گزشتہ چندماہ کے انتہائی قلیل عرصہ میں
امریکیوں نے جب دیکھاکہ سعودی ساری مسلم دنیا کی رہبری سنبھال چکے ہیں
توانہوں نے دم ہلانے میں دیرنہیں کی۔انہیں پتہ چل چکاہے کہ سعودی عرب کے
خلاف بیان بازی اور قانون سازی جیسی حرکتوں کے نتائج سعودی عرب سے آگے عرب
دنیااور افریقہ و ایشیاتک جائیں گے اور پھرامریکہ کو سعودی عرب جیسی ہی منہ
توڑ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کامقابلہ کرنا امریکہ کے لیے فی الحال
کسی طرح ممکن نہیں۔امریکہ کی افغانستان میں پھنسی گردن ابھی تک نکل نہیں
پارہی اور وہ اسے نکالنے کے لیے جو حربے استعمال کر سکتاتھا‘ وہ کر چکاہے۔
افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانے کے لیے قطرمیں افغان طالبان کے دفترکے
قیام‘ان کی قیادت کی رہائی ‘افغان حکومت میں برابر حصہ داری اور پاکستان کے
پاؤں پکڑنے تک وہ سب کچھ کررہاہے لیکن بات اب تک بن نہیں پائی ہے‘سو کھیل
کو نیا رخ دیتے ہوئے امریکہ نے بھارت اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات
انتہائی گہرے کیے ہیں کہ اس طرح شاید اس کی کچھ خلاصی ہوجائے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ ایک دھمکی میں پر سب کچھ چھوڑ کر سرپٹ ریاض کی طرف
بھاگنے والے باراک اوبامہ سعودیوں کو اپنا’’مطلبی اتحادی‘‘ قرار دے چکے ہیں۔
چند ہفتے پہلے ہی تو باراک اوبامہ نے اٹلانٹک میگزین کو اپنے انٹرویو میں
کہاتھا کہ سعودی امریکہ کو استعمال کر کے فائدہ زیادہ اٹھاتے ہیں اور اس
کامعاوضہ بہت کم ادا کرتے ہیں۔یہ اتحاد مطلبی ہے۔اس پر بھی سعودی عرب نے
سخت ردعمل کااظہارکیاتھا۔اس سے قبل گزشتہ سال شاہ سلمان نے کیمپ ڈیوڈ کے
مقام پر عرب دنیاکی اس سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کردیاتھا جو
امریکہ نے بلائی تھی۔امریکہ کوسعودی عرب کے معاملے میں زیادہ تشویش اس بات
کی بھی ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ سے اسلحہ خریدنا انتہائی کم کرکے مسلم
ممالک کے اتحاد کو مضبوط کرناشروع کردیاہے۔سعودی عرب کی کوشش ہے کہ مسلم
ممالک ہرلحاظ سے اپنے دفاع اور جنگ میں خود کفیل ہوں اور انہیں اس حوالے سے
کسی دوسرے ملک پر کوئی انحصار نہ کرناپڑے۔ معاشی طورپر مسلم دنیاکو یکجان و
مضبوط کرنے کے لیے سعودی عرب نے 2کھرب ڈالر کے دنیا کے سب سے بڑے امدادی
فنڈکے قیام کااعلان کیاہے۔ سعودی عرب جو پہلے اپنی معیشت کا90فیصد حصہ تیل
کی فروخت سے چلاتاتھا‘اب اس نے اسے 70فیصدتک کرلیاہے۔ سعودی عرب کااہم ترین
اتحادی اور دوست متحدہ عرب امارات توبہت پہلے ہی تیل سے اپنی معیشت کو آزاد
کررہاہے۔
26اپریل کے روز سعودی عرب کی کابینہ نے ایک منصوبہ کی منظوری دی جس کے تحت
تیل کی دولت سے مالا مال مملکت میں اہم معاشی تبدیلی آ سکتی ہے۔ اس پراجیکٹ
کے تحت دنیا کی سب سے بڑی سعودی آئل کمپنی آرامکومیں حصہ داری حاصل کی جائے
گی اور دنیا کا سب سے بڑا سرکار ی اقتصادی فنڈ قائم کیا جائے گا۔ شاہ سلمان
نے خودٹیلی ویژن پر ایک اعلان کرتے ہوئے اس حوالے سے ویژن 2030 منصوبہ کی
منظوری دی تھی جس میں انہوں نے سعودی شہریوں سے کہاتھاکہ اس کی کامیابی کو
یقینی بنانے کے لئے کام کریں۔ نائب ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے ایک
تفصیلی انٹرویو میں ویژن 2030ء کے خدوخال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے
واضح کیا کہ ویژن پروگرام جاری رہے گا خواہ تیل کی قیمتیں زیادہ ہوں یا کم۔
انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ یہ پروگرام تیل کی بلند قیمتوں کا محتاج
نہیں بلکہ اس کا تعلق تیل کی کم قیمتوں سے ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ ’’ہم
2030ء میں بھی تیل کے بغیر جی سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ شاہ
عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں نے مملکت کو تیل کے بغیر قائم کیا اور چلایا
تھا۔ سعودی عرب کے تین ایسے طاقتور پہلو ہیں جن میں کوئی ہمارا مقابل نہیں۔
عرب اور اسلامی دنیا میں ہماری وسعت، ہماری سرمایہ کاری کی قوت اور ہمارا
جغرافیائی محل وقوع۔ شاہ سلمان پل دنیا میں اہم ترین خشکی کی گزرگاہ ہو گا
جو سرمایہ کاری اور تعمیرات کی دنیا میں بہت بڑے مواقع فراہم کرے گا۔
جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سعودی عرب کے راستے کھربوں کی مالیت کا سامان
گزرے گا۔ مملکت نے ابھی تک معدنیات سے پانچ فی صد سے زیادہ فائدہ نہیں
اٹھایا اور وہ بھی غیرمناسب طریقے سے۔ محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم حکومت کی
آمدنی میں اضافہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اس وقت آمدنی کے دو بڑے ذرائع
ہیں۔ پہلا ذریعہ سرمایہ کاری اور تیل کے متبادل ذرائع آمدنی ہیں۔ ہم نے غور
و خوض کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آمدنی کے 70 سے زیادہ ایسے ذرائع بھی
ہیں جنہیں استعمال نہیں کیا گیا۔
عرب قائدین اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے سعودی عرب کے اعلان کردہ ویژن
2030ء پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کو دوررس، حوصلہ افزا اور
شاندار قرار دیا تھا۔ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید نے ٹویٹر پر لکھا
تھاکہ ’’سعودی ویژن 2030ء فیصلہ ساز، شاہ اور اس شخصیت کی جانب سے ایک
شاندار پروگرام ہے جو تاریخی فیصلے کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے پرنس محمد بن سلمان
کے انٹرویو کے حوالے سے کہا کہ ’’یہ مستقبل کی نسلوں کے لئے ایک اعزاز ہے۔
اس ویژن سے سعودی مملکت اور پورے خطہ کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘ دبئی کے
حکمران محمد بن راشد نے بھی ٹویٹر پر اس ویژن پر مثبت ردعمل میں لکھا تھاکہ
میں آج دوسرے اعلانات کی طرح اس اعلان کو بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ یہ ویژن
سعودی مملکت اورخطہ کے لئے ایک نوجوان قیادت کے تحت خواہش اور امید سے
بھرپور ہے اور یہ اپنی کامیابیوں کے ذریعے دنیا کو حیران کر دے گا۔‘‘ بحرین
کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ سعودی نائب
ولی عہد کا العربیہ نیوز چینل کے جنرل منیجر اور معروف صحافی ترکی الدخیل
کے ساتھ انٹرویو تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
سعودی عرب کے اعلان کردہ ویژن کے بارے میں مختلف تجزیہ کاروں اور مبصرین نے
بھی اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کونسل برائے امریکی ایوان
تجارت کے صدر نشین کرسٹوفرایچ جانسن کا کہنا ہے کہ ’’ان تبدیلیوں سے نہ صرف
سعودی مملکت میں معاشی استحکام میں مدد ملے گی بلکہ اس سے امریکی کمپنیوں
کے لئے بھی مختلف شعبوں اور علاقوں میں طویل المیعاد سرمایہ کاری کے مواقع
پیدا ہوں گے‘‘۔ لندن سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی ڈیوٹ گروپ کے فنڈ منیجر
علی الناصر نے لکھا ہے کہ ’’اب سوال یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیسے کیا جائے
گا۔ انہوں (پرنس محمد بن سلمان) نے تمام درست باتیں کہی ہیں۔ وہ اس ویژن کے
بارے میں بھی بہت مضبوط اور مرتکز نظر آتے ہیں اور انہیں اس میں دلچسپی ہے۔
اس کے پس پشت ایک مضبوط اور توانا محرک کارفرما ہے اور مقامی سطح پر ان کے
ایجنڈے کے لئے ایک مضبوط حمایت پائی جاتی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے مشرق
وسطی اور وسط ایشیا کے لئے ڈائریکٹر مسعود احمد نے کہا کہ ’’معیشت کو تیل
کے بجائے مختلف النوع بنانا دراصل ایسی تبدیلی ہے جس کی سعودی عرب جیسی
مملکت کو ضرورت ہے۔ ’’ویژن 2030ء‘‘ پر سعودی عرب کی سٹاک مارکیٹ میں بھی
مثبت ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔اس کے بعد سے ہر روز سعودی معیشت ایک بار
پھر مزید بہتری کی جانب گامزن نظر آتی ہے۔سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ابیہی
پالیسی دیگر عرب ریاستیں بھی اپنا رہی ہیں جس نے ان کے دشمنوں کوپریشان
کردیاہے کہ یہ ممالک اب آنکھیں کھول کرمتحدہ ومتفقہ اورجارحانہ پالیسیاں
بنارہے ہیں۔مسلم دنیانے سعودی پرچم تلے ایک ہوکرسارے ہی دشمنوں کو منہ توڑ
جواب دیاہے۔ اگریہ پالیسیاں یونہی آگے بڑھیں تو ان شاء اﷲ وہ وقت دورنہیں
کہ مسلم دنیا دہشت گردی کے عفریت سے بھی نجات پالے اوراس کا خاتمہ ہوجائے
جو ان کے دشمنوں کو قبول نہیں اور وہ بہت بڑا نیا محاذ جنگ کھولنے کی
کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔اس نئی سازش کوناکام بناناہی مسلم دنیاکی اصل
کامیابی ہوگی۔ |