نے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی تائید کے بغیر ان کی سرزمین ہمسایہ ملک پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیابلکہ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر سمیت اس سے مزید کئی معاہدے کئے گئے ہیں۔ بہرحال ابھی حال ہی میں طالبان کمانڈر ملا اختر منصور کو بلوچستان میں ڈرون حملہ کر کے شہید کیا گیا۔ ان کے متعلق بھی یہی بات سامنے آئی ہے کہ وہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو ان کی پاکستان داخل ہونے کی اطلاع فراہم کرنے کے حوالہ سے ایران کی جانب بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایران اور افغانستان کا واضح جھکاؤ اب ہندوستان کی جانب ہے اور امریکہ بھی انہیں مکمل طو رپر سپورٹ کر رہا ہے۔جب تک امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں موجود ہیں انڈیا کو وہاں کھل کھیلنے کا موقع ملے گا اور افغانستان میں پاکستان کی حمایت یافتہ حکومت کا برسراقتدا ر آنا مشکل ہے۔ اس ساری صورتحال اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندانہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور ایران و افغانستان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ انڈیا اور امریکہ سے دوستیاں پروان چڑھانے کی بجائے پاکستان سے تعلقات مضبوط کریں کیونکہ امریکہ نے نہ تو پہلے کبھی کسی مسلم ملک سے وفا کی ہے اور نہ آئندہ اس سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہ آپ سے بھی صرف اپنے مفادات حاصل کرے گااور وقت آنے پر دھوکہ دہی اور نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئے گا۔

 
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.