بیلجیئم دھماکے۔رپورٹنگ پر ایک نظر

ایک افسوسناک واقعہ کہ جس نے ان پاکستانیوں کے دکھ ہرے کر دیے تھے کہ جن کے پیاروں کو بھی یونہی بلا وجہ موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا تھا۔تھائی لینڈ،پیرس،ترکی کے بعد اب برسلز کے دارالحکومت بیلجیئم میں ایئر پورٹ اور میٹر و اسٹیشن پر دھماکے کر کے سینکڑوں شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیاگیا ۔کئی شہری ہلاک ہوئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔مزید اطلاعات آنے تک مزید دھماکوں کی دل خراش خبریں آتی رہیں ۔وقفے وقفے سے 7دھماکے ہوگئے۔ تمام مناظر دیکھتے ہوئے بہت دکھ ہو ااور دل سے آواز آئی کہ کیسے ایک چھوٹا سا گروہ جو کہ دنیا کے مختلف کونوں میں کہیں بھی حملہ کر کے سکیورٹی پر غالب آ سکتا ہے۔سوالوں نے سر اٹھایا کہ کیااس گروہ کے لئے ہائی سکیورٹی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی؟کیااس کی ہر جگہ پہنچ لامحدود ہے؟ آخر کیوں اب یہ اتنی آسانی سے مہذب و منظم اقوام کے در بھی پار کر نے لگا ہے؟

اور یہ کہ کیا یہ اﷲ کی طرف سے کوئی کڑا امتحان ہے نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے!!
کئی ممالک آپس میں کچھ باتوں پر الجھاؤ رکھتے ہیں ۔سعودی عرب ،روس ،شام،اسرائیل،ترکی اور ایران کے درمیان چلنے والی نا اتفاقیوں اور جھگڑوں میں مٹھی بھر یہ لوگ اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں اور افراتفری پھیلا رہے ہیں ۔ دنیا کے دیگر کئی ممالک موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے اور مستقبل میں پانی کی قلت سے درپیش ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے میں تگ و دو کر رہے ہیں ۔سب کی کوئی نہ کوئی سرگرمیاں چل رہی ہیں کہ جس سے روشن مستقبل حاصل کیا جا سکے ۔اس دوران جب کسی ملک میں کوئی شدت پسند کوئی کارروائی کرتا ہے تو سب کی توجہ اس جانب مبذول ہو جاتی ہے اور ہر کوئی آپس کے اختلافات کو بھول کراپنے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال پرمزید بہتری کے لئے نظر ثانی کرتا ہے۔اس صدمے کو جھیلنے والے ملک و قوم سے اظہار افسوس کرتا ہے۔پہلے تو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز صرف پاکستان میں ہونے والے دھماکے و حملے ہوا کرتے تھے مگر اب ان دھماکوں نے دنیائے عالم کے مختلف ممالک کا رخ کر لیا ہے۔ماضی میں ناروے میں دھماکے سے ۱۱۷ افراد،اسپین میں ۱۹۱ افراد،پیرس میں اخباری جریدے کے دفتر میں گھس کر فائرنگ سے ۱۰ سے زائد افراد ،پیرس میں ہی چھ سے زائد مقامات پر یکے بعد دیگرے دھماکوں میں ۱۷۸ افراد ہلاک ہوئے اور ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں۲۸ افراد ہلاک ہوئے۔ان واقعات کا بڑھتے جانا اقوام عالم کے لئے شدید نوعیت کا لمحہ ٔ فکریہ ہے۔۔!

اس ساری صورتحال کے دوران میں نے کچھ نیوز چینلز کی اس واقعے پر رپورٹنگ کا جائزہ لینا شروع کیا۔پہلے تو دو مختلف پاکستانی نیوز چینلز دیکھتی رہی۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں بار بار کافی وقت تک وہی چند مناظر دکھائے جاتے ہیں ،میل اور فی میل نیوز اینکرز کو سکرین کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ واقعے کی ہاتھ لگنے والی خبروں اور تفصیلات کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔ان کی آواز کا اتارچڑھاؤ ، اندازِ بیاں اور لب و لہجہ واقعے کی سنگینی کو خوب بیان کر رہا ہوتا ہے اگرواقعہ واقعی سنگین ہے (ورنہ اکثراوقات معمولی بات پر بھی کچھ زیادہ ہی اوور ہو کر آوازمیں تاثرات کے چوکے چھکے لگاتے سنائی دیتے ہیں )۔خیر اس دن بھی ان نیوز چینلز پر لمحہ بہ لمحہ خبر کئی گھنٹوں تک مسلسل دی جاتی رہی۔نیوز اینکرزقدرے تیز بول رہے تھے ۔ ساتھ ساتھ اپنے رپورٹرز سے صورتحال سے آگاہی بھی حاصل کر رہے تھے۔اس دوران چینل تبدیل کرتے ہوئے ایک انگریزی نیوز چینل لگتے ہی ر یموٹ پر انگلی اور چینل پر نظر ٹھہر گئی۔اس چینل پر نیوز اینکر پرسکون انداز میں بیٹھا حادثے کے بارے میں بتا رہا تھا۔ نیچے انگریزی میں صرف یہی لکھا تھا جس کا ترجمہ تھا، برسلزدھماکے:۱۱ہلاک،۲۰زخمی ۔کافی دیر تک یہی لکھا رہا۔ اس دوران صرف دو بار ایئر پورٹ کے ایک ہی منظر کی جھلک دکھائی گئی ۔پھر رپورٹر سے گفتگو کی گئی وہ بھی لائیو رپورٹنگ کر رہا تھا لیکن بیک گراؤنڈ میں کوئی اسٹوڈیو جیسی جگہ لگ رہی تھی کہ جہاں سے وہ سارے معاملے پر بغیر جائے وقوعہ پرہوتے ہوئے پریشان کن صورتحال دکھا کر رپورٹنگ کرنے کی بجائے نارمل انداز میں دھماکوں کے بارے میں معلومات دے رہا تھا۔ان دونوں کی گفتگو کے دوران بھی کوئی ایسی بات دیکھنے میں نہیں آئی کہ جس سے لگے کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے یا لوگوں کو پریشان کیا جا رہا ہو۔کوئی شور نہیں مچایا جا رہا تھا۔ نیچے ٹکرز میں بزنس کی خبریں چل رہی تھیں۔حادثے کی بہت کم فوٹیج دکھائی گئی۔اس کے بعد وقفہ آگیا اور خبر ختم ۔اس کے برعکس ہمارے ہاں ایک نیوز چینل پر اس وقت تک ایک غیر ملکی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰ ہلاک اور ۱۰۰ زخمی بتائے جا رہے تھے۔ یو اے ای کے ایک انگریزی چینل پر بھی بہت ہی نارمل انداز میں اینکرنگ کی جا رہی تھی۔وہاں فوٹیج دکھاتے ہوئے واقعے کے بارے میں بتایا جا رہا تھا ۔اس کے بعد ریموٹ پر پھر سے انگلی چلنے لگی اور مزید انٹر نیشنل نیوز چینلز کی تلاش شروع ہو گئی۔ ایک دو عربی نیوزچینلز دیکھنے کا موقع ملا۔اس پر نیوز کاسٹر کا یہ واقعہ بیان کرنے کا انداز قدرے نارمل تھا۔ ساتھ ساتھ فوٹیج دکھائی جا رہی تھی اور تفصیلات دی جا رہی تھیں ۔کوئی شورنہیں مچایا جا رہا تھا۔دوسرے چینل پر نیوز کاسٹر عربی میں بولتے ہوئے رپورٹر سے معلومات لے رہا تھا اور رپورٹر بھی غیر معمولی طور پر پرسکون کھڑا رپورٹنگ کر رہا تھا۔ان چینلز پر کہیں بھی کوئی شور شرابہ یا پریشانی پھیلانے والی کیفیت و حالات پیدا نہیں کئے جا رہے تھے بلکہ خود کواوراپنے انداز ِ بیاں کو نارمل رکھتے ہوئے واقعہ کی تفصیلات عوام تک پہنچائی جا رہی تھیں۔فوٹیج میں کوئی ایسا منظر نہیں دکھایا گیا کہ جس سے دیکھنے والوں کو ذہنی و دلی اذیت ہو۔ان چینلز سے رخصت چاہی تو پھر کسی اور ملک کے نیوز چینل کی تلاش میں نظریں گشت کرنے لگیں۔پھر ہوا یوں کہ جہاں ہاتھ رکا وہاں ایک افراتفری کا عالم مچا تھا ۔اس واقعے کی تفصیلات دیتے ہوئے نیوز کاسٹر بری طرح چلا رہی تھی۔ اس کی آواز میں ایک طوفان برپاتھا جس کو وہ اگلتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو شدید پریشانی کے کچوکے لگا رہی تھی۔لب و لہجے میں اتار چڑھاؤ کی بہت تیزی تھی۔ آنکھوں و کانوں نے پہلی مرتبہ اس قدر افراتفری پھیلا دینے والی یہ انڈین اینکرنگ دیکھی و سنی تھی!!خیال آیا کہ ہمارا میڈیا تو اس معاملے میں ان سے بہت پیچھے ہے اور شکر ہے کہ پیچھے ہے ورنہ کسی بھی معاملے پر ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو کہ گھر سے باہر حالات انتہائی نازک ہیں یا ایسا لگے کہ بیان کیا جانے والا معاملہ بہت پیچیدہ ہے( جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہو)۔جب کچھ دیر بعد پھر سے پاکستانی چینلز دیکھنے کے بعد اسی انڈین چینل کا رخ کیا گیا تو اب کی بار یہ ذمہ داری ایک میل نیوز کاسٹر ادا کر رہاتھا۔وہ بھی کم نہیں تھا ۔آواز میں وہی خصوصیات پائی گئیں جو کچھ دیر پہلے ساتھی فی میل اینکر کی آواز میں دھمال کر رہی تھیں ۔ویڈیو ا ور تصویروں میں بھارتی مسافروں کے قدرے نارمل تاثرات پر کہا جا رہا تھا کہ'' بھارتی مسافر بہت پریشان لگ رہے ہیں اور ان کے چہروں پر پریشانی کے تاثرات ہیں''۔یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی ۔ بہت عجیب لگا ۔پھر پتا چلا کہ دونوں ممالک کے شہریوں کوکون نزدیک نہیں آنے دیتا،کون ہے جو اشتعال انگیز ی پھیلاتا ہے،جو خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیتا ہے اور نفرت کو ہوا دیتا ہے!!!

ان 7سے 8نیوز چینلز میں خبروں کے انداز ِ بیاں میں بہت تبدیلی پائی گئی۔ہمارے ہاں کے پرائیویٹ نیوز چینلز کوباہر کے نیوز چینلز کی مثبت خصوصیات پر ضرور توجہ دینی چاہئے۔ تاکہ خبروں میں یہ جو ہر وقت حالات کی خستہ حالی کوبہتری کی طرف گامزن ترقی پر فوقیت دی جاتی ہے ،اس خبری خصوصیت میں تبدیلی لائی جا سکے!
shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 25398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.